الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
The Book of The Two Eid (Prayers and Festivals).
20. بَابُ إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهَا جِلْبَابٌ فِي الْعِيدِ:
20. باب: اگر کسی عورت کے پاس عید کے دن دوپٹہ (یا چادر) نہ ہو۔
(20) Chapter. If a woman has no veil to use for Eid.
حدیث نمبر: 980
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو معمر، قال: حدثنا عبد الوارث، قال: حدثنا ايوب، عن حفصة بنت سيرين، قالت: كنا نمنع جوارينا ان يخرجن يوم العيد، فجاءت امراة فنزلت قصر بني خلف فاتيتها، فحدثت ان زوج اختها غزا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثنتي عشرة غزوة فكانت اختها معه في ست غزوات، فقالت: فكنا نقوم على المرضى ونداوي الكلمى، فقالت: يا رسول الله اعلى إحدانا باس إذا لم يكن لها جلباب ان لا تخرج، فقال:"لتلبسها صاحبتها من جلبابها، فليشهدن الخير ودعوة المؤمنين، قالت حفصة: فلما قدمت ام عطية اتيتها فسالتها، اسمعت في كذا وكذا؟ قالت: نعم، بابي وقلما ذكرت النبي صلى الله عليه وسلم إلا قالت بابي، قال: ليخرج العواتق ذوات الخدور او قال العواتق وذوات الخدور شك ايوب، والحيض، ويعتزل الحيض المصلى وليشهدن الخير ودعوة المؤمنين، قالت: فقلت لها: الحيض، قالت: نعم، اليس الحائض تشهد عرفات وتشهد كذا وتشهد كذا؟".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، قَالَتْ: كُنَّا نَمْنَعُ جَوَارِيَنَا أَنْ يَخْرُجْنَ يَوْمَ الْعِيدِ، فَجَاءَتِ امْرَأَةٌ فَنَزَلَتْ قَصْرَ بَنِي خَلَفٍ فَأَتَيْتُهَا، فَحَدَّثَتْ أَنَّ زَوْجَ أُخْتِهَا غَزَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ غَزْوَةً فَكَانَتْ أُخْتُهَا مَعَهُ فِي سِتِّ غَزَوَاتٍ، فَقَالَتْ: فَكُنَّا نَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى وَنُدَاوِي الْكَلْمَى، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعَلَى إِحْدَانَا بَأْسٌ إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهَا جِلْبَابٌ أَنْ لَا تَخْرُجَ، فَقَالَ:"لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا، فَلْيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ حَفْصَةُ: فَلَمَّا قَدِمَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ أَتَيْتُهَا فَسَأَلْتُهَا، أَسَمِعْتِ فِي كَذَا وَكَذَا؟ قَالَتْ: نَعَمْ، بِأَبِي وَقَلَّمَا ذَكَرَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَالَتْ بِأَبِي، قَالَ: لِيَخْرُجْ الْعَوَاتِقُ ذَوَاتُ الْخُدُورِ أَوْ قَالَ الْعَوَاتِقُ وَذَوَاتُ الْخُدُورِ شَكَّ أَيُّوبُ، وَالْحُيَّضُ، وَيَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى وَلْيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: فَقُلْتُ لَهَا: الْحُيَّضُ، قَالَتْ: نَعَمْ، أَلَيْسَ الْحَائِضُ تَشْهَدُ عَرَفَاتٍ وَتَشْهَدُ كَذَا وَتَشْهَدُ كَذَا؟".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے حفصہ بن سیرین کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم اپنی لڑکیوں کو عیدگاہ جانے سے منع کرتے تھے۔ پھر ایک خاتون باہر سے آئی اور قصر بنو خلف میں انہوں نے قیام کیا میں ان سے ملنے کے لیے حاضر ہوئی تو انہوں نے بیان کیا کہ ان کی بہن کے شوہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ لڑائیوں میں شریک رہے اور خود ان کی بہن اپنے شوہر کے ساتھ چھ لڑائیوں میں شریک ہوئی تھیں، ان کا بیان تھا کہ ہم مریضوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے اگر کسی کے پاس چادر نہ ہو اور اس وجہ سے وہ عید کے دن (عیدگاہ) نہ جا سکے تو کوئی حرج ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی سہیلی اپنی چادر کا ایک حصہ اسے اڑھا دے اور پھر وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر جب ام عطیہ رضی اللہ عنہا یہاں تشریف لائیں تو میں ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوئی اور دریافت کیا کہ آپ نے فلاں فلاں بات سنی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہاں میرے باپ آپ پر فدا ہوں۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو یہ ضرور کہتیں کہ میرے باپ آپ پر فدا ہوں، ہاں تو انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوان پردہ والی یا جوان اور پردہ والی باہر نکلیں۔ شبہ ایوب کو تھا۔ البتہ حائضہ عورتیں عیدگاہ سے علیحدہ ہو کر بیٹھیں انہیں خیر اور مسلمانوں کی دعا میں ضرور شریک ہونا چاہیے۔ حفصہ نے کہا کہ میں نے ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ حائضہ عورتیں بھی؟ انہوں نے فرمایا کیا حائضہ عورتیں عرفات نہیں جاتیں اور کیا وہ فلاں فلاں جگہوں میں شریک نہیں ہوتیں (پھر اجتماع عید ہی کی شرکت میں کون سی قباحت ہے)۔

Narrated Aiyub: Hafsa bint Seereen said, "On Id we used to forbid our girls to go out for `Id prayer. A lady came and stayed at the palace of Bani Khalaf and I went to her. She said, 'The husband of my sister took part in twelve holy battles along with the Prophet and my sister was with her husband in six of them. My sister said that they used to nurse the sick and treat the wounded. Once she asked, 'O Allah's Apostle! If a woman has no veil, is there any harm if she does not come out (on `Id day)?' The Prophet said, 'Her companion should let her share her veil with her, and the women should participate in the good deeds and in the religious gatherings of the believers.' " Hafsa added, "When Um-`Atiya came, I went to her and asked her, 'Did you hear anything about so-and-so?' Um-`Atiya said, 'Yes, let my father be sacrificed for the Prophet (p.b.u.h). (And whenever she mentioned the name of the Prophet she always used to say, 'Let my father be' sacrificed for him). He said, 'Virgin mature girls staying often screened (or said, 'Mature girls and virgins staying often screened--Aiyub is not sure as which was right) and menstruating women should come out (on the `Id day). But the menstruating women should keep away from the Musalla. And all the women should participate in the good deeds and in the religious gatherings of the believers'." Hafsa said, "On that I said to Um-`Atiya, 'Also those who are menstruating?' " Um-`Atiya replied, "Yes. Do they not present themselves at `Arafat and elsewhere?".
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 15, Number 96


   صحيح البخاري974نسيبة بنت كعبنخرج العواتق ذوات الخدور
   صحيح البخاري324نسيبة بنت كعبيخرج العواتق ذوات الخدور الحيض ليشهدن الخير ودعوة المؤمنين يعتزل الحيض المصلى
   صحيح البخاري980نسيبة بنت كعبلتلبسها صاحبتها من جلبابها فليشهدن الخير ودعوة المؤمنين وليخرج العواتق ذوات الخدور والحيض وليعتزل الحيض المصلى ليشهدن الخير ودعوة المؤمنين قالت فقلت لها الحيض قالت نعم أليس الحائض تشهد عرفات وتشهد كذا وتشهد كذا
   صحيح البخاري351نسيبة بنت كعبنخرج الحيض يوم العيدين ذوات الخدور يشهدن جماعة المسلمين ودعوتهم يعتزل الحيض عن مصلاهن إحدانا ليس لها جلباب قال لتلبسها صاحبتها من جلبابها
   صحيح البخاري981نسيبة بنت كعبنخرج فنخرج الحيض العواتق ذوات الخدور الحيض فيشهدن جماعة المسلمين ودعوتهم يعتزلن مصلاهم
   صحيح البخاري971نسيبة بنت كعبنخرج يوم العيد حتى نخرج البكر من خدرها نخرج الحيض فيكن خلف الناس فيكبرن بتكبيرهم ويدعون بدعائهم يرجون بركة ذلك اليوم وطهرته
   صحيح البخاري1652نسيبة بنت كعبلتخرج العواتق ذوات الخدور أو العواتق وذوات الخدور والحيض فيشهدن الخير ودعوة المسلمين يعتزل الحيض المصلى فقلت ألحائض فقالت أوليس تشهد عرفة وتشهد كذا وتشهد كذا
   صحيح مسلم2054نسيبة بنت كعبنخرج في العيدين العواتق ذوات الخدور أمر الحيض أن يعتزلن مصلى المسلمين
   صحيح مسلم2055نسيبة بنت كعبنؤمر بالخروج في العيدين والمخبأة والبكر
   صحيح مسلم2056نسيبة بنت كعبنخرجهن في الفطر والأضحى العواتق الحيض ذوات الخدور الحيض فيعتزلن الصلاة يشهدن الخير ودعوة المسلمين إحدانا لا يكون لها جلباب قال لتلبسها أختها من جلبابها
   جامع الترمذي539نسيبة بنت كعبلتعرها أختها من جلابيبها
   سنن أبي داود1136نسيبة بنت كعبنخرج ذوات الخدور يوم العيد الحيض قال ليشهدن الخير ودعوة المسلمين لم يكن لإحداهن ثوب كيف تصنع قال تلبسها صاحبتها طائفة من ثوبها
   سنن النسائى الصغرى390نسيبة بنت كعبلتخرج العواتق ذوات الخدور الحيض فيشهدن الخير ودعوة المسلمين تعتزل الحيض المصلى
   سنن النسائى الصغرى1560نسيبة بنت كعبأخرجوا العواتق ذوات الخدور فيشهدن العيد ودعوة المسلمين ليعتزل الحيض مصلى الناس
   سنن النسائى الصغرى1559نسيبة بنت كعبليخرج العواتق ذوات الخدور الحيض ويشهدن العيد ودعوة المسلمين ليعتزل الحيض المصلى
   سنن ابن ماجه1307نسيبة بنت كعبنخرجهن في يوم الفطر والنحر
   سنن ابن ماجه1308نسيبة بنت كعبأخرجوا العواتق ذوات الخدور ليشهدن العيد ودعوة المسلمين ليجتنبن الحيض مصلى الناس
   بلوغ المرام389نسيبة بنت كعبنخرج العواتق والحيض في العيدين
   مسندالحميدي365نسيبة بنت كعبلتلبسها أختها من جلبابها، وتشهد العيد، ودعوة المسلمين
   مسندالحميدي366نسيبة بنت كعبأخرجوا العواتق، وذوات الخدور فليشهدن العيد، ودعوة المسلمين، وليعتزل الحيض مصلى المسلمين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 390  
´عیدین اور مسلمانوں کی دعا میں حائضہ عورتوں کی حاضری کا بیان۔`
حفصہ (حفصہ بنت سیرین) کہتی ہیں کہ ام عطیہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو کہتیں: میرے والد آپ پر قربان ہوں، تو میں نے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ایسا فرماتے سنا ہے، انہوں نے کہا: ہاں، میرے والد آپ پر قربان ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: بالغ لڑکیاں، پردے والیاں، اور حائضہ عورتیں نکلیں، اور خطبہ اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں، البتہ حائضہ عورتیں نماز پڑھنے کی جگہ سے الگ رہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 390]
390۔ اردو حاشیہ:
«بیبا» یا «بأبا» دراصل «بأبي» ہے جس کا ترجمہ متن میں لکھ دیا گیا ہے۔ یہ ان محترمہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار عقیدت و محبت ہے۔ عقیدے کے لحاظ سے بھی یہ بات ہمارے ایمان کا جزو ہے کہ ہماری ہر چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہو جائے، چاہے جان ہو یا مال، والدین ہوں یا اولاد۔
ایسے ایسے فرماتے سنا ہے؟ یعنی عورتوں کے عید میں حاضرہونے کے بارے میں۔
➌ عید اہل اسلام کی خوشی، شان و شوکت، شکرانے اور عبادت کا عظیم دن ہے، اس لیے ہر مرد اور عورت کا جانا ضروری ہے۔ عورتیں پردے کے ساتھ جائیں تاکہ شان و شوکت کے ساتھ نیکی کے جذبات کا اظہار بھی ہو۔ حیض والی عورتوں کے لیے عبادت (نمازکی ادائیگی)تو منع ہے مگر ان کے جانے سے باقی مقاصد پورے ہوں گے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 390   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1136  
´عید میں عورتوں کے جانے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم پردہ نشین عورتوں کو عید کے دن (عید گاہ) لے جائیں، آپ سے پوچھا گیا: حائضہ عورتوں کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر میں اور مسلمانوں کی دعا میں چاہیئے کہ وہ بھی حاضر رہیں، ایک خاتون نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کسی کے پاس کپڑا نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: اس کی سہیلی اپنے کپڑے کا کچھ حصہ اسے اڑھا لے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1136]
1136۔ اردو حاشیہ:
➊ عید کے دنوں میں عورتوں کا عیدگاہ میں جانا مستحب ہے، مگر پردے میں خوشبو اور آواز دار زیور کے بغیر۔
➋ دعوۃ المسلمین میں اجتماعی دعا کا ثبوت ہے، مگر مروجہ طریقے سے نہیں۔
➌ دعا کے لئے طہارت ضروری نہیں اس کے بغیر بھی دعا کرنا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1136   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1307  
´عیدین میں عورتوں کے عیدگاہ جانے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عورتوں کو عیدین میں لے جائیں، ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ بتائیے اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو (کیا کرے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی ساتھ والی اسے اپنی چادر اڑھا دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1307]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
  جس طرح فرض نمازوں میں اور جمعے میں عورتوں کا مسجد میں آنا جائز ہے۔
اسی طرح عیدین میں بھی ان کی حاضری ضروری ہے۔

(2)
اس میں ایک حکمت تو یہ ہے کہ خطبے میں دین کے مسائل بیان کیے جاتے ہیں۔
اوردین سیکھنا عورتوں پر بھی فرض ہے۔
دوسرے عید مسلمانوں کی اجتماعی شان وشوکت کے اظہا کا دن ہے۔
عورتوں اور بچوں کی شرکت سے یہ مقصد زیادہ بہتر طریقے پر پورا ہوتا ہے۔
تیسرے یہ کہ عید اجتماعی خوشی کا موقع ہے۔
جس میں مرد اورعورتیں سبھی اہل ایمان شامل ہیں۔
لہٰذا عورتوں کو اس خوشی میں شرکت سے محروم رکھنے کا کوئی جواز نہیں
(2)
اگر کسی خاتون کو کوئی ایسا عذر لاحق ہو۔
جس کی وجہ سے وہ عید کے اجتماع میں شریک نہ ہوسکتی ہوتو اس کا یہ عذر اگردور ہوسکتا ہوتو ضرور کیا جائے۔
اسے نماز عید پڑھنے اور خطبہ سننے سے محروم نہ رکھا جائے۔

(4)
اگر کسی کے پاس چادر نہ ہوتو دوسری خاتون اسے اپنی چادر میں شریک کرے۔
دو عورتوں کا ایک چادر اوڑھ کرچلنا ایک مشکل کام ہے۔
لیکن اس کا حکم دیا گیا ہے اس سے عورتوں کے عید میں شریک ہونے کی انتہائی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔

(5)
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسری خاتون کے پاس دو چادریں ہوں۔
تو وہ ایک چادر اس عورت کودے دے۔
جس کے پاس چادر نہیں صحیح ابن خزیمہ کی روایت کے الفاظ سے یہ مفہوم ظاہر ہوتا ہے۔ (صحیح ابن خزیمة: 362/2، حدیث: 1467)

(6)
پردہ اس قدر اہم ہے کہ چادر نہ ہونے کو بے پردہ باہر جانے کےلئے عذر تسلیم نہیں کیا گیا۔
حتیٰ کہ اگر دوسری عورتو ں سے عاریتاً بھی چادر نہ ملے تو وہ عورتیں ایک چادر اوڑھ کر چلیں بغیر چادر کے نہ جایئں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1307   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 389  
´نماز عیدین کا بیان`
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم جوان لڑکیوں اور حائضہ عورتوں کو بھی عیدین میں ساتھ لے کر نکلیں تاکہ وہ بھی مسلمانوں کے امور خیر اور دعاؤں میں شریک ہوں۔ البتہ حائضہ عورتیں عید گاہ کے کنارے پر رہیں۔ (نماز میں شامل نہ ہوں صرف دعا میں شرکت کریں) (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 389»
تخریج:
«أخرجه البخاري، العيدين، باب خروج النساء والحيض إلي المصلي، حديث:974، ومسلم، صلاة العيدين، باب ذكر إباحة خروج النساء في العيدين إلي المصلي، حديث:890.»
تشریح:
1. خواتین کا نماز عید کے لیے جانا اس حدیث کی رو سے ثابت ہے۔
2.ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی ازواج مطہرات اور اپنی بیٹیوں کو عید گاہ میں لے جاتے تھے۔
(مسند أحمد: ۱ / ۲۳۱‘ و سنن ابن ماجہ‘ إقامۃ الصلوات والسنۃ فیھا‘ حدیث:۱۳۰۹) حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم خواتین کا نماز عید میں حاضر ہونا واجب سمجھتے تھے۔
3.احناف نے اس حدیث کی تاویل کی ہے اور اسے ابتدائے اسلام کا واقعہ بتایا ہے تاکہ اہل اسلام کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور کثرت تعداد اہل کفر و شرک کے لیے باعث اذیت ہو اور مسلمانوں کی دھاک بیٹھے‘ مگر یہ تاویل جس پر علامہ طحاوی نے بڑا زور قلم صرف کیا ہے‘ قابل لحاظ معلوم نہیں ہوتی کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما گواہی دیتے ہیں کہ ازواج مطہرات وغیرہ عید پڑھنے جاتی تھیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کم عمر تھے‘ ظاہر ہے کہ ان کی یہ گواہی فتح مکہ کے بعد کی ہے جس وقت اظہار قوت کی ضرورت ہی نہیں تھی‘ اس لیے عورتوں کو عید گاہ میں بہر نوع حاضر ہونا چاہیے۔
اور جو لوگ باطل تاویلات کرتے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 389   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 539  
´عیدین میں عورتوں کے عیدگاہ جانے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں کنواری لڑکیوں، دوشیزاؤں، پردہ نشیں اور حائضہ عورتوں کو بھی لے جاتے تھے۔ البتہ حائضہ عورتیں عید گاہ سے دور رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہتیں۔ ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: اس کی بہن کو چاہیئے کہ اسے اپنی چادروں میں سے کوئی چادر عاریۃً دیدے ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب العيدين/حدیث: 539]
اردو حاشہ:
1؎:
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کو نماز عید کے لیے عید گاہ لے جانا مسنون ہے،
جو لوگ اس کی کراہت کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں:
یہ ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے تاکہ اہل اسلام کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور لوگوں پر ان کی دھاک بیٹھ جائے،
لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اس طرح کی روایت آتی ہے اور وہ کمسن صحابہ میں سے ہیں،
ظاہر ہے ان کی یہ گواہی فتح مکہ کے بعد کی ہو گی جس وقت اظہار قوت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 539   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 980  
980. حضرت حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم اپنی جوان لڑکیوں کو عید کے دن باہر نکلنے سے منع کرتی تھیں، چنانچہ ایک عورت قصر بنی خلف میں آ کر مقیم ہوئی تو میں اس کے پاس پہنچی۔ اس نے بیان کیا کہ اس کا بہنوئی نبی ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شریک ہوا تھا۔ اس کی بہن بھی چھ غزوات میں اس کے ہمراہ تھی۔ ہمشیرہ نے بیان کیا کہ ہمارا کام مریضوں کی خبر گیری اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا تھا۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر کسی عورت کے پاس بڑی چادر نہ ہو، ایسے حالات میں اگر وہ عید کے لیے باہر نہ جائے تو کوئی حرج ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: اس کی سہیلی اپنی چادر میں سے کچھ حصہ اسے پہنا دے، تاہم انہیں چاہئے کہ وہ امور خیر اور اہل ایمان کی دعاؤں میں ضرور شمولیت کریں۔ حضرت حفصہ بنت سیرین نے کہا: جب حضرت ام عطیہ‬ ؓ ت‬شریف لائیں تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے عرض۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:980]
حدیث حاشیہ:
حفصہ کے سوال کی وجہ یہ تھی کہ حائضہ پر نماز ہی فرض نہیں اور نہ وہ نماز پڑھ سکتی ہے تو عید گاہ میں اس کی شرکت سے کیا فائدہ ہوگا۔
اس پر حضرت ام عطیہ ؓ نے فرمایا کہ جب حیض والی عرفات اور دیگر مقامات مقدسہ میں جاسکتی ہیں اور جاتی ہیں تو عید گاہ میں کیوں نہ جائیں، اس جواب پر آج کل کے ان حضرات کو غور کرنا چاہیے جو عورتوں کو عید گاہ میں جانا ناجائز قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے سو حیلے بہانے تراشتے ہیں حالانکہ مسلمانوں کی عورتیں میلوں میں اور فسق وفجور میں دھڑلے سے شریک ہوتی ہیں۔
خلاصہ یہ کہ حیض والی عورتوں کوبھی عید گاہ جانا چاہیے۔
وہ نماز سے الگ رہیں مگر دعاؤں میں شریک ہوں۔
اس سے مسلمانوں کی اجتماعی دعاؤں کی اہمیت بھی ثابت ہوتی ہے۔
بلا شک دعا مومن کا ہتھیار ہے اور جب مسلمان مرد وعورت مل کر دعا کریں تو نہ معلوم کس کی دعا قبول ہو کر جملہ اہل اسلام کے لیے باعث برکت ہو سکتی ہے۔
بحالات موجودہ جبکہ مسلمان ہر طرف سے مصائب کا شکار ہیں بالضرور دعاؤں کا سہارا ضروری ہے۔
امام عید کا فرض ہے کہ خشوع وخضوع کے ساتھ اسلام کی سر بلندی کے لیے دعا کرے، خاص طور پر قرآنی دعائیں زیادہ مؤثر ہیں پھر احادیث میں بھی بڑی پاکیزہ دعائیں وارد ہوئی ہیں۔
ان کے بعد سامعین کی مادری زبانوں میں بھی دعا کی جا سکتی ہے۔
(وباللہ التوفیق)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 980   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:980  
980. حضرت حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم اپنی جوان لڑکیوں کو عید کے دن باہر نکلنے سے منع کرتی تھیں، چنانچہ ایک عورت قصر بنی خلف میں آ کر مقیم ہوئی تو میں اس کے پاس پہنچی۔ اس نے بیان کیا کہ اس کا بہنوئی نبی ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شریک ہوا تھا۔ اس کی بہن بھی چھ غزوات میں اس کے ہمراہ تھی۔ ہمشیرہ نے بیان کیا کہ ہمارا کام مریضوں کی خبر گیری اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا تھا۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر کسی عورت کے پاس بڑی چادر نہ ہو، ایسے حالات میں اگر وہ عید کے لیے باہر نہ جائے تو کوئی حرج ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: اس کی سہیلی اپنی چادر میں سے کچھ حصہ اسے پہنا دے، تاہم انہیں چاہئے کہ وہ امور خیر اور اہل ایمان کی دعاؤں میں ضرور شمولیت کریں۔ حضرت حفصہ بنت سیرین نے کہا: جب حضرت ام عطیہ‬ ؓ ت‬شریف لائیں تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے عرض۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:980]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں سوالیہ انداز اختیار کیا ہے، جزم اور وثوق کے ساتھ اس کا جواب ذکر نہیں کیا۔
زین بن منیر کہتے ہیں کہ حدیث میں اس کی وضاحت تھی، اس لیے امام بخاری ؒ نے صراحت کے ساتھ جواب ذکر نہیں فرمایا۔
لیکن ہمارے نزدیک چونکہ جواب میں متعدد احتمالات تھے، اس لیے امام بخاری ؒ نے حسب عادت جواب کو حذف کر دیا ہے۔
یہ بھی احتمال تھا کہ وہ اپنی سہیلی کی چادروں میں سے کوئی چادر بطور ادھار لے لے جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ کی روایت میں ہے۔
اور امام ترمذی ؒ نے بیان کیا ہے کہ وہ اپنی سہیلی سے عاریتاً کوئی چادر لے۔
یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی سہیلی اپنی چادر میں چھپا کر لے جائے جیسا کہ ابوداود کی روایت میں ہے:
اس کی سہیلی کو چاہیے کہ وہ اپنی چادر کے ایک کنارے میں اسے چھپا کر لے جائے۔
ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد بطور مبالغہ فرمایا ہو کہ انہیں بہر صورت عیدگاہ جانا چاہیے۔
اگرچہ ایک چادر، دو عورتیں لپیٹ کر ہی کیوں نہ جائیں۔
(فتح الباري: 605/2) (2)
عیدگاہ میں حائضہ عورتوں کی حاضری کو عجیب سمجھا جا رہا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے۔
حضرت ام عطیہ ؓ نے وضاحت فرمائی کہ کیا عورتیں حج کے موقع پر میدان عرفات، مزدلفہ اور رمی جمرات کے لیے منیٰ میں حاضر نہیں ہوتیں؟ مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو ذکر کرنے سے نہ روکا جائے اور نہ انہیں مسجد کے علاوہ دیگر مقدس مقامات ہی میں داخل ہونے سے روکا جائے۔
اگر وہ عیدگاہ میں جمع ہو کر اللہ کا ذکر کریں، وعظ و نصیحت سنیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
انہیں صرف دخول مسجد اور نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔
اور عیدگاہ مسجد نہیں ہے، نیز وہاں جانے پر ان پر نماز پڑھنا ضروری نہیں، لہذا شوکتِ اسلام کے اظہار کے لیے ان کی عید میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 980   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.