الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
6. باب الْأَمْرِ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ تَعَالَى وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَائِعِ الدِّينِ وَالدُّعَاءِ إِلَيْهِ وَالسُّؤَالِ عَنْهُ وَحِفْظِهِ وَتَبْلِيغِهِ مَنْ لَمْ يَبْلُغْهُ 
6. باب: اللہ و رسول اور دینی احکام پر ایمان لانے کا حکم کرنا اور اس کی طرف لوگوں کو بلانا دین کی باتوں کو پوچھنا یاد رکھنا اور دوسروں کو پہنچانا۔
حدیث نمبر: 115
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا خلف بن هشام ، حدثنا حماد بن زيد ، عن ابي جمرة ، قال: سمعت ابن عباس . ح وحدثنا يحيى بن يحيى واللفظ له، اخبرنا عباد بن عباد ، عن ابي جمرة ، عن ابن عباس ، قال: قدم وفد عبد القيس، على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله، إنا هذا الحي من ربيعة، وقد حالت بيننا وبينك كفار مضر، فلا نخلص إليك إلا في شهر الحرام، فمرنا بامر نعمل به وندعو إليه من وراءنا، قال: آمركم باربع، وانهاكم عن اربع، الإيمان بالله، ثم فسرها لهم، فقال: " شهادة ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وان تؤدوا خمس ما غنمتم، وانهاكم عن الدباء، والحنتم، والنقير، والمقير "، زاد خلف في روايته: شهادة ان لا إله إلا الله، وعقد واحدة.حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ، عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا هَذَا الْحَيَّ مِنْ رَبِيعَةَ، وَقَدْ حَالَتْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ كُفَّارُ مُضَرَ، فَلَا نَخْلُصُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي شَهْرِ الْحَرَامِ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نَعْمَلُ بِهِ وَنَدْعُو إِلَيْهِ مَنْ وَرَاءَنَا، قَالَ: آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ، وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، الإِيمَانِ بِاللَّهِ، ثُمَّ فَسَّرَهَا لَهُمْ، فَقَالَ: " شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَأَنْ تُؤَدُّوا خُمُسَ مَا غَنِمْتُمْ، وَأَنْهَاكُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالنَّقِيرِ، وَالْمُقَيَّرِ "، زَادَ خَلَفٌ فِي رِوَايَتِهِ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَعَقَدَ وَاحِدَةً.
خلف بن ہشام نے بیان کیا (کہا) ہمیں حماد بن زید نے ابو جمرہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا، نیز یحییٰ بن یحییٰ نے کہا: (الفاظ انہی کے ہیں) ہمیں عباد بن عباد نے ابو جمرہ سے خبر دی کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عبدالقیس کا وفد آیا۔ وہ (لوگ) کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہم لوگ (یعنی) بنو ربیعہ کا یہ قبیلہ ہے۔ ہمارے اور آپ کے درمیان (قبیلہ) مضر کے کافر حائل ہیں اور ہم حرمت والے مہینے کے سوا بحفاظت آپ تک نہیں پہنچ سکتے، لہٰذا آپ ہمیں وہ حکم دیجیے جس پر خود بھی عمل کریں اور جو پیچھے ہیں ان کو بھی اس کی دعوت دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں: (جن کا حکم دیتا ہوں وہ ہیں:) اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا پھر آپ نے ان کے سامنے ایمان باللہ کی وضاحت کی، فرمایا: اس حقیقت کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالیقین اللہ کے رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا اور جومال غنیمت تمہیں حاصل ہو، اس میں سے خمس (پانچواں حصہ) ادا کرنا۔ اور میں تمہیں روکتا ہوں کدو کے برتن، سبز گھڑے، لکڑی کے اندر سے کھود کر (بنائے ہوئے) برتن اور ا یسے برتنوں کے استعمال سے جن پر تارکول ملا گیا ہو۔ خلف نےاپنی روایت میں یہ اضافہ کیا: اس (سچائی) کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اسے انہوں نےانگلی کے اشارے سے ایک شمار کیا۔
حضرت ابنِ عباس رضی الله عنهما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عبد القیس کا وفد حاضر ہوا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسولؐ! ہم ربیعہ قبیلے کے افراد ہیں، ہمارے اور آپ کے درمیان مضر قبیلہ جو کافر ہے، حائل ہے اور ہم حرمت والے مہینے کے سوا آپ تک پہنچ نہیں سکتے۔ لہذٰا آپ ہمیں کسی ایسے امر(حکم، بات) کا حکم دیجیے جس پرہم عمل پیرا ہوں اور اپنے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو اس کی دعوت دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: میں تمھیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور تمھیں چار چیزوں سے روکتا ہوں- 1۔ اللہ تعالیٰ پر اایمان لانا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایمان باللہ کی تفسیر کی، فرمایا: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اور بے شک محمد اللہ کے رسول ہیں۔ 2۔ نماز قائم کرنا۔ 3۔ زکوٰۃ ادا کرنا۔ 4۔ مالِ غنیمت جو تمھیں حاصل ہو اس سے پانچواں حصہ ادا کرنا۔ اور میں تمھیں دُباء (کدّو کا تونبہ) سبز گھڑے، لکڑی کے برتن، تار کول ملے ہوئے برتن کے استعمال سے منع کرتا ہوں۔ خلف نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں کا اقرار۔ اور اس کو آپ نےانگلی کے اشارے سے ایک شمار کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 17

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى الايمان، باب: اداء الخمس من الايمان برقم (53) وفى المواقيت، باب: ﴿ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴾ برقم (523) وفي الزكاة باب: وجوب الزكاة برقم (1398) وفى فرض الخمس، باب: اداء الخمس من الدين برقم (3095) وفى المناقب، باب: 5 - برقم (3510) وفي المغازي باب: وقد عبد القيس برقم (4368 و 4369) وأخرجه ايضا فى الادب، باب: قول الرجل: مرحبا برقم (6176) وفى اخبار الاحاد، باب: وصاة النبى صلى الله عليه وسلم وفود العرب ان يبلغوا من ورائهم برقم (7266) وفى التوحيد، باب: قول الله تعالى: ﴿ وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ﴾ برقم (7556)»

   سنن النسائى الصغرى5034عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله ثم فسرها لهم شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله
   صحيح البخاري7556عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع آمركم بالإيمان بالله هل تدرون ما الإيمان بالله شهادة أن لا إله إلا الله وإقام الصلاة
   صحيح البخاري6176عبد الله بن عباسأربع وأربع أقيموا الصلاة آتوا الزكاة صوموا رمضان أعطوا خمس ما غنمتم لا تشربوا في الدباء والحنتم والنقير والمزفت
   صحيح البخاري53عبد الله بن عباسشهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وصيام رمضان وأن تعطوا من المغنم الخمس ونهاهم عن أربع عن الح
   صحيح البخاري3095عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله شهادة أن لا إله إلا الله وعقد بيده وإقام الصلاة
   صحيح البخاري7266عبد الله بن عباسشهادة أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة
   صحيح البخاري4369عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله شهادة أن لا إله إلا الله وعقد واحدة وإقام الصلاة
   صحيح البخاري4368عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله هل تدرون ما الإيمان بالله شهادة أن لا إله إلا الله وإقام الصلاة
   صحيح البخاري3510عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله شهادة أن لا إله إلا الله وإقام الصلاة
   صحيح البخاري87عبد الله بن عباسشهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وصوم رمضان وتعطوا الخمس من المغنم ونهاهم عن الدباء و
   صحيح البخاري523عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله ثم فسرها لهم شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله
   صحيح البخاري1398عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله وشهادة أن لا إله إلا الله وعقد بيده هكذا
   صحيح مسلم115عبد الله بن عباسشهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وأن تؤدوا خمس ما غنمتم أنهاكم عن الدباء والحنتم والنقير والمقير
   صحيح مسلم116عبد الله بن عباسشهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وصوم رمضان وأن تؤدوا خمسا
   جامع الترمذي2611عبد الله بن عباسآمركم بأربع الإيمان بالله ثم فسرها لهم شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة
   سنن أبي داود3692عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله وشهادة أن لا إله إلا الله وعقد بيده واحدة
   سنن أبي داود4677عبد الله بن عباسشهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وصوم رمضان وأن تعطوا الخمس من المغنم
   مشكوة المصابيح17عبد الله بن عباسفامرهم باربع ونهاهم عن اربع: امرهم بالإيمان بالله وحده

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 53  
´مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنا بھی ایمان سے ہے`
«. . . فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار قسم کے برتنوں کو استعمال میں لانے سے منع فرمایا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 53]

تشریح:
یہاں بھی مرجیہ کی تردید مقصود ہے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ومذهب السلف فى الايمان من كون الاعمال داخلة فى حقيقته فانه قد فسرالاسلام فى حديث جبرئيل بما فسربه الايمان فى قصة وفدعبدالقيس فدل هذا على ان الاشياءالمذكورة وفيها اداءالخمس من اجزاءالايمان وانه لا بدفي الايمان من الاعمال خلافا للمرجئة۔» [مرعاة، جلد اول، ص: 45]
یعنی سلف کا مذہب یہی ہے کہ اعمال ایمان کی حقیقت میں داخل ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث جبرئیل علیہ السلام (مذکورہ سابقہ) میں اسلام کی جو تفسیر بیان فرمائی وہی تفسیر آپ نے وفد عبدالقیس کے سامنے ایمان کی فرمائی۔ پس یہ دلیل ہے کہ اشیاء مذکورہ جن میں مال غنیمت سے خمس ادا کرنا بھی ہے یہ سب اجزاء ایمان سے ہیں اور یہ کہ ایمان کے لیے اعمال کا ہونا لابدی ہے۔ مرجیہ اس کے خلاف ہیں۔ (جو ان کی ضلالت و جہالت کی دلیل ہے)۔

جن برتنوں کے استعمال سے آپ نے منع فرمایا ان میں عرب کے لوگ شراب رکھا کرتے تھے۔ جب پینا حرام قرار پایا تو چند روز تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں کے استعمال کی بھی ممانعت فرما دی۔

یادرکھنے کے قابل:
یہاں حضرت مولانامبارک پوری رحمہ اللہ نے ایک یاد رکھنے کے قابل بات فرمائی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
«قال الحافظ وفيه دليل على تقدم اسلام عبدالقيس على قبائل الذين كانوا بينهم وبين المدينة ويدل على سبقهم الي الاسلام ايضا مارواه البخاري فى الجمعة عن ابن عباس قال ان اول جمعة جمعت بعدجمعة فى مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم فى مسجد عبدالقيس بجواثي من البحرين وانما جمعوا بعدرجوع وفدهم اليهم فدل على انهم سبقوا جميع القريٰ الي الاسلام انتهي واحفظه فانه ينفعك فى مسئلة الجمعة فى القريٰ۔» [مرعاة، جلد: اول، ص: 44]
یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ عبدالقیس کا قبیلہ مضر سے پہلے اسلام قبول کر چکا تھا جو ان کے اور مدینہ کے بیچ میں سکونت پذیر تھے۔ اسلام میں ان کی سبقت پر بخاری کی وہ حدیث بھی دلیل ہے جو نماز جمعہ کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ مسجد نبوی میں اقامت جمعہ کے بعد پہلا جمعہ جواثی نامی گاؤں میں جو بحرین میں واقع تھا، عبدالقیس کی مسجد میں قائم کیا گیا۔ یہ جمعہ انہوں نے مدینہ سے واپسی کے بعد قائم کیا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ وہ دیہات میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ اسے یاد رکھو یہ گاؤں میں جمعہ ادا ہونے کے ثبوت میں تم کو نفع دے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 53   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 87  
´علم کی باتیں یاد کرنا اور دوسروں کو بتانا`
«. . . قَالَ: احْفَظُوهُ وَأَخْبِرُوهُ مَنْ وَرَاءَكُمْ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان (باتوں کو) یاد رکھو اور اپنے پیچھے (رہ جانے) والوں کو بھی ان کی خبر کر دو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 87]

تشریح:
نوٹ: یہ حدیث کتاب الایمان کے اخیر میں گزر چکی ہے۔ حضرت امام نے اس سے ثابت فرمایا ہے کہ استاد اپنے شاگردوں کو تحصیل علم کے لیے ترغیب و تحریص سے کام لے سکتا ہے۔ مزید تفصیل وہاں دیکھی جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 87   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 17  
´وفد عبدالقیس کو ایمانیات کی تعلیم`
«. . . وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ لَمَّا أَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ الْقَوْمُ؟ أَوْ: مَنِ الْوَفْدُ؟ " قَالُوا: رَبِيعَةُ. قَالَ: " مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ أَوْ: بِالْوَفْدِ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا نَدَامَى ". قَالُوا: يَا رَسُول الله إِنَّا لَا نستطيع أَن نَأْتِيَكَ إِلَّا فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فصل نخبر بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا وَنَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ وَسَأَلُوهُ عَنِ الْأَشْرِبَةِ. فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: - [13] - أَمَرَهُمْ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ وَحْدَهُ قَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ؟» قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَصِيَامِ رَمَضَانَ وَأَنْ تُعْطُوا مِنَ الْمَغْنَمِ الْخُمُسَ» ‏‏‏‏وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: عَنِ الْحَنْتَمِ وَالدُّبَّاءِ وَالنَّقِيرِ وَالْمُزَفَّتِ وَقَالَ: «احْفَظُوهُنَّ وَأَخْبِرُوا بِهِنَّ مَنْ وَرَاءَكُمْ» وَلَفظه للْبُخَارِيّ ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ یہ وفد کس قبیلے کا ہے یا کس قوم کا ہے؟ (اس میں راوی حدیث کا شبہہ ہے کہ آپ نے لفظ «قوم» فرمایا یا لفظ «قبيله» فرمایا) انہوں نے کہا: ہم ربیعہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرحبا اور خوش آمدید فرمایا، اس وفد یا قوم کو مبارک ہو، نہ دنیا میں ذلت و رسوائی ہو اور نہ آخرت میں شرمندگی نصیب ہو (یہ ان کے حق میں دعائے خیر اور بشارت ہے) ان لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (ہم دور دراز مسافت طے کر کے آئے ہیں) صرف عزت و احترام والے مہینے میں آ سکتے ہیں جن میں جنگ حرام ہے (دیگر مہینوں میں نہیں آ سکتے اس لیے کہ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا قبیلہ حائل ہے جب غیر محرم کے مہینے میں حاضر ہوں گے تو مضر والے جنگ کریں گے اس لیے ہم انہیں مہینوں میں حاضر ہو سکتے ہیں جن میں کافروں کے نزدیک بھی لڑائی حرام ہے) اس لیے آپ کوئی ایسی فیصل بات بتا دیجیے کہ جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں انہیں جا کر بتائیں اور ہم خود بھی اس پر عمل کر کے جنت میں داخل ہونے کے لائق ہو جائیں۔ اور اسی کے ساتھ ہی ان لوگوں نے ان برتنوں کی بابت بھی دریافت کیا جن میں پہلے نبیذ بنائی جاتی تھی کہ اب ان برتنوں کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے منع فرمایا: انہیں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا حکم دیا کہ تم صرف ایک اللہ پر ایمان لاؤ۔ (یہ کہہ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جانتے ہو اللہ تعالیٰ پر ایمان کس طرح ہوتا ہے؟ (یا اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟) ان لوگوں نے عرض کیا کہ اس کو اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ پر ایمان لانا اس طرح ہوتا ہے کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہی عبادت کے لائق ہے، اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ (بیت المال) کو دینا۔ اور ان چار برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا۔ «حنتم» یعنی لاکھی ٹھلیا یا لاکھی مرتبان سے، «اَلدُّبَا» یعنی کدو کے تونبے سے، «نقير» یعنی لکڑی کے بنے ہوئے برتن سے، اور «مزفت» یعنی روغن دار رال کے برتن سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان باتوں کو یاد کر لو اور جو تمہارے پیچھے رہ گئے ہیں ان کو جاکر بتا دو۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 17]

تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 53]،
[صحيح مسلم 115،116]

فقہ الحدیث
➊ حصول علم اور جنت میں جانے کا جذبہ کس قدر صادق ہے کہ ہر قسم کی آزمائش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میلوں کا سفر طے کیا، اسی طرح معرفت حق کے بعد دوسرے تک پہنچانے کا جذبہ بھی لائق تحسین ہے۔ سبحان اللہ
➋ اس حدیث میں واضح ثبوت ہے کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز، زکوٰۃ، روزوں اور مال غنیمت کی ادائیگی کو ایمان میں سے قرار دیا ہے۔ اس فرمان نبوی کے سراسر برعکس گمراہ فرقہ مرجیہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اعمال ایمان سے خارج ہیں۔!!
➌ سلام و کلام کے بعد مہمانوں کو خوش آمدید کہنا صحیح ہے۔ نیز شبہات سے بچنے میں ہی احتیاط ہے۔
➍ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث یاد کر کے دوسرے لوگوں تک پہنچانا جنت میں داخلے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ اس حدیث سے محدثین کرام کی زبردست فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
➎ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں تین باتوں سے منع کیا تھا، اب میں تمہیں ان کے بارے میں حکم دیتا ہوں، میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا، اب ان کی زیارت کو چلے جایا کرو، یقیناً ان کی زیارت میں عبرت اور نصیحت ہے۔ میں نے تمہیں چمڑے کے برتنوں کے علاوہ کئی برتنوں میں پینے سے روکا تھا، تو (اب) ہر قسم کے برتنوں میں پی سکتے ہو لیکن کوئی نشہ آور چیز مت پیو۔ میں نے تمہیں قربانی کا گوشت تین دن کے بعد استعمال کرنے سے روکا تھا، اب اسے کھا سکتے ہو اور اپنے سفروں میں اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ [صحيح مسلم: 977، سنن ابي داود: 3298وللفظ له]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں جو ممانعت وارد ہوئی ہے وہ منسوخ ہے۔ واللہ اعلم
➏ بعض اوقات مومن کمزور بھی ہو سکتا ہے، مگر اسے ہر حال میں کتاب و سنت پر ڈٹا رہنا چاہیے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 17   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2611  
´ایمان میں دوسرے فرائض و واجبات کے داخل ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عبدقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، انہوں نے آپ سے عرض کیا: (اے اللہ کے رسول!) ہمارے اور آپ کے درمیان ربیعہ کا یہ قبیلہ حائل ہے، حرمت والے مہینوں کے علاوہ مہینوں میں ہم آپ کے پاس آ نہیں سکتے ۱؎ اس لیے آپ ہمیں کسی ایسی چیز کا حکم دیں جسے ہم آپ سے لے لیں اور جو ہمارے پیچھے ہیں انہیں بھی ہم اس کی طرف بلا سکیں، آپ نے فرمایا: میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں (۱) اللہ پر ایمان لانے کا، پھر آپ نے ان سے اس کی تفسیر و تشریح بیان کی «لا إلہ الا اللہ» اور «محمد رسول ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2611]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
حرمت والے مہینے چار ہیں:
رجب،
ذی قعدہ،
ذی الحجہ اور محرم،
چونکہ زمانہ جاہلیت میں ان مہینوں کو چھوڑ کر باقی دوسرے مہینوں میں جنگ و جدال جاری رہتا تھا،
اسی لیے قبیلۂ عبدقیس کے وفد کے لوگوں نے آپ ﷺ سے دوسرے مہینوں میں آپ تک نہ پہنچ سکنے کی معذرت کی اور آپﷺ سے دین کی اہم اور بنیادی باتیں پوچھیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2611   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3692  
´شراب میں استعمال ہونے والے برتنوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عبدالقیس کا وفد آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ بنو ربیعہ کا ایک قبیلہ ہیں، ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کفار حائل ہیں، ہم آپ تک حرمت والے مہینوں ۱؎ ہی میں پہنچ سکتے ہیں، اس لیے آپ ہمیں کچھ ایسی چیزوں کا حکم دے دیجئیے کہ جن پر ہم خود عمل کرتے رہیں اور ان لوگوں کو بھی ان پر عمل کے لیے کہیں جو اس وفد کے ساتھ نہیں آئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں، اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں (جن کا حکم دیتا ہوں وہ یہ ہیں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3692]
فوائد ومسائل:

حق کی معرفت لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتی ہے۔
کہ انسان اس پر کاربند ہو اور دوسروں کو اس کی دعوت دے اور یہی فطرت سلیمہ ہے۔
جیسے کہ ان لوگوں نے اپنی ابتدائی گفتگو میں از خود اس کا اظہار کیا۔


دین واحکام کچھ احکام اور کچھ نواہی پر مشتمل ہے جس کی پاسداری کے بغیر اسلام اور دین مکمل نہیں ہوسکتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3692   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 115  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
وفد:
وافد کی جمع ہے،
کسی قوم یا قبیلہ کے ان منتخب لوگوں کو کہتے ہیں جو کسی ضروری کام کے لیے کسی صاحب اختیار و اقتدار کی ملاقات کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔
عبدالقیس:
یہ ایک آدمی کا نام ہے،
اس کی اولاد،
اس کی طرف منسوب ہوئی اور یہ ربیعہ کی ایک شاخ ہے،
ربیعہ بن فزار بن سعد،
اور مضر بن نزار بن معد دونوں بھائی تھے۔
عبدالقیس کے لوگ بحرین کے علاقہ میں رہتے تھے،
ان کا ایک وفد 112 افراد پر مشتمل 6 ہجری میں آیا اور دوسرا 140 افراد پر مشتمل 8 ہجری میں آیا،
پہلے وفد کا قائد منذر بن عائذ تھا آپ نے اس کو اشج کے نام سے پکارا۔
(2)
غنيمت:
وہ مال جو دشمن پر غالب آنے کی صورت میں اس سے حاصل ہو۔
(3)
الُّدبَّاء:
کدو کے خشک ہونے کے بعد،
اس کے گودے کو نکال کر جو تونبہ بنایا جاتا ہے۔
(4)
النَّقِير:
کھجور کے نچلے حصہ کو کرید کر برتن بنایا جاتا ہے گویا کریدی ہوئی لکڑی کا برتن۔
(5)
الحَنْتْم:
سبز روغن کا گھڑا،
بعض نے مطلقاً روغن گھڑا کہا ہے،
تو بعض مصری روغنی گھڑا،
یا لال رنگ گھڑا۔
(6)
مُقَيَّرُ:
قار سے ماخوذ ہے،
رال یا تارکول چڑھا ہوا برتن،
اسی کو دوسری روایت میں مزفت کا نام دیا گیا ہے جو زفت سے ماخوذ ہے اور مُقَيَّرُ کا ہم معنی ہے۔
فوائد ومسائل:
1- شھر الحرام:
اہل عرب کے ہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے چار ماہ محترم اور معزز خیال کیے جاتے تھے،
ان چار مہینوں میں جنگ وجدال اور قتل وغارت کو ممنوع سمجھا جاتا تھا اور لوگ امن وامان سے سفر کر سکتے تھے،
ذوالقعدہ،
ذوالحجہ اور محرم،
حج کےلیے مخصوص تھے اور رجب،
عمرہ کےلیے الشھر میں الف لام اگر عہد خارجی کےلیے ہوتو اس سے مراد،
رجب مراد ہوگا،
اور مضری لوگ رجب کی باقی مہینوں سے زیادہ تعظیم کرتے تھے،
اس لیے بعض حدیثوں میں رجب کی اضافت مضر کی طرف کرکے رجب مضر کے الفاظ آئے ہیں،
اگر مراد جنس ہوتو اس سے چاروں مہینے مراد ہوں گے۔
آگے آنے والے اشھر الحرم کے الفاظ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔

آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ:
میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں،
لیکن جب آپ نے حکم دیا تو صرف ایمان باللہ کا حکم دیا اور اس کی تفسیر میں امور اربعہ (چار باتیں)
بیان فرمائیں،
اس کا جواب یہ ہے کہ ایک چیز جب متعدد اجزا سے مرکب ہوتی ہے اور اوہ اجزا،
الگ الگ،
ایک مستقل حیثیت بھی رکھتے ہیں تو اس کے اجزا کے تعدد کا لظاظ رکھتے ہوئے،
اس کو متعدد بھی شمار کر سکتے ہیں اور مجہوعہ کی حیثیت سے ایک بھی جیسا کہ بعض اہل علم کے مختلف رسائل کو یکجا کر دیا جاتا ہے تو ہو ایک کتاب بن جاتے ہیں،
اور اپنی الگ الگ،
مستقل حیثیت کے اعتبار سے متعدد اسلام کے پانچ ارکان،
الگ الگ پانچ ہی شمار ہوتے ہیں اور ان کا مجموعی نام،
اسلام ایک ہی ہے،
یہی حال ایمان کے چھ ارکان کا ہے۔
اسی طرح اس حدیث میں،
ایمان باللہ کی تفسیر میں جو اشیاء بیان ہوئی ہیں،
وہ مجموعی اعتبار سے ایک ہیں اور اپنی الگ الگ حیثیت سے چار۔
اس لیے خلف بن ہشام نے شہادۃ ان لا الہ الا اللہ کا تذکرہ کرنے کے بعد عقد واحدہ ایک انگلی ہاتھ سے ملا کر ایک شمار کیا۔
ربیعہ،
مضر،
انماز اور زید چار بھائی تھے ان میں ربیعہ اور مضر کو بہت شہرت ملی قریش آپ کا قبیلہ مضر کی اولاد سے ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 115   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.