الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
1. باب ابْتِنَاءِ مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
1. باب: مسجد نبوی کی تعمیر۔
حدیث نمبر: 1173
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، وشيبان بن فروخ كلاهما، عن عبد الوارث ، قال يحيى: اخبرنا عبد الوارث بن سعيد ، عن ابي التياح الضبعي ، حدثنا انس بن مالك ، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قدم المدينة، فنزل في عل والمدينة، في حي، يقال لهم: بنو عمرو بن عوف، فاقام فيهم اربع عشرة ليلة، ثم إنه ارسل إلى ملإ بني النجار، فجاءوا متقلدين بسيوفهم، قال: فكاني انظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، على راحلته، وابو بكر، ردفه وملا بني النجار حوله، حتى القى بفناء ابي ايوب، قال: فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يصلي حيث ادركته الصلاة، ويصلي في مرابض الغنم، ثم إنه امر بالمسجد، قال: فارسل إلى ملإ بني النجار، فجاءوا، فقال: يا بني النجار، ثامنوني بحائطكم هذا؟ قالوا: لا والله، لا نطلب ثمنه إلا إلى الله، قال انس: فكان فيه ما اقول، كان فيه نخل وقبور المشركين وخرب، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالنخل، فقطع وبقبور المشركين، فنبشت وبالخرب فسويت، قال: فصفوا النخل قبلة، وجعلوا عضادتيه حجارة، قال: فكانوا يرتجزون، ورسول الله صلى الله عليه وسلم معهم "، وهم يقولون: اللهم إنه لا خير إلا خير الآخره فانصر الانصار والمهاجره.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَشَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ كلاهما، عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ الضُّبَعِيِّ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَنَزَلَ فِي عُلْ وَالْمَدِينَةِ، فِي حَيٍّ، يُقَالُ لَهُمْ: بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَأَقَامَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، ثُمَّ إِنَّهُ أَرْسَلَ إِلَى مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ، فَجَاءُوا مُتَقَلِّدِينَ بِسُيُوفِهِمْ، قَالَ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَأَبُو بَكْرٍ، رِدْفُهُ وَمَلَأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ، حَتَّى أَلْقَى بِفِنَاءِ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُصَلِّي حَيْثُ أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ، وَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ، ثُمَّ إِنَّهُ أَمَرَ بِالْمَسْجِدِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَى مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ، فَجَاءُوا، فَقَالَ: يَا بَنِي النَّجَّارِ، ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ هَذَا؟ قَالُوا: لَا وَاللَّهِ، لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ، قَالَ أَنَسٌ: فَكَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ، كَانَ فِيهِ نَخْلٌ وَقُبُورُ الْمُشْرِكِينَ وَخِرَبٌ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّخْلِ، فَقُطِعَ وَبِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ، فَنُبِشَتْ وَبِالْخِرَبِ فَسُوِّيَتْ، قَالَ: فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةً، وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ حِجَارَةً، قَالَ: فَكَانُوا يَرْتَجِزُونَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ "، وَهُمْ يَقُولُونَ: اللَّهُمَّ إِنَّهُ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الآخِرَهْ فَانْصُرِ الأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ.
۔ عبد الوارث بن سعید نے ہمیں ابو تیاح صبعی سے خبر دی، انہوں نے کہا: ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے بالائی حصے میں اس قبیلے میں فروکش ہوئے جنہیں بنو عمرو بن عوف کہا جاتا تھا اور وہاں چودہ راتیں قیام فرمایا، پھر آپ نے بنو نجار کے سرداروں کی طرف پیغام بھیجا تو وہ لوگ (پورے اہتمام سے) تلواریں لٹکائے ہوئے حاضر ہوئے۔ (انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی سواری پر دیکھ رہا ہوں، ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے سوار ہیں اور بنو نجار کے لوگ آپ کے ارد گرد ہیں یہاں تک کہ آپ نے سواری کا پالان ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے آنگن میں ڈال دیا۔ (انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: (اس وقت تک) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں بھی نماز کا وقت ہو جاتا آپ وہیں نماز ادا کر لیتے تھے۔ آپ بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد بنانے کا حکم دیا گیا۔ (انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: چنانچہ آپ نے بنو نجار کے لوگوں کی طرف پیغام بھیجا، وہ حاضر ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: اے بنی نجار! مجھ سے اپنے اس باغ کی قیمت طے کرو۔ انہوں نے جواب دیا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم اس کی قیمت صرف اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: اس جگہ وہی کچھ تھا جو میں تمہیں بتا رہا ہوں، اس میں کجھوروں کے کچھ درخت، مشرکوں کی چند قبریں اور ویرانہ تھا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، کجھوریں کاٹ دی گئیں، مشرکوں کی قبریں اکھیڑی گئیں اور ویرانے کو ہموار کر دیا گیا، اور لوگوں نے کجھوروں (کے تنوں) کو ایک قطار میں قبلے کی جانب گاڑ دیا اور دروازے کے (طور پر) دونوں جانب پتھر لگا دیے گئے۔ (انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: اور لوگ (صحابہ) رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ تھے، وہ کہتے تھے: اے اللہ! بے شک آخرت کی بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں، اس لیے تو انصار اور مہاجرین کی نصرت فرما۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے بلند حصہ میں بنو عمرو بن عوف نامی قبیلہ میں فروکش ہوئے اور یہاں چودہ راتیں قیام فرمایا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نجار کے سرداروں کو بلوایا تو وہ لوگ تلواریں لٹکائے ہوئے آئے، گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپصلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر دیکھ رہا ہوں۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار ہیں اور بنو نجار کے لوگ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف ہیں، یہاں تک کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنگن (سامنے کا آنگن) میں اترے، (آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سواری کا پالان ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنگن میں ڈال دیا) اور آپصلی اللہ علیہ وسلم یہ پسند کرتے تھے کہ جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے نماز پڑھ لیں اور آپصلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد بنانے کا حکم دیا، چنانچہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نجار کے لوگوں کو بلوایا اور فرمایا: اپنے اس باغ کی قیمت مجھ سے لے لو، انہوں نے جواب دیا، نہیں اللہ کی قسم! ہم اس کی قیمت صرف اللہ سے مانگتے ہیں، انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا، اس جگہ میں جو کچھ تھا میں تمہیں بتاتا ہوں، اس میں کھجوروں کے درخت، مشرکوں کی قبریں اور ویران جگہ تھی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے کھجور کے درختوں کو کاٹ دیا گیا،مشرکوں کی قبروں کو اکھیڑ دیا گیا اور ویرانہ (کھنڈرات) کو ہموار اور برابر کر دیا گیا، اور کھجور کو مسجد کے سامنے کی جانب گاڑ دیا گیا اور دروازہ کے دونوں جانب پتھر لگائے گئے، اور صحابہ رجز پڑھ رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے سامنے تھے، وہ کہتے تھے، اے اللہ! بہتری اور بھلائی تو آخرت کی بھلائی اور بہتری ہی ہے تو انصار اور مہاجروں کی نصرت فرما۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 524

   صحيح البخاري2774أنس بن مالكببناء المسجد وقال يا بني النجار ثامنوني بحائطكم هذا قالوا لا والله لا نطلب ثمنه إلا إلى الله
   صحيح البخاري3932أنس بن مالكببناء المسجد فأرسل إلى ملإ بني النجار فجاءوا فقال يا بني النجار ثامنوني حائطكم هذا فقالوا لا والله لا نطلب ثمنه إلا إلى الله قال فكان فيه ما أقول لكم كانت فيه قبور المشركين وكانت فيه خرب وكان فيه نخل فأمر رسول الله بقبور المشركين فنبشت
   صحيح البخاري2771أنس بن مالكببناء المسجد فقال يا بني النجار ثامنوني بحائطكم هذا قالوا لا والله لا نطلب ثمنه إلا إلى الله
   صحيح مسلم1173أنس بن مالكيصلي حيث أدركته الصلاة ويصلي في مرابض الغنم أمر بالمسجد قال فأرسل إلى ملإ بني النجار فجاءوا فقال يا بني النجار ثامنوني بحائطكم هذا قالوا لا والله لا نطلب ثمنه إلا إلى الله قال أنس فكان فيه ما أقول كان فيه نخل وقبور المشركين وخرب فأمر رسول الل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1173  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
علو:
عین پرپیش اور زیر دونوں آ سکتے ہیں،
بلندی،
اونچائی،
بنو عمروبن عوف کے لوگ قبا میں رہتے تھے،
جو مدینہ کے بلند حصہ میں واقع ہے۔
ملاء:
سردارواشراف،
اس کا اطلاق جماعت پر بھی ہوتا ہے۔
بنو نجار:
یہ خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا کا ننھیال تھا،
اس لیے آپﷺ ان کو اخوال (ماموں)
سمجھتے تھے۔
متقلدي سيوفهم:
اپنی تلواروں کو حمائل کیے ہوئے تاکہ یہود کو پتہ چل سکے کہ وہ آپﷺ کی حفاظت میں ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
فناء:
گھر کے سامنے کا میدان یا کھلی جگہ۔
مرابض:
مربض کی جمع ہے،
باڑہ،
جہاں بکریاں بیٹھ کر رات گزارتی ہیں،
امر:
معروف اور مجہول دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے۔
(2)
ثامنو ني:
میرے ساتھ ثمن (قیمت)
طے کر لو،
آپﷺ نے یہ قطعہ دس دینار میں خریدا تھا،
کیونکہ یتیم بچوں کا تھا اور قیمت ابوبکر رضی اللہ عنہ نےادا کی تھی اور بقول بعض ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے۔
(3)
خَرِبٌ يا خِرَبٌ:
ویرانہ،
کھنڈرات۔
(4)
نُبِشَت:
ان کو اکھاڑ دیا گیا۔
(5)
عَضَادتيه:
عَضَادة دروازوں کے پٹ یا ایک جانب کو کہتے ہیں،
يَرْتَجِزُوْنَ:
وہ رجز پڑھتے تھے۔
رجز یہ شعر کی ایک قسم ہے جس کا ہر فقرہ الگ ہوتا ہے،
یہ کلام موزوں ہوتا ہے یا شعر کے وزن پر ہوتا ہے۔
لیکن کہنے والے کی نیت شعر کی نہیں ہوتی،
اور انسان کے منہ سے کبھی کبھار،
کلام موزوں صادر ہو جائے تو وہ شعر نہیں ہو گا اور نہ اس کو شاعر کہا جائے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1173   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.