الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
76. بَابُ إِلْزَاقِ الْمَنْكِبِ بِالْمَنْكِبِ وَالْقَدَمِ بِالْقَدَمِ فِي الصَّفِّ:
76. باب: صف میں کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونا۔
(76) Chapter. To stand shoulder to shoulder and foot to foot in the row.
حدیث نمبر: Q725
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال النعمان بن بشير: رايت الرجل منا يلزق كعبه بكعب صاحبه.وَقَالَ النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ: رَأَيْتُ الرَّجُلَ مِنَّا يُلْزِقُ كَعْبَهُ بِكَعْبِ صَاحِبِهِ.
‏‏‏‏ اور نعمان بن بشیر صحابی نے کہا کہ میں نے دیکھا (صف میں) ایک آدمی ہم میں سے اپنا ٹخنہ اپنے قریب والے دوسرے آدمی کے ٹخنہ سے ملا کر کھڑا ہوتا۔

حدیث نمبر: 725
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمرو بن خالد، قال: حدثنا زهير، عن حميد، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" اقيموا صفوفكم فإني اراكم من وراء ظهري، وكان احدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي، وَكَانَ أَحَدُنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ".
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر بن معاویہ نے حمید سے بیان کیا، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، صفیں برابر کر لو۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں اور ہم میں سے ہر شخص یہ کرتا کہ (صف میں) اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا قدم (پاؤں) اس کے قدم (پاؤں) سے ملا دیتا تھا۔

Narrated Anas bin Malik: The Prophet said, "Straighten your rows for I see you from behind my back." Anas added, "Everyone of us used to put his shoulder with the shoulder of his companion and his foot with the foot of his companion."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 692


   صحيح البخاري718أنس بن مالكأقيموا الصفوف أراكم خلف ظهري
   صحيح البخاري725أنس بن مالكأقيموا صفوفكم أراكم من وراء ظهري
   صحيح البخاري719أنس بن مالكأقيموا صفوفكم وتراصوا أراكم من وراء ظهري
   صحيح البخاري6644أنس بن مالكأتموا الركوع والسجود أراكم من بعد ظهري إذا ما ركعتم وإذا ما سجدتم
   صحيح البخاري742أنس بن مالكأقيموا الركوع والسجود أراكم من بعدي إذا ركعتم وسجدتم
   صحيح البخاري419أنس بن مالكأراكم من ورائي كما أراكم
   صحيح مسلم959أنس بن مالكأقيموا الركوع والسجود أراكم من بعدي إذا ركعتم وسجدتم
   صحيح مسلم960أنس بن مالكأتموا الركوع والسجود أراكم من بعد ظهري إذا ما ركعتم وإذا ما سجدتم
   صحيح مسلم961أنس بن مالكلا تسبقوني بالركوع ولا بالسجود ولا بالقيام ولا بالانصراف أراكم أمامي ومن خلفي لو رأيتم ما رأيت لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا ما رأيت يا رسول الله قال رأيت الجنة والنار
   صحيح مسلم976أنس بن مالكأتموا الصفوف أراكم خلف ظهري
   سنن النسائى الصغرى1118أنس بن مالكأتموا الركوع والسجود أراكم من خلف ظهري في ركوعكم وسجودكم
   سنن النسائى الصغرى1364أنس بن مالكلا تبادروني بالركوع ولا بالسجود ولا بالقيام ولا بالانصراف أراكم من أمامي ومن خلفي لو رأيتم ما رأيت لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا قلنا ما رأيت يا رسول الله قال رأيت الجنة والنار
   سنن النسائى الصغرى846أنس بن مالكأقيموا صفوفكم وتراصوا أراكم من وراء ظهري
   سنن النسائى الصغرى815أنس بن مالكأقيموا صفوفكم وتراصوا أراكم من وراء ظهري
   سنن النسائى الصغرى814أنس بن مالكاستووا أراكم من خلفي كما أراكم من بين يدي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 814  
´سیدھے کھڑے ہو جاؤ کتنی بار کہنا ہے؟`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: برابر ہو جاؤ، برابر ہو جاؤ، برابر ہو جاؤ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی اسی طرح دیکھتا ہوں جس طرح تمہیں اپنے سامنے سے دیکھتا ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 814]
814 ۔ اردو حاشیہ:
➊ تین دفعہ کہنا مستحب ہے ورنہ یہ ضرورت پر موقوف ہے۔ اگر صفیں درست ہوں تو ایک دفعہ کہنا بھی ضروری نہیں اور اگر صفوں میں خرابی تین دفعہ کہنے کے باوجود باقی رہے تو ظاہر ہے زیادہ مرتبہ کہا جائے گا۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز کی حالت میں پچھلی صفوں کو دیکھنا آپ کا معجزہ تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے درست اور قول مختار اسی کو قرار دیا ہے نیز یہ اپنے ظاہر پر محمول ہے۔ دیکھیے: [فتح الباری: 666/1 تحت حدیث: 418]
اس کی تاویل کر کے اسے اس کے ظاہری مفہوم سے پھیرنا مسلک سلف کے خلاف ہے تاہم یہ دیکھنا صرف نماز کی حد تھا (یعنی دوران امامت میں) نہ کہ ہر وقت آپ اپنے پیچھ کا مشاہدہ کرسکتے تھے نیز کہا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر پر ایک آنکھ تھی اس سے آپ ہمیشہ دیکھتے رہتے تھے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ کے دونوں کندھوں پر سوئی کے ناکے کے برابر دو چھوٹی چھوٹی آنکھیں تھیں۔ بہرحال یہ سب تخمینے اور اندازے ہیں دلیل ان کی پشت پناہی نہیں کرتی۔ واللہ اعلم۔ مزید دیکھیے: [فتح الباري: 666/1]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 814   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 846  
´فوت شدہ نماز کی جماعت کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہنے سے پہلے آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی صفوں کو درست کر لیا کرو، اور باہم مل کر کھڑے ہوا کرو، کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 846]
846 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت کا باب سے کوئی تعلق نہیں۔ غالباً راویٔ کتاب یا ناسخ کی غلطی سے یہاں لکھی گئی، نیز یہ روایت پیچھے گزر چکی ہے۔ (فوائد کے لیے دیکھیے، حدیث: 815: 816)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 846   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 725  
725. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اپنی صفوں کو درست رکھا کرو کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے بھی دیکھتا ہوں۔ اس کے بعد ہم میں سے ہر شخص اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا قدم اپنے ساتھی کے قدم سے ملا دیتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:725]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام الدین فی الحدیث امام بخاری ؒ نے یہاں متفرق ابواب منعقد فرما کر اور ان کے تحت متعدد احادیث لا کر صفوں کو سیدھا کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔
اس سلسلہ کا یہ آخری باب ہے۔
جس میں آپ نے بتلایا ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صف میں ہر نمازی اپنے قریب والے نمازی کے مونڈھے سے مونڈھا اور قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہو۔
جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر ؓ کا بیان نقل ہوا کہ ہم اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہوا کرتے تھے۔
حضرت انس ؓ کا بیان بھی موجو دہے۔
نیز فتح الباری، جلد: 2 ص: 176 پر حضرت انس ؓ ہی کے یہ الفاظ بھی منقول ہیں کہ لو فعلت ذلك بأحدهم الیوم لنفر کأنه بغل شموس اگر میں آج کے نمازیوں کے ساتھ قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملانے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ اس سے سرکش خچر کی طرح دور بھاگتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد صحابہ کے ختم ہوتے ہوتے مسلمان اس درجہ غافل ہونے لگے تھے کہ ہدایت نبوی کے مطابق صفوں کو سیدھا کرنے اور قدموں سے قدم ملانے کا عمل ایک اجنبی عمل بننے لگ گیا تھا۔
جس پر حضرت انس ؓ کو ایسا کہنا پڑا۔
اس بارے میں اور بھی کئی ایک احادیث وارد ہوئی ہیں۔
روی أبوداود و الإمام أحمد عن ابن عمر أنه علیه الصلوٰة والسلام قال أقیموا صفوفکم و حاذوا بین المناکب و سدوا الخلل و لینوا بأیدي إخوانکم لا تذروا فرجات الشیطان من وصل صفا و صله اللہ و من قطع صفا قطعه اللہ و روی البزار بإسناد حسن عنه علیه الصلوٰة و السلام من سد فرجة في الصف غفر اللہ و في أبي داود عنه علیه الصلوٰة والسلام قال خیارکم ألینکم مناکب في الصلوٰة۔
یعنی ابوداؤد اور مسند احمد میں عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفیں سیدھی کرو اور کندھوں کو برابر کرو۔
یعنی کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جاؤ اور جو سوراخ دو نمازیوں کے درمیان نظر آئے اسے بند کردو اور اپنے بھائیوں کے ساتھ نرمی اختیار کرو اور شیطان کے گھسنے کے لیے سوراخ کی جگہ نہ چھوڑو۔
یاد رکھو کہ جس نے صف کو ملایا خدا اس کو بھی ملا دے گا اور جس نے صف کو قطع کیا خدا اس کو قطع کرے گا۔
بزار میں سند حسن سے ہے کہ جس نے صف کی دراڑ کو بند کیا خدااس کو بخشے۔
ابوداؤد میں ہے کہ تم میں وہی بہتر ہے جو نماز میں کندھوں کو نرمی کے ساتھ ملائے رکھے۔
وَعَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ:
«كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يُسَوِّي صُفُوفَنَا كَأَنَّمَا يُسَوِّي بِهِ الْقِدَاحَ حَتَّى رَأَى أَنَّا قَدْ عَقَلْنَا عَنْهُ، ثُمَّ خَرَجَ يَوْمًا فَقَامَ حَتَّى كَادَ أَنْ يُكَبِّرَ فَرَأَى رَجُلًا بَادِيًا صَدْرُهُ مِنْ الصَّفِّ، فَقَالَ:
عِبَادَ اللَّهِ لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ»
رَوَاهُ الْجَمَاعَة إلَّا الْبُخَارِيَّ فَإِنَّ لَهُ مِنْهُ:
«لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ» وَلِأَحْمَدَ وَأَبِي دَاوُد فِي رِوَايَة قَالَ:
فَرَأَيْتَ الرَّجُلَ يُلْزِقُ كَعْبَهُ بِكَعْبِ صَاحِبِهِ، وَرُكْبَتَهُ بِرُكْبَتِهِ، وَمَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِهِ۔
(نیل الأطار ج: 3ص: 199)
یعنی نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ ہماری صفوں کو اس طرح سیدھا کراتے گویا اس کے ساتھ تیر کو سیدھا کیا جائے گا۔
یہاں تک کہ آپ کو اطمینان ہوگیا کہ ہم نے اس مسئلہ کو آپ سے خوب سمجھ لیا ہے۔
ایک دن آپ مصلے پر تشریف لائے اور ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا ہے۔
آپ نے فرمایا اللہ کے بندو! اپنی صفوں کو برابر کرلو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان باہمی طور پر اختلاف ڈال دے گا۔
بخاری شریف میں یوں ہے کہ اپنی صفوں کو بالکل برابر کر لیا کرو۔
ورنہ تمہارے چہروں میں آپس میں اللہ مخالفت ڈال دے گا۔
اور احمد اور ابوداؤد کی روایات میں ہے کہ میں نے دیکھا کہ ہر نمازی اپنے ساتھی کے کندھے سے کندھے اور قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخہ ملایا کرتا تھا۔
امام محمد کتاب الآثار باب اقامۃ الصفوف میں لکھتے ہیں:
عن إبراهیم أنه کان یقول سووا صفوفکم و سووا مناکبکم تراصوا و لایتخللنکم الشیطان الخ قال محمد و به ناخذ لا ینبغي أن یترك الصف و فیه الخلل حتی یسووا و هو قول أبي حنفیة۔
یعنی ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ صفیں اور شانہ برابر کرو اور گچ کرو ایسا نہ ہو کہ شیطان بکری کے بچہ کی طرح تمہارے درمیان داخل ہو جائے۔
امام محمد کہتے ہیں کہ ہم بھی اسی کو لیتے ہیں کہ صف میں خلل چھوڑ دینا لائق نہیں۔
جب تک ان کو درست نہ کر لیا جائے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔
نیز بحر الرائق و عالمگیری و درمختار میں بھی یہی ہے کہ ینبغي للمأمومين أن یتراصوا و أن یسدو الخلل في الصفوف و یسووا مناکبهم وینبغي للإمام أن یأمرهم بذلك و أن یقف وسطهم یعنی مقتدیوں کو چاہئے کہ صفوں کو چونا گچ کریں صفوں میں درازوں کو بند کردیں اور شانوں کو ہموار رکھیں بلکہ امام کے لیے لائق ہے کہ مقتدیوں کو اس کا حکم کرے پھر بیچ میں کھڑا ہو۔
فتاوی تاتار خانیہ میں ہے کہ جب صفوں میں کھڑے ہوں تو گچ کریں اور کندھے ہموار کرلیں۔
(شامی، ج: 1ص: 595)
یہ تفصیل اس لیے پیش کی گئی ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنا، پیر سے پیر ملاکر کھڑا ہونا ایسا مسئلہ ہے جس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔
اس کے باوجود آج کل مساجد میں صفوں کا منظر یہ ہوتا ہے کہ ہر نمازی دوسرے نمازی سے دور بالکل ایسے کھڑا ہوتا ہے جیسے کچھ لوگ اچھوتوں سے اپنا جسم دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر قدم سے قدم ملانے کی کوشش کی جائے تو ایسے سرک کر الگ ہو جاتے ہیں، جیسے کہ کسی بچھو نے ڈنک ماردی ہو۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ملت کے باہمی طور پر دل نہیں مل رہے ہیں۔
باہمی اتفاق مفقود ہے سچ ہے صفیں کج، دل پریشان، سجدہ بے ذوق کہ انداز جنوں باقی نہیں ہے عجیب فتوی:
ہمارے محترم دیوبندی حضرات فرماتے ہیں کہ اس سے مقصد پوری طرح صفوں کو درست کرنا ہے تاکہ درمیان میں کسی قسم کی کوئی کشادگی باقی نہ رہے۔
(تفہیم البخاری پ: 3 ص: 108)
بالکل درست اور بجا ہے کہ شارع کا یہ مقصد ہے اور لفظ تراصوا کا یہی مطلب ہے کہ نمازیوں کی صفیں چونا گچ دیواروں کی طرح ہونی ضروری ہیں۔
درمیان میں ہرگز ہرگز کوئی سوراخ باقی نہ رہ جائے۔
مگر اسی جگہ آگے ارشاد ہوتا ہے کہ فقہائے اربعہ کے یہاں بھی یہی مسئلہ ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان چار انگلیوں کا فرق ہونا چاہئے۔
(حوالہ مذکور)
تفصیلات بالا میں شارع کا مقصد ظاہر ہوچکا ہے کہ صف میں ہر نمازی کا دوسرے نمازی کے قدم سے قدم، ٹخنے سے ٹخنہ، کندھے سے کندھا ملانا مقصود ہے۔
اکابر احناف کا بھی یہی ارشاد ہے پھر یہ دو آدمیوں کے درمیان چار انگل کے فرق کا فتوی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا مطلب رکھتا ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی کمال ہے کہ نہ اس کے لیے کوئی صحیح حدیث بطور دلیل پیش کی جا سکتی ہے نہ کسی صحابی و تابعی کا کوئی قول۔
پھر یہ چار انگل کے فاصلے کی اختراع کیا وزن رکھتی ہے؟ اسی فتویٰ کا شاید یہ نتیجہ ہے کہ مساجد میں جماعتوں کا عجیب حال ہے۔
چار انگل کی گنجائش پاکر لوگ ایک ایک فٹ دور کھڑے ہوتے ہیں اور باہمی قدم مل جانے کو انتہائی خطرناک تصور کرتے ہیں اور اس پرہیز کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔
کیا ہمارے انصاف پسند و حقیقت شناس علمائے کرام اس صورت حال پر محققانہ نظر ڈال کر اصلاح حال کی کوشش فرما سکیں گے۔
ورنہ ارشاد نبوی آج بھی پکار پکا ر کر اعلان کر رہا ہے۔
"لتسون صفوفکم أو لیخالفن اللہ بین قلوبکم صدق رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔
'' یعنی صفیں برابر کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں باہمی اختلاف ڈال دے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 725   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:725  
725. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اپنی صفوں کو درست رکھا کرو کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے بھی دیکھتا ہوں۔ اس کے بعد ہم میں سے ہر شخص اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا قدم اپنے ساتھی کے قدم سے ملا دیتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:725]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے صف بندی کے متعلق متعدد احادیث پیش کی ہیں اور مذکورہ عنوان اس سلسلے کا آخری عنوان ہے۔
اس میں آپ نے بتایا کہ صفوں کو سیدھا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر نمازی اپنے قریب والے نمازی کے کندھے سے کندھا، قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنا ملا کر کھڑا ہو۔
اس کے متعلق حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت انس ؓ کا بیان نقل ہوا ہے کہ ہم اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنا ملا کر کھڑے ہوتے تھے۔
(2)
بعض روایات میں حضرت انس ؓ کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ اگر میں آج اپنے ساتھی کے قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنا ملانے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ سرکش خچر کی طرح بدکتا اور دور بھاگتا ہے۔
(فتح الباري: 274/2)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا عہد ختم ہوتے ہوتے مسلمان اس سنت سے غافل ہونے لگے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق صفوں کو سیدھا کرنے اور قدم سے قدم ملانے کا عمل ایک اجنبی عمل بن گیا تھا جس پر حضرت انس ؓ کو اظہار افسوس کرنا پڑا۔
امام محمد ؒ امام نخعی ؒ کا قول نقل کرتے ہیں:
صفیں اور کندھے برابر کرو، انھیں باہم پیوست رکھو کہیں شگافوں سے شیطان دخل اندازی نہ کرے۔
(3)
امام محمد ؒ فرماتے ہیں کہ ہمارا بھی اسی پر عمل ہے کہ صف میں کوئی شگاف نہیں چھوڑنا چاہیے تاآنکہ انھیں درست نہ کر لیا جائے۔
امام ابو حنیفہ ؒ کا بھی یہی مذہب ہے۔
(کتاب الآثار للشیباني، باب إقامة الصفوف و فضل الصف الأول: 192/1 -
195)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا یہ معمول تھا کہ جب تک صفیں درست نہ ہوجاتیں نماز شروع نہ کرتے۔
عہد فاروقی میں اس کارخیر کے لیے کارندے تعینات تھے مگر آج سب سے زیادہ متروک یہی عمل ہے، حالانکہ یہ کوئی اختلافی نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 725   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.