الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خبر واحد کے بیان میں
The Book About The Information Given by One Person
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الْوَاحِدِ الصَّدُوقِ فِي الأَذَانِ وَالصَّلاَةِ وَالصَّوْمِ وَالْفَرَائِضِ وَالأَحْكَامِ:
1. باب: ایک سچے شخص کی خبر پر اذان، نماز، روزے فرائض سارے احکام میں عمل ہونا۔
(1) Chapter. What is said regarding the acceptance of the information given by one truthful person concerning Adhan, Salat (prayer), Saum (fasting), and all other obligations and laws prescribed by Allah.
حدیث نمبر: 7252
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى، حدثنا وكيع، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن البراء، قال: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة"صلى نحو بيت المقدس ستة عشر، او سبعة عشر شهرا، وكان يحب ان يوجه إلى الكعبة، فانزل الله تعالى: قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها سورة البقرة آية 144، فوجه نحو الكعبة وصلى معه رجل العصر، ثم خرج، فمر على قوم من الانصار، فقال: هو يشهد انه صلى مع النبي صلى الله عليه وسلم وانه، قد وجه إلى الكعبة، فانحرفوا وهم ركوع في صلاة العصر".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ"صَلَّى نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ، أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَكَانَ يُحِبُّ أَنْ يُوَجَّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا سورة البقرة آية 144، فَوُجِّهَ نَحْوَ الْكَعْبَةِ وَصَلَّى مَعَهُ رَجُلٌ الْعَصْرَ، ثُمَّ خَرَجَ، فَمَرَّ عَلَى قَوْمٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: هُوَ يَشْهَدُ أَنَّهُ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ، قَدْ وُجِّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ، فَانْحَرَفُوا وَهُمْ رُكُوعٌ فِي صَلَاةِ الْعَصْرِ".
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ بلخی نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع بن جراح نے بیان کیا، ان سے اسرائیل بن یونس نے، ان سے ابواسحاق سبیعی نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے لیکن آپ کی آرزو تھی کہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے (سورۃ البقرہ میں) یہ آیت نازل کی «قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها‏» ہم آپ کے منہ کے باربار آسمان کی طرف اٹھنے کو دیکھتے ہیں، عنقریب ہم آپ کو منہ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس سے آپ خوش ہوں گے۔ چنانچہ رخ کعبہ کی طرف کر دیا گیا۔ ایک صاحب نے عصر کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی، پھر وہ مدینہ سے نکل کر انصار کی ایک جماعت تک پہنچے اور کہا کہ وہ گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے اور کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہو گیا ہے چنانچہ سب لوگ کعبہ رخ ہو گئے حالانکہ وہ عصر کی نماز کے رکوع میں تھے۔

Narrated Al-Bara': When Allah's Apostle arrived at Medina, he prayed facing Jerusalem for sixteen or seventeen months but he wished that he would be ordered to face the Ka`ba. So Allah revealed: -- 'Verily! We have seen the turning of your face towards the heaven; surely we shall turn you to a prayer direction (Qibla) that shall please you.' (2.144) Thus he was directed towards the Ka`ba. A man prayed the `Asr prayer with the Prophet and then went out, and passing by some people from the Ansar, he said, "I testify. that I have prayed with the Prophet and he (the Prophet) has prayed facing the Ka`ba." Thereupon they, who were bowing in the `Asr prayer, turned towards the Ka`ba.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 91, Number 358


   صحيح البخاري4486براء بن عازبصلى إلى بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا وكان يعجبه أن تكون قبلته قبل البيت وأنه صلى أو صلاها صلاة العصر وصلى معه قوم فخرج رجل ممن كان صلى معه فمر على أهل المسجد وهم راكعون قال أشهد بالله لقد صليت مع النبي قبل مكة فداروا كما هم
   صحيح البخاري4492براء بن عازبصلينا مع النبي نحو بيت المقدس ستة عشر أو سبعة عشر شهرا ثم صرفه نحو القبلة
   صحيح البخاري399براء بن عازبصلى نحو بيت المقدس ستة عشر أو سبعة عشر شهرا وكان رسول الله يحب أن يوجه إلى الكعبة فأنزل الله قد نرى تقلب وجهك في السماء
   صحيح البخاري7252براء بن عازبصلى نحو بيت المقدس ستة عشر أو سبعة عشر شهرا وكان يحب أن يوجه إلى الكعبة فأنزل الله قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها
   صحيح البخاري40براء بن عازبصلى قبل بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا وكان يعجبه أن تكون قبلته قبل البيت وأنه صلى أول صلاة صلاها صلاة العصر وصلى معه قوم فخرج رجل ممن صلى معه فمر على أهل مسجد وهم راكعون فقال أشهد بالله لقد صليت مع رسول الله قبل مكة فداروا كم
   صحيح مسلم1177براء بن عازبصلينا مع رسول الله نحو بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا ثم صرفنا نحو الكعبة
   صحيح مسلم1176براء بن عازبصليت مع النبي إلى بيت المقدس ستة عشر شهرا حتى نزلت الآية التي في البقرة وحيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره
   جامع الترمذي2962براء بن عازبصلى نحو بيت المقدس ستة أو سبعة عشر شهرا وكان رسول الله يحب أن يوجه إلى الكعبة فأنزل الله قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام
   سنن النسائى الصغرى489براء بن عازبصلينا مع النبي نحو بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا وصرف إلى القبلة
   سنن النسائى الصغرى743براء بن عازبقدم رسول الله المدينة فصلى نحو بيت المقدس ستة عشر شهرا ثم وجه إلى الكعبة فمر رجل قد كان صلى مع النبي على قوم من الأنصار فقال أشهد أن رسول الله قد وجه إلى الكعبة فانحرفوا إلى الكعبة
   سنن النسائى الصغرى490براء بن عازبفصلى نحو بيت المقدس ستة عشر شهرا ثم إنه وجه إلى الكعبة فمر رجل قد كان صلى مع النبي على قوم من الأنصار فقال أشهد أن رسول الله قد وجه إلى الكعبة فانحرفوا إلى الكعبة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 489  
´قبلہ کی فرضیت کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ یا سترہ مہینہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، یہ شک سفیان کی طرف سے ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ (خانہ کعبہ) کی طرف پھیر دئیے گئے۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 489]
489 ۔ اردو حاشیہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما انصاری صحابی ہیں۔ ظاہر ہے انہوں نے ہجرت تک کے بعد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھیں۔ تو حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ ہجرت سے سولہ سترہ ماہ بعد تک قبلہ بیت القدس ہی رہا۔ 15رجب یا شعبان 2ہجری میں بیت اللہ کو قبلہ مقرر کیا گیا۔ قبلے سے متعلق تفصیلی احکام و مسائل کے لیے کتاب القبلۃ کا ابتدائی ملاحظہ فرمائیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 489   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 490  
´قبلہ کی فرضیت کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو آپ نے سولہ مہینہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی طرف پھیر دئیے گئے، تو ایک آدمی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا، انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی طرف پھیر دئیے گئے ہیں، (لوگوں نے یہ سنا) تو وہ بھی قبلہ کی طرف پھر گئے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 490]
490 ۔ اردو حاشیہ:
➊انصار کے اس قبیلے کا نام بنوحارثہ تھا۔
➋انصار کا نماز ہی میں بیت اللہ کی طرف رخ کرنا تمام نمازیوں کے لیے کچھ نہ کچھ حرکات کا باعث بنا کیونکہ بیت اللہ، بیت المقدس سے بالکل مخالف جانب ہے۔ ظاہر ہے امام کو صفیں چیر کر دوسری جانب آنا پڑا اور مقتدیوں کو بھی صفیں بدلنی پڑیں۔ معلوم ہوا کہ نماز کی اصلاح کے لیے جو بھی حرکت کرنی پڑے، وہ نماز کے فساد کا موجب نہیں، قلیل ہو یا کثیر۔
➌ثابت ہوا کہ خبرواحد حجت ہے۔
➍کسی حکم کے علم سے قبل اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ تبدیلی قبلہ کا حکم تو اس قبیلے کے نماز شروع کرنے سے قبل آچکا تھا مگر چونکہ ان کو علم نماز کے دوران میں ہوا، لہٰذا پہلے سے پڑھی ہوئی نماز جو دوسرے قبلے کی طرف تھی، فاسد نہیں ہوئی۔
➎یہ بات اختلافی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا وحی سے تھا یا اہل کتاب سے موافقت کی بنا پر۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 490   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 743  
´قبلہ رخ ہونے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے سولہ ماہ تک بیت المقدس کی جانب نماز پڑھی، پھر آپ خانہ کعبہ کی طرف پھیر دیئے گئے، ایک شخص جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا، انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کعبہ کی طرف کر دیا گیا ہے، وہ لوگ (یہ سنتے ہی نماز کی حالت میں) کعبہ کی طرف پھر گئے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 743]
743 ۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 489، 490۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 743   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2962  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ تشریف لے آئے تو سولہ یا سترہ مہینے تک آپ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، حالانکہ آپ کی خواہش یہی تھی کہ قبلہ کعبہ کی طرف کر دیا جائے، تو اللہ نے آپ کی اس خواہش کے مطابق «قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام» ہم آپ کے چہرے کو باربار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب پھیر دیں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں، آپ اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں (البقرہ: ۱۴۴)، پھر آپ کعبہ کی طرف پھیر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2962]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ہم آپﷺ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں،
اب ہم آپﷺ کو اس قبلہ کی جانب پھیر دیں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں،
آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں (البقرۃ: 144)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2962   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7252  
7252. سیدنا براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے لیکن آپ کی خواہش تھی کہ بیت اللہ کی طرف منہ کریں، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: یقیناً ہم آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھتے ہیں، ہم آپ کو اس قبیلے کی طرف ضرور پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ کا رخ کعبے کی طرف پھیر دیا گیا۔ آپ کے ساتھ ایک آدمی نے عصر کی نماز پڑھی، پھر وہ انصار کی ایک جماعت کے پاس گزرا تو کہا: وہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی ہے اور آپ کے کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ یہ سن کر وہ لوگ کعبہ رخ ہوگئے حالانکہ وہ نماز عصر کے رکوع میں تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7252]
حدیث حاشیہ:
یہ واقعہ تحویل کے پہلے دن مسجد نبوی بنی حارث یعنی مسجد قبلتین کا ہے۔
بعض روایتوں میں ظہر کی نماز مذکور ہے اور اگلی حدیث کا واقعہ دوسرے روز کا مسجد قبا کا ہے تو دونوں روایتوں میں اختلاف نہیں رہا۔
باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ خبر واحد کو تسلیم کر کے اس پر جمہور صحابہ نے عمل کیا۔
جو لوگ خبر واحد کے منکر ہیں وہ جمہور صحابہ کے طرز عمل سے منکر ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7252   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7252  
7252. سیدنا براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے لیکن آپ کی خواہش تھی کہ بیت اللہ کی طرف منہ کریں، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: یقیناً ہم آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھتے ہیں، ہم آپ کو اس قبیلے کی طرف ضرور پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ کا رخ کعبے کی طرف پھیر دیا گیا۔ آپ کے ساتھ ایک آدمی نے عصر کی نماز پڑھی، پھر وہ انصار کی ایک جماعت کے پاس گزرا تو کہا: وہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی ہے اور آپ کے کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ یہ سن کر وہ لوگ کعبہ رخ ہوگئے حالانکہ وہ نماز عصر کے رکوع میں تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7252]
حدیث حاشیہ:
یہ واقعہ تحویل قبلہ کے پہلے دن کا ہے انصارکے قبیلے بنو حارث کی مسجد "قبلتین" آج بھی موجود ہے۔
ایک شخص کی خبر سن کر جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حالت نماز میں اپنا رخ کعبے کی طرف کر لیا۔
اس بنا پر خبر واحد حجت ہے اور جو لوگ اس کی حجیت کے منکر ہیں وہ گویا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے طرز عمل کے منکر ہیں ان حضرات کے پاس اس کے متعلق کوئی دلیل نہیں۔
یہ لوگ صرف محض ظن و تخمین کی پیروی کرتے ہیں جس سے قرآن کریم نے منع کیا ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7252   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.