الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: علم کے بیان میں
The Book of Knowledge
28. بَابُ الْغَضَبِ فِي الْمَوْعِظَةِ وَالتَّعْلِيمِ إِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ:
28. باب: استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرتے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے۔
(28) Chapter. To be furious while preaching or teaching if one sees what one hates.
حدیث نمبر: 92
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا ابو اسامة، عن بريد، عن ابي بردة، عن ابي موسى، قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن اشياء كرهها، فلما اكثر عليه غضب، ثم قال للناس:" سلوني عما شئتم، قال رجل: من ابي؟ قال: ابوك حذافة، فقام آخر، فقال: من ابي يا رسول الله؟ فقال: ابوك سالم مولى شيبة، فلما راى عمر ما في وجهه، قال: يا رسول الله، إنا نتوب إلى الله عز وجل".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:" سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ، قَالَ رَجُلٌ: مَنْ أَبِي؟ قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، فَقَامَ آخَرُ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا فِي وَجْهِهِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے برید کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابوبردہ سے اور وہ ابوموسیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا اور جب (اس قسم کے سوالات کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا (اچھا اب) مجھ سے جو چاہو پوچھو۔ تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا باپ سالم شیبہ کا آزاد کردہ غلام ہے۔ آخر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے چہرہ مبارک کا حال دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ! ہم (ان باتوں کے دریافت کرنے سے جو آپ کو ناگوار ہوں) اللہ سے توبہ کرتے ہیں۔


Hum se Muhammed bin ’Alaa ne bayan kiya, un se Abu Usamah ne Buraid ke waaste se bayan kiya, woh Abu Burdah se aur woh Abu Musa se riwayat karte hain ke Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam se kuch aisi baatein daryaaft ki gayien ke Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ko bura ma’loom huwa aur jab (is qism ke sawaalaat ki) Aap Sallallahu Alaihi Wasallam par bahut ziyaadti ki gayi to Aap ko ghussa aa gaya. Phir Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne logon se farmaaya (achcha ab) mujh se jo chaaho poocho. To ek shakhs ne daryaaft kiya ke mera baap kaun hai? Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya, tera baap Hudhafa hai. Phir doosra aadmi khada huwa aur us ne poocha ke ya RasoolAllah! Mera baap kaun hai? Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya ke tera baap Salim Shaibah ka aazaad kardah ghulam hai. Aakhir Umar Radhiallahu Anhu ne Aap ke chehra-e-mubarak ka haal dekha to arz kiya ya RasoolAllah! Hum (un baaton ke daryaaft karne se jo Aap ko na-gawaar hon) Allah se taubah karte hain.

Narrated Abu Musa: The Prophet was asked about things which he did not like, but when the questioners insisted, the Prophet got angry. He then said to the people, "Ask me anything you like." A man asked, "Who is my father?" The Prophet replied, "Your father is Hudhafa." Then another man got up and said, "Who is my father, O Allah's Apostle ?" He replied, "Your father is Salim, Maula (the freed slave) of Shaiba." So when `Umar saw that (the anger) on the face of the Prophet he said, "O Allah's Apostle! We repent to Allah (Our offending you).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 92


   صحيح البخاري7291عبد الله بن قيسأبوك حذافة ثم قام آخر فقال يا رسول الله من أبي فقال أبوك سالم مولى شيبة فلما رأى عمر ما بوجه رسول الله من الغضب قال إنا نتوب إلى الله
   صحيح البخاري92عبد الله بن قيسسلوني عما شئتم قال رجل من أبي قال أبوك حذافة فقام آخر فقال من أبي يا رسول الله فقال أبوك سالم مولى شيبة فلما رأى عمر ما في وجهه قال يا رسول الله إنا نتوب إلى الله
   صحيح مسلم6125عبد الله بن قيسمن أبي قال أبوك حذافة فقام آخر فقال من أبي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 92  
´بےجا سوالات پر استاد کا ناراض ہونا`
«. . . قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:" سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا اور جب (اس قسم کے سوالات کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 92]

تشریح:
لغو اور بے ہودہ سوال کسی صاحب علم سے کرنا سراسر نادانی ہے۔ پھر اللہ کے رسول سے اس قسم کا سوال کرنا تو گویا بہت ہی بے ادبی ہے۔ اسی لیے اس قسم کے بے جا سوالات پر آپ نے غصہ میں فرمایاکہ جو چاہو دریافت کرو۔ اس لیے کہ اگرچہ بشر ہونے کے لحاظ سے آپ غیب کی باتیں نہیں جانتے تھے۔ مگر اللہ کا برگزیدہ پیغمبر ہونے کی بنا پر وحی و الہام سے اکثر احوال آپ کو معلوم ہو جاتے تھے، یا معلوم ہو سکتے تھے جن کی آپ کو ضرورت پیش آتی تھی۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ تم لوگ نہیں مانتے ہو تو اب جو چاہو پوچھو، مجھ کو اللہ کی طرف سے جو جواب ملے گا تم کو بتلاؤں گا۔ آپ کی خفگی دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیگر حاضرین کی نمائندگی فرماتے ہوئے ایسے سوالات سے باز رہنے کا وعدہ فرمایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 92   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:92  
92. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ سے چند ایسی باتیں پوچھی گئیں جو آپ کے مزاج کے خلاف تھی۔ جب اس قسم کے سوالات کی آپ کے سامنے تکرار کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا، پھر لوگوں سے فرمایا: اچھا جو چاہو مجھ سے پوچھو۔ اس پر ایک شخص نے عرض کیا: میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر دوسرے شخص نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: تیرا باپ سالم ہے جو شیبہ کا غلام ہے۔ پھر جب حضرت عمر ؓ نے آپ کے چہرہ مبارک پر آثار غضب دیکھے تو کہنے لگے: یا رسول اللہ! ہم اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:92]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں منافقین بھی ہوتے تھے۔
وہ آپ سے ناگفتہ بہ سوالات کرتے۔
ایک دن بے تکے سوالات شروع ہوئے توآپ نے فرمایا کہ آج تمہیں جو کچھ پوچھنا ہے پوچھ لو۔
آپ نے یہ بات غصے میں فرمائی، اس لیے ہرسوال پر غصہ بڑھتا گیا۔
حضرت عبداللہ بن حذافہ کو لوگ ان کے نسب کے متعلق بہت چڑایا کرتے تھے۔
انھوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے سوال کردیا کہ میرا باپ کون ہے؟ پھر حضرت سعد بن سالم مولی شیبہ نے بھی اس قسم کا سوال کرڈالا۔
اگرچہ بشر ہونے کی حیثیت سے آپ غیب دان نہیں تھے لیکن اللہ کے برگزیدہ رسول ہونے کی حیثیت سے وحی کے ذریعے سے ایسے احوال سے آگاہی ہوجاتی جن کی آپ کو ضرورت پیش آتی۔
جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے چہرہ انورسے غصے کا اندازہ لگایا تودیگر حاضرین کی نمائندگی کرتے ہوئے ایسے سوالات سے بازرہنے کا وعدہ فرمایا۔

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحالت غصہ دیکھ کر دوزانو بیٹھ گئے اور کہنے لگے:
ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 93)
ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معذرت کی جیسا کہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے اور دوزانو بیٹھ کر مذکورہ الفاظ بھی کہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 247/1)
۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کثرت سوالات اور لایعنی تکلفات ایک مکروہ عمل ہے، نیز کسی صاحب علم سے لغو اوربے ہودہ سوالات کرنا سراسر نادانی اور جہالت ہے کیونکہ اس قسم کے سوالات کا انسان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 92   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.