الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
The Book of The Two Eid (Prayers and Festivals).
15. بَابُ خُرُوجِ النِّسَاءِ وَالْحُيَّضِ إِلَى الْمُصَلَّى:
15. باب: عورتوں اور حیض والیوں کا عیدگاہ میں جانا۔
(15) Chapter. The coming out of ladies and menstruating women to the Musalla.
حدیث نمبر: 974
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، قال: حدثنا حماد، عن ايوب، عن محمد، عن ام عطية، قالت:" امرنا ان نخرج العواتق وذوات الخدور"، وعن ايوب، عن حفصة بنحوه، وزاد في حديث حفصة قال او قالت العواتق: وذوات الخدور ويعتزلن الحيض المصلى.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ:" أَمَرَنَا أَنْ نُخْرِجَ الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ"، وَعَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنَحْوِهِ، وَزَادَ فِي حَدِيثِ حَفْصَةَ قَالَ أَوْ قَالَتِ الْعَوَاتِقَ: وَذَوَاتِ الْخُدُورِ وَيَعْتَزِلْنَ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى.
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد نے، ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے، آپ نے فرمایا کہ ہمیں حکم تھا کہ پردہ والی دوشیزاؤں کو عیدگاہ کے لیے نکالیں اور ایوب سختیانی نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی طرح روایت کی ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں یہ زیادتی ہے کہ دوشیزائیں اور پردہ والیاں ضرور (عیدگاہ جائیں) اور حائضہ نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔

Narrated Muhammad: Um 'Atiyya said: "Our Prophet ordered us to come out (on `Id day) with the mature girls and the virgins staying in seclusion." Hafsa narrated the above mentioned Hadith and added, "The mature girls or virgins staying in seclusion but the menstruating women had to keep away from the Musalla."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 15, Number 91


   صحيح البخاري974نسيبة بنت كعبنخرج العواتق ذوات الخدور
   صحيح البخاري324نسيبة بنت كعبيخرج العواتق ذوات الخدور الحيض ليشهدن الخير ودعوة المؤمنين يعتزل الحيض المصلى
   صحيح البخاري980نسيبة بنت كعبلتلبسها صاحبتها من جلبابها فليشهدن الخير ودعوة المؤمنين وليخرج العواتق ذوات الخدور والحيض وليعتزل الحيض المصلى ليشهدن الخير ودعوة المؤمنين قالت فقلت لها الحيض قالت نعم أليس الحائض تشهد عرفات وتشهد كذا وتشهد كذا
   صحيح البخاري351نسيبة بنت كعبنخرج الحيض يوم العيدين ذوات الخدور يشهدن جماعة المسلمين ودعوتهم يعتزل الحيض عن مصلاهن إحدانا ليس لها جلباب قال لتلبسها صاحبتها من جلبابها
   صحيح البخاري981نسيبة بنت كعبنخرج فنخرج الحيض العواتق ذوات الخدور الحيض فيشهدن جماعة المسلمين ودعوتهم يعتزلن مصلاهم
   صحيح البخاري971نسيبة بنت كعبنخرج يوم العيد حتى نخرج البكر من خدرها نخرج الحيض فيكن خلف الناس فيكبرن بتكبيرهم ويدعون بدعائهم يرجون بركة ذلك اليوم وطهرته
   صحيح البخاري1652نسيبة بنت كعبلتخرج العواتق ذوات الخدور أو العواتق وذوات الخدور والحيض فيشهدن الخير ودعوة المسلمين يعتزل الحيض المصلى فقلت ألحائض فقالت أوليس تشهد عرفة وتشهد كذا وتشهد كذا
   صحيح مسلم2054نسيبة بنت كعبنخرج في العيدين العواتق ذوات الخدور أمر الحيض أن يعتزلن مصلى المسلمين
   صحيح مسلم2055نسيبة بنت كعبنؤمر بالخروج في العيدين والمخبأة والبكر
   صحيح مسلم2056نسيبة بنت كعبنخرجهن في الفطر والأضحى العواتق الحيض ذوات الخدور الحيض فيعتزلن الصلاة يشهدن الخير ودعوة المسلمين إحدانا لا يكون لها جلباب قال لتلبسها أختها من جلبابها
   جامع الترمذي539نسيبة بنت كعبلتعرها أختها من جلابيبها
   سنن أبي داود1136نسيبة بنت كعبنخرج ذوات الخدور يوم العيد الحيض قال ليشهدن الخير ودعوة المسلمين لم يكن لإحداهن ثوب كيف تصنع قال تلبسها صاحبتها طائفة من ثوبها
   سنن النسائى الصغرى390نسيبة بنت كعبلتخرج العواتق ذوات الخدور الحيض فيشهدن الخير ودعوة المسلمين تعتزل الحيض المصلى
   سنن النسائى الصغرى1560نسيبة بنت كعبأخرجوا العواتق ذوات الخدور فيشهدن العيد ودعوة المسلمين ليعتزل الحيض مصلى الناس
   سنن النسائى الصغرى1559نسيبة بنت كعبليخرج العواتق ذوات الخدور الحيض ويشهدن العيد ودعوة المسلمين ليعتزل الحيض المصلى
   سنن ابن ماجه1307نسيبة بنت كعبنخرجهن في يوم الفطر والنحر
   سنن ابن ماجه1308نسيبة بنت كعبأخرجوا العواتق ذوات الخدور ليشهدن العيد ودعوة المسلمين ليجتنبن الحيض مصلى الناس
   بلوغ المرام389نسيبة بنت كعبنخرج العواتق والحيض في العيدين
   مسندالحميدي365نسيبة بنت كعبلتلبسها أختها من جلبابها، وتشهد العيد، ودعوة المسلمين
   مسندالحميدي366نسيبة بنت كعبأخرجوا العواتق، وذوات الخدور فليشهدن العيد، ودعوة المسلمين، وليعتزل الحيض مصلى المسلمين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 390  
´عیدین اور مسلمانوں کی دعا میں حائضہ عورتوں کی حاضری کا بیان۔`
حفصہ (حفصہ بنت سیرین) کہتی ہیں کہ ام عطیہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو کہتیں: میرے والد آپ پر قربان ہوں، تو میں نے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ایسا فرماتے سنا ہے، انہوں نے کہا: ہاں، میرے والد آپ پر قربان ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: بالغ لڑکیاں، پردے والیاں، اور حائضہ عورتیں نکلیں، اور خطبہ اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں، البتہ حائضہ عورتیں نماز پڑھنے کی جگہ سے الگ رہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 390]
390۔ اردو حاشیہ:
«بیبا» یا «بأبا» دراصل «بأبي» ہے جس کا ترجمہ متن میں لکھ دیا گیا ہے۔ یہ ان محترمہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار عقیدت و محبت ہے۔ عقیدے کے لحاظ سے بھی یہ بات ہمارے ایمان کا جزو ہے کہ ہماری ہر چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہو جائے، چاہے جان ہو یا مال، والدین ہوں یا اولاد۔
ایسے ایسے فرماتے سنا ہے؟ یعنی عورتوں کے عید میں حاضرہونے کے بارے میں۔
➌ عید اہل اسلام کی خوشی، شان و شوکت، شکرانے اور عبادت کا عظیم دن ہے، اس لیے ہر مرد اور عورت کا جانا ضروری ہے۔ عورتیں پردے کے ساتھ جائیں تاکہ شان و شوکت کے ساتھ نیکی کے جذبات کا اظہار بھی ہو۔ حیض والی عورتوں کے لیے عبادت (نمازکی ادائیگی)تو منع ہے مگر ان کے جانے سے باقی مقاصد پورے ہوں گے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 390   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1136  
´عید میں عورتوں کے جانے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم پردہ نشین عورتوں کو عید کے دن (عید گاہ) لے جائیں، آپ سے پوچھا گیا: حائضہ عورتوں کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر میں اور مسلمانوں کی دعا میں چاہیئے کہ وہ بھی حاضر رہیں، ایک خاتون نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کسی کے پاس کپڑا نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: اس کی سہیلی اپنے کپڑے کا کچھ حصہ اسے اڑھا لے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1136]
1136۔ اردو حاشیہ:
➊ عید کے دنوں میں عورتوں کا عیدگاہ میں جانا مستحب ہے، مگر پردے میں خوشبو اور آواز دار زیور کے بغیر۔
➋ دعوۃ المسلمین میں اجتماعی دعا کا ثبوت ہے، مگر مروجہ طریقے سے نہیں۔
➌ دعا کے لئے طہارت ضروری نہیں اس کے بغیر بھی دعا کرنا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1136   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1307  
´عیدین میں عورتوں کے عیدگاہ جانے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عورتوں کو عیدین میں لے جائیں، ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ بتائیے اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو (کیا کرے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی ساتھ والی اسے اپنی چادر اڑھا دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1307]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
  جس طرح فرض نمازوں میں اور جمعے میں عورتوں کا مسجد میں آنا جائز ہے۔
اسی طرح عیدین میں بھی ان کی حاضری ضروری ہے۔

(2)
اس میں ایک حکمت تو یہ ہے کہ خطبے میں دین کے مسائل بیان کیے جاتے ہیں۔
اوردین سیکھنا عورتوں پر بھی فرض ہے۔
دوسرے عید مسلمانوں کی اجتماعی شان وشوکت کے اظہا کا دن ہے۔
عورتوں اور بچوں کی شرکت سے یہ مقصد زیادہ بہتر طریقے پر پورا ہوتا ہے۔
تیسرے یہ کہ عید اجتماعی خوشی کا موقع ہے۔
جس میں مرد اورعورتیں سبھی اہل ایمان شامل ہیں۔
لہٰذا عورتوں کو اس خوشی میں شرکت سے محروم رکھنے کا کوئی جواز نہیں
(2)
اگر کسی خاتون کو کوئی ایسا عذر لاحق ہو۔
جس کی وجہ سے وہ عید کے اجتماع میں شریک نہ ہوسکتی ہوتو اس کا یہ عذر اگردور ہوسکتا ہوتو ضرور کیا جائے۔
اسے نماز عید پڑھنے اور خطبہ سننے سے محروم نہ رکھا جائے۔

(4)
اگر کسی کے پاس چادر نہ ہوتو دوسری خاتون اسے اپنی چادر میں شریک کرے۔
دو عورتوں کا ایک چادر اوڑھ کرچلنا ایک مشکل کام ہے۔
لیکن اس کا حکم دیا گیا ہے اس سے عورتوں کے عید میں شریک ہونے کی انتہائی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔

(5)
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسری خاتون کے پاس دو چادریں ہوں۔
تو وہ ایک چادر اس عورت کودے دے۔
جس کے پاس چادر نہیں صحیح ابن خزیمہ کی روایت کے الفاظ سے یہ مفہوم ظاہر ہوتا ہے۔ (صحیح ابن خزیمة: 362/2، حدیث: 1467)

(6)
پردہ اس قدر اہم ہے کہ چادر نہ ہونے کو بے پردہ باہر جانے کےلئے عذر تسلیم نہیں کیا گیا۔
حتیٰ کہ اگر دوسری عورتو ں سے عاریتاً بھی چادر نہ ملے تو وہ عورتیں ایک چادر اوڑھ کر چلیں بغیر چادر کے نہ جایئں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1307   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 389  
´نماز عیدین کا بیان`
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم جوان لڑکیوں اور حائضہ عورتوں کو بھی عیدین میں ساتھ لے کر نکلیں تاکہ وہ بھی مسلمانوں کے امور خیر اور دعاؤں میں شریک ہوں۔ البتہ حائضہ عورتیں عید گاہ کے کنارے پر رہیں۔ (نماز میں شامل نہ ہوں صرف دعا میں شرکت کریں) (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 389»
تخریج:
«أخرجه البخاري، العيدين، باب خروج النساء والحيض إلي المصلي، حديث:974، ومسلم، صلاة العيدين، باب ذكر إباحة خروج النساء في العيدين إلي المصلي، حديث:890.»
تشریح:
1. خواتین کا نماز عید کے لیے جانا اس حدیث کی رو سے ثابت ہے۔
2.ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی ازواج مطہرات اور اپنی بیٹیوں کو عید گاہ میں لے جاتے تھے۔
(مسند أحمد: ۱ / ۲۳۱‘ و سنن ابن ماجہ‘ إقامۃ الصلوات والسنۃ فیھا‘ حدیث:۱۳۰۹) حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم خواتین کا نماز عید میں حاضر ہونا واجب سمجھتے تھے۔
3.احناف نے اس حدیث کی تاویل کی ہے اور اسے ابتدائے اسلام کا واقعہ بتایا ہے تاکہ اہل اسلام کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور کثرت تعداد اہل کفر و شرک کے لیے باعث اذیت ہو اور مسلمانوں کی دھاک بیٹھے‘ مگر یہ تاویل جس پر علامہ طحاوی نے بڑا زور قلم صرف کیا ہے‘ قابل لحاظ معلوم نہیں ہوتی کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما گواہی دیتے ہیں کہ ازواج مطہرات وغیرہ عید پڑھنے جاتی تھیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کم عمر تھے‘ ظاہر ہے کہ ان کی یہ گواہی فتح مکہ کے بعد کی ہے جس وقت اظہار قوت کی ضرورت ہی نہیں تھی‘ اس لیے عورتوں کو عید گاہ میں بہر نوع حاضر ہونا چاہیے۔
اور جو لوگ باطل تاویلات کرتے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 389   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 539  
´عیدین میں عورتوں کے عیدگاہ جانے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں کنواری لڑکیوں، دوشیزاؤں، پردہ نشیں اور حائضہ عورتوں کو بھی لے جاتے تھے۔ البتہ حائضہ عورتیں عید گاہ سے دور رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہتیں۔ ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: اس کی بہن کو چاہیئے کہ اسے اپنی چادروں میں سے کوئی چادر عاریۃً دیدے ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب العيدين/حدیث: 539]
اردو حاشہ:
1؎:
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کو نماز عید کے لیے عید گاہ لے جانا مسنون ہے،
جو لوگ اس کی کراہت کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں:
یہ ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے تاکہ اہل اسلام کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور لوگوں پر ان کی دھاک بیٹھ جائے،
لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اس طرح کی روایت آتی ہے اور وہ کمسن صحابہ میں سے ہیں،
ظاہر ہے ان کی یہ گواہی فتح مکہ کے بعد کی ہو گی جس وقت اظہار قوت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 539   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 974  
974. حضرت ام عطیہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمیں ہمارے نبی ﷺ نے حکم دیا کہ ہم (نمازِ عید کے لیے) ان جوان عورتوں کو بھی نکالیں جو پردہ نشین ہیں۔ حضرت حفصہ بنت سیرین سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ نوجوان اور پردہ نشین عورتوں کو عید کے لیے نکالیں، البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:974]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ نے عورتوں کے عیدین میں شرکت کرنے کے متعلق تفصیل سے صحیح احادیث کو نقل فرمایا ہے جن میں کچھ قیل وقال کی گنجائش ہی نہیں۔
متعدد روایات میں موجود ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی جملہ بیویوں اور صاحبزادیوں کو عیدین کے لیے نکالتے تھے۔
یہاں تک فرمادیا کہ حیض والی بھی نکلیں اور وہ نماز سے دور رہ کر مسلمانوں کی دعاؤں میں شرکت کریں اور وہ بھی نکلیں جن کے پاس چادر نہ ہو، چاہئے کہ ان کی ہم جولیاں ان کو چادر یا دوپٹہ دے دیں۔
بہر حال عورتوں کا عیدگاہ میں شرکت کرنا ایک اہم ترین سنت اور اسلامی شعار ہے۔
جس سے شوکت اسلام کا مظاہرہ ہوتا ہے اور مرد عورت اور بچے میدان عید گاہ میں اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو کر دعائیں کرتے ہیں۔
جن میں سے کسی ایک کی بھی دعا اگر قبولیت کا درجہ حاصل کر لے تو تمام حاضرین کے لیے باعث صد برکت ہو سکتی ہے۔
اس بارے میں کچھ لوگوں نے فرضی شکوک وشبہات اور مفروضہ خطرات کی بنا پر عورتوں کا عیدگاہ میں جانا مکروہ قرار دیا ہے۔
مگر یہ جملہ مفروضہ باتیں ہیں جن کی شرعا کوئی اصل نہیں ہے۔
عیدگاہ کے منتظمین کا فرض ہے کہ وہ پردے کا انتظام کریں اور ہر فساد و خطرہ کے انسداد کے لیے پہلے ہی سے بندوبست کر رکھیں۔
حضرت علامہ شوکانی ؒ نے اس بارے میں مفصل مدلل بحث کے بعد فرمایا ہے:
وَمَا فِي مَعْنَاهُ مِنْ الْأَحَادِيثِ قَاضِيَةٌ بِمَشْرُوعِيَّةِ خُرُوجِ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ إلَى الْمُصَلَّى مِنْ غَيْرِ فَرْقٍ بَيْنَ الْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ وَالشَّابَّةِ وَالْعَجُوزِ وَالْحَائِضِ وَغَيْرِهَا مَا لَمْ تَكُنْ مُعْتَدَّةً أَوْ كَانَ خُرُوجُهَا فِتْنَةً أَوْ كَانَ لَهَا عُذْرٌ. یعنی احادیث اس میں فیصلہ دے رہی ہیں کہ عورتوں کو عیدین میں مردوں کے ساتھ عیدگاہ میں شرکت کرنا مشروع ہے اور اس بارے میں شادی شدہ اور کنواری اور بوڑھی اور جوان اور حائضہ وغیرہ کا کوئی امتیاز نہیں ہے جب تک ان میں سے کوئی عدت میں نہ ہو یا ان کے نکلنے میں کوئی فتنہ کاڈر نہ ہو یا کوئی اور عذر نہ ہو تو بلا شک جملہ عورتوں کو عیدگاہ میں جانا مشروع ہے۔
پھر فرماتے ہیں:
والقول بکراھیة الخروج علی الإطلاق رد للأحادیث الصحیحة بالآراء الفاسدۃ۔
یعنی مطلقا عورتوں کے لیے عید گاہ میں جانے کو مکروہ قرار دینا یہ اپنی فاسد رایوں کی بنا پر احادیث صحیحہ کو رد کرنا ہے۔
آج کل جو علماءعیدین میں عورتوں کی شرکت ناجائز قرار دیتے ہیں، ان کو اتنا غور کرنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ یہی مسلمان عورتیں بے تحاشا بازاروں میں آتی جاتی، میلوں عرسوں میں شریک ہوتیں اور بہت سی غریب عورتیں جو محنت مزدوری کرتی ہیں۔
جب ان سارے حالات میں یہ مفاسد مفروضہ سے بالاتر ہیں تو عید گاہ کی شرکت میں جبکہ وہاں جانے کے لیے باپردہ و باادب ہونا ضروری ہے کون سے فرضی خطرات کا تصور کر کے ان کے لیے عدم جواز کا فتوی لگایا جا سکتا ہے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں، عورتوں کا عید گاہ میں عید کی نماز کے لیے جاناسنت ہے، شادی شدہ ہوں، یا غیر شادی شدہ جوان ہوں یاادھیڑیا بوڑھی، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ:
أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى، الْعَوَاتِقَ، وَالْحُيَّضَ، وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلَاةَ، وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ، وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ، قُلْتُ:
يَا رَسُولَ اللهِ إِحْدَانَا لَا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ، قَالَ:
«لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا» (صحیحین وغیرہ)
آنحضرت ﷺ عیدین میں دوشیزہ جوان کنواری حیض والی عورتوں کو عید گاہ جانے کا حکم دیتے تھے حیض والی عورتیں نماز سے الگ رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہتیں۔
ایک عورت نے عرض کیا اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو آپ نے فرمایا کہ اس کی مسلمان بہن اپنی چادر میں لے جائے۔
جو لوگ کراہت کے قائل ہیں یا جوان یا بوڑھی کے درمیان فرق کر تے ہیں درحقیقت وہ صحیح حدیث کو اپنی فاسد اور باطل رایوں سے رد کر تے ہیں۔
حافظ نے فتح الباری میں اور ابن حزم نے اپنی محلیّ میں بالتفصیل مخالفین کے جوابات ذکر کئے ہیں عورتوں کو عید گاہ میں سخت پردہ کے ساتھ بغیر کسی قسم کی خوشبو لگائے اور بغیر بجنے والے زیوروں اور زینت کے لباس کے جانا چاہیے تاکہ فتنہ کا باعث نہ بنیں۔
قال شیخنا في شرح الترمذي لا دلیل علی منع الخروج إلی العید للشواب مع الأمن من المفاسد مما حدثن في ھذا الزمان بل ھو مشروع لھن وھو القول الراجح انتھی۔
یعنی امن کی حالت میں جوان عورتوں کو شرکت عیدین سے روکنا اس کے متعلق مانعین کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ وہ مشروع ہے اور قول راجح یہی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 974   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:974  
974. حضرت ام عطیہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمیں ہمارے نبی ﷺ نے حکم دیا کہ ہم (نمازِ عید کے لیے) ان جوان عورتوں کو بھی نکالیں جو پردہ نشین ہیں۔ حضرت حفصہ بنت سیرین سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ نوجوان اور پردہ نشین عورتوں کو عید کے لیے نکالیں، البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:974]
حدیث حاشیہ:
(1)
حائضہ عورت کو نماز کی ممانعت ہے۔
اس اعتبار سے اس کے لیے مسجد میں جانا بھی ناجائز ہے، تو اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایسی عورت کے لیے عیدگاہ میں جانا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ احادیث میں اسی اعتراض کا جواب دیا ہے کہ اس میں متعدد فوائد ہیں۔
سب سے بڑا فائدہ شوکت اسلام کا اظہار ہے، اس لیے ایسی عورتوں کو بھی عیدگاہ جانا چاہیے۔
اس پر بھی اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایسے حالات میں عیدگاہ کا تقدس تو مجروح ہو گا۔
اس کا جواب ایک دوسری روایت میں ہے کہ راوی نے جب یہ اعتراض کیا تو اسے جواب دیا گیا کہ حائضہ عورت منیٰ، عرفہ اور مزدلفہ وغیرہ مقدس مقامات میں دوران حج جا سکتی ہے تو عیدگاہ جانے کے لیے اسے کیا ممانعت ہے۔
(صحیح البخاري، الحیض، حدیث: 324) (2)
عیدگاہ میں اس قسم کی عورتوں کو الگ بیٹھنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ نماز پڑھنے والی عورتوں کے درمیان بے ضابطگی نہ ہو۔
کچھ پڑھیں اور کچھ ویسے ہی بیٹھی رہیں اس سے نماز کا ظاہری حسن مجروح ہوتا ہے، اس لیے انہیں علیحدہ بیٹھنے کا حکم دیا گیا ہے، نیز اس میں دوسری عورتوں اور مقدس جگہ کا بھی خیال رکھا گیا ہے تاکہ وہ مقام نجاست سے آلودہ نہ ہو جائے جہاں نماز پڑھنی ہے یا ساتھ والی عورت کو کراہت نہ ہو۔
(عمدةالقاري: 193/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 974   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.