الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
17. باب بَيَانِ وُجُوهِ الإِحْرَامِ وَأَنَّهُ يَجُوزُ إِفْرَادُ الْحَجِّ وَالتَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ وَجَوَازِ إِدْخَالِ الْحَجِّ عَلَى الْعُمْرَةِ وَمَتَى يَحِلُّ الْقَارِنُ مِنْ نُسُكِهِ:
17. باب: احرام کی اقسام کابیان، اور حج افراد، تمتع، اور قران تینوں جائز ہیں، اور حج کا عمرہ پر داخل کرنا جائز ہے، اور حج قارن والا اپنے حج سے کب حلال ہو جائے؟
حدیث نمبر: 2919
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني سليمان بن عبيد الله ابو ايوب الغيلاني ، حدثنا ابو عامر عبد الملك بن عمرو ، حدثنا عبد العزيز بن ابي سلمة الماجشون ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن ابيه ، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نذكر إلا الحج حتى جئنا سرف، فطمثت فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابكي، فقال: " ما يبكيك "، فقلت: والله لوددت اني لم اكن خرجت العام، قال: " ما لك لعلك نفست "، قلت: نعم، قال: " هذا شيء كتبه الله على بنات آدم، افعلي ما يفعل الحاج، غير ان لا تطوفي بالبيت حتى تطهري "، قالت: فلما قدمت مكة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لاصحابه: " اجعلوها عمرة "، فاحل الناس إلا من كان معه الهدي، قالت: فكان الهدي مع النبي صلى الله عليه وسلم وابي بكر، وعمر وذوي اليسارة، ثم اهلوا حين راحوا، قالت: فلما كان يوم النحر طهرت، فامرني رسول الله صلى الله عليه وسلم فافضت، قالت: فاتينا بلحم بقر، فقلت: ما هذا؟، فقالوا: اهدى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نسائه البقر، فلما كانت ليلة الحصبة، قلت: يا رسول الله يرجع الناس بحجة وعمرة وارجع بحجة، قالت: " فامر عبد الرحمن بن ابي بكر، فاردفني على جمله "، قالت: فإني لاذكر وانا جارية حديثة السن، انعس فيصيب وجهي مؤخرة الرحل، حتى جئنا إلى التنعيم فاهللت منها بعمرة جزاء بعمرة الناس التي اعتمروا،حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ أَبُو أَيُّوبَ الْغَيْلَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَذْكُرُ إِلَّا الْحَجَّ حَتَّى جِئْنَا سَرِفَ، فَطَمِثْتُ فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: " مَا يُبْكِيكِ "، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ خَرَجْتُ الْعَامَ، قَالَ: " مَا لَكِ لَعَلَّكِ نَفِسْتِ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " هَذَا شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، افْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي "، قَالَتْ: فَلَمَّا قَدِمْتُ مَكَّةَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: " اجْعَلُوهَا عُمْرَةً "، فَأَحَلَّ النَّاسُ إِلَّا مَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ، قَالَتْ: فَكَانَ الْهَدْيُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ وَذَوِي الْيَسَارَةِ، ثُمَّ أَهَلُّوا حِينَ رَاحُوا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ طَهَرْتُ، فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَضْتُ، قَالَتْ: فَأُتِيَنَا بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟، فَقَالُوا: أَهْدَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ الْبَقَرَ، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَرْجِعُ النَّاسُ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ وَأَرْجِعُ بِحَجَّةٍ، قَالَتْ: " فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَرْدَفَنِي عَلَى جَمَلِهِ "، قَالَتْ: فَإِنِّي لَأَذْكُرُ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ، أَنْعَسُ فَيُصِيبُ وَجْهِي مُؤْخِرَةَ الرَّحْلِ، حَتَّى جِئْنَا إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهْلَلْتُ مِنْهَا بِعُمْرَةٍ جَزَاءً بِعُمْرَةِ النَّاسِ الَّتِي اعْتَمَرُوا،
عبد الرحمٰن ابن سلمہ ماجثون نے عبد الرحمٰن بن قاسم سے انھوں نے اپنے والد (قاسم) سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی۔ (انھوں نے) کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور حج ہی کا ذکر کر رہے تھے۔جب ہم سرف کے مقام پر پہنچے تو میرے ایام شروع ہو گئے۔ (اس اثنا میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے (حجرے میں) داخل ہو ئے تو میں رو رہی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پو چھا: تمھیں کیا رلا رہا ہے؟میں نے جواب دیا اللہ کی قسم! کاش میں اس سال حج کے لیے نہ نکلتی۔آپ نے پو چھا: تمھا رے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ کہیں تمھیں ایام تو شروع نہیں ہو گئے؟ میں نے کہا: جی ہاں آپ نے فرمایا: "یہ چیز تو اللہ نے آدم ؑ کی بیٹیوں کے لیے مقدر کر دی ہے۔تم تمام کا م ویسے کرتی جاؤ جیسے (تمام) حا جی کریں مگر جب تک پاک نہ ہو جاؤ بیت اللہ کا طواف نہ کرو۔انھوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب میں مکہ پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا: " تم اسے (حج کی نیت کو بدل کر) عمرہ کر لو۔جن کے پاس قربانیا ں تھیں ان کے علاوہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے (اسی کے مطا بق عمرے کا) تلبیہ پکارنا شروع کر دیا۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا اور قربانیاں (صرف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر و عمر اور (بعض) اصحاب ثروت رضوان اللہ عنھم اجمعین (ہی) کے پاس تھیں۔جب وہ چلے تو انھوں نے (حج) کا تلبیہ پکارا۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: جب قر بانی کا دن آیا تو میں پاک ہو گئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تو میں نے طواف (افاضہ) کر لیا۔ (انھوں نے) کہا: ہمارے پاس گا ئے کا گو شت لا یا گیا میں نے پو چھا: یہ کیا ہے؟ انھوں (لا نے والوں) نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گا ئے کی قر بانی دی ہے۔جب (مدینہ کے راستے منیٰ کے فوراً بعد کی منزل) محصب کی رات آئی تو میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول!! لو گ حج اور عمرہ (دونوں) کر کے لو ٹیں اور میں (اکیلا) حج کر کے لوٹوں؟ کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرے بھا ئی) عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا انھوں نے مجھے اپنے اونٹ پر ساتھ بٹھا یا۔انھوں نے) کہا: مجھے یا د پڑ تا ہے کہ میں (اس وقت نو عمر لرکی تھی (راستے میں) میں اونگھ رہی تھی اور میرا منہ (بار بار) کجا وے کی پچھلی لکڑی سے ٹکراتا تھا حتیٰ کہ ہم تنعیم پہنچ گئے۔پھر میں نے وہاں سے اس عمرے کے بدلے جو لوگوں نے کیا تھا (اور میں اس سے محروم رہ گئی تھی) عمرے کا (احرا م باند ھ کر) تلبیہ پکا را
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمیں صرف حج پیش نظر تھا، حتی کہ ہم مقام سرف پر پہنچے تو مجھے حیض شروع ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے جبکہ میں رو رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا، اللہ کی قسم! میری خواہش ہے کہ میں اس سال حج کے لیے نہ نکلتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھے کیا ہوا؟ شاید تمہیں حیض شروع ہو گیا ہے؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو ایسا معاملہ ہے جو اللہ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے لازم ٹھہرایا ہے، جو کام حاجی کرتے ہیں، تم بھی کرو، صرف اتنی بات ہے کہ جب تک پاک نہ ہو جاؤ، بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔ تو جب میں مکہ پہنچی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا: اپنے حج کو عمرہ بنا ڈالو۔ تو تمام لوگ ان کے سوا جن کے پاس ہدی تھی، حلال ہو گئے اور ہدی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور اصحاب ثروت رضی اللہ عنہم اجمعین کے پاس تھی، پھر جب وہ منیٰ کی طرف چلے تو انہوں نے احرام باندھ لیا تو جب قربانی کا دن آ گیا، میں پاک ہو گئی، (حیض آنا بند ہو گیا) مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ کا حکم دیا، پھر ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا، یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے ہدی میں گائے ذبح کی ہے، جب مَحصَب کی رات ہوئی، میں نے عرض کیا، لوگ الگ حج اور عمرہ کر کے لوٹیں گے اور میں صرف حج کر کے لوٹوں گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا، اس نے مجھے اپنے اونٹ پر پیچھے سوار کر لیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں نو عمر لڑکی تھی، مجھے اونگھ آ جاتی تو میرا چہرہ پالان کی پچھلی لکڑی سے ٹکراتا، حتی کہ ہم تنعیم پہنچ گئے، میں نے وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا جو لوگوں کے اس عمرہ کی جگہ تھا، جو انہوں نے کیا تھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1211

   صحيح البخاري1772عائشة بنت عبد اللهحاضت صفية بنت حيي فقال النبي حلقى عقرى ما أراها إلا حابستكم ثم قال كنت طفت يوم النحر قالت نعم قال فانفري قلت يا رسول الله إني لم أكن حللت قال فاعتمري من التنعيم فخرج معها أخوها فلقيناه مدلجا فقال موع
   صحيح مسلم3227عائشة بنت عبد اللهلحابستنا فقالوا يا رسول الله إنها قد زارت
   صحيح مسلم2919عائشة بنت عبد اللهافعلي ما يفعل الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت حتى تطهري
   صحيح البخاري305عائشة بنت عبد اللهذلك شيء كتبه الله على بنات آدم افعلي ما يفعل الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت حتى تطهري
   صحيح البخاري316عائشة بنت عبد اللهأمر عبد الرحمن ليلة الحصبة فأعمرني من التنعيم مكان عمرتي التي نسكت
   صحيح البخاري328عائشة بنت عبد اللهلعلها تحبسنا ألم تكن طافت معكن فقالوا بلى قال فاخرجي
   سنن ابن ماجه641عائشة بنت عبد اللهانقضي شعرك واغتسلي
   جامع الترمذي943عائشة بنت عبد اللهأحابستنا هي قالوا إنها قد أفاضت فقال رسول الله فلا إذا
   جامع الترمذي945عائشة بنت عبد اللهأقضي المناسك كلها إلا الطواف بالبيت
   صحيح مسلم3222عائشة بنت عبد اللهأحابستنا هي قالت فقلت يا رسول الله إنها قد كانت أفاضت وطافت بالبيت ثم حاضت بعد الإفاضة فقال رسول الله فلتنفر
   صحيح مسلم2929عائشة بنت عبد اللهمن لم يكن ساق الهدي أن يحل قالت فحل من لم يكن ساق الهدي ونساؤه لم يسقن الهدي اذهبي مع أخيك
   صحيح مسلم2927عائشة بنت عبد اللهانتظري فإذا طهرت فاخرجي إلى التنعيم فأهلي منه القينا عند كذا وكذا غدا على قدر نصبك أو قال نفقتك
   صحيح مسلم2918عائشة بنت عبد اللههذا شيء كتبه الله على بنات آدم اقضي ما يقضي الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت حتى تغتسلي
   صحيح مسلم3225عائشة بنت عبد اللهأحابستنا صفية قلنا قد أفاضت قال فلا إذن
   صحيح مسلم2908عائشة بنت عبد اللهأمر رسول الله أبا بكر يأمرها أن تغتسل وتهل
   صحيح مسلم3226عائشة بنت عبد اللهلعلها تحبسنا ألم تكن قد طافت معكن بالبيت قالوا بلى قال فاخرجن
   صحيح مسلم3228عائشة بنت عبد اللهلحابستنا ثم قال لها أكنت أفضت يوم النحر قالت نعم قال فانفري
   سنن أبي داود1743عائشة بنت عبد اللهتغتسل فتهل
   صحيح البخاري1518عائشة بنت عبد اللهأعمرها من التنعيم فأحقبها على ناقة فاعتمرت
   صحيح البخاري1561عائشة بنت عبد اللهمن لم يكن ساق الهدي أن يحل فحل من لم يكن ساق الهدي ونساؤه لم يسقن فأحللن اذهبي مع أخيك إلى التنعيم
   صحيح البخاري1650عائشة بنت عبد اللهافعلي كما يفعل الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت حتى تطهري
   صحيح البخاري1733عائشة بنت عبد اللهأفضنا يوم النحر فحاضت صفية فأراد النبي منها ما يريد الرجل من أهله فقلت يا رسول الله إنها حائض حابستنا هي قالوا يا رسول الله أفاضت يوم النحر قال اخرجوا
   سنن أبي داود2003عائشة بنت عبد اللهلعلها حابستنا قالوا يا رسول الله إنها قد أفاضت فقال فلا إذا
   صحيح البخاري1757عائشة بنت عبد اللهأحابستنا هي قالوا إنها قد أفاضت قال فلا إذا
   صحيح البخاري1772عائشة بنت عبد اللهحاضت صفية ليلة النفر فقالت ما أراني إلا حابستكم عقرى حلقى أطافت يوم النحر قيل نعم قال فانفري
   صحيح البخاري1787عائشة بنت عبد اللهإذا طهرت فاخرجي إلى التنعيم فأهلي ثم ائتينا بمكان كذا ولكنها على قدر نفقتك أو نصبك
   سنن ابن ماجه2911عائشة بنت عبد اللهأن تغتسل وتهل
   سنن ابن ماجه2963عائشة بنت عبد اللهضحى رسول الله عن نسائه بالبقر
   صحيح البخاري2984عائشة بنت عبد اللهأمر عبد الرحمن أن يعمرها من التنعيم فانتظرها رسول الله بأعلى مكة حتى جاءت
   سنن ابن ماجه2999عائشة بنت عبد اللهيردف عائشة فيعمرها من التنعيم
   سنن ابن ماجه3000عائشة بنت عبد اللهدعي عمرتك وانقضي رأسك وامتشطي وأهلي بالحج قالت ففعلت فلما كانت ليلة الحصبة وقد قضى الله حجنا أرسل معي عبد الرحمن بن أبي بكر فأردفني وخرج إلى التنعيم فأحللت بعمرة فقضى الله حجنا وعمرتنا ولم يكن في ذلك هدي ولا صدقة ولا صوم
   سنن ابن ماجه3072عائشة بنت عبد اللهأحابستنا هي فقلت إنها قد أفاضت ثم حاضت بعد ذلك قال رسول الله فلتنفر
   سنن ابن ماجه3073عائشة بنت عبد اللهإلا حابستنا فقلت يا رسول الله
   صحيح البخاري4401عائشة بنت عبد اللهأحابستنا هي فقلت إنها قد أفاضت يا رسول الله وطافت بالبيت فقال النبي فلتنفر
   صحيح البخاري5329عائشة بنت عبد اللهإنك لحابستنا أكنت أفضت يوم النحر قالت نعم قال فانفري إذا
   صحيح البخاري5548عائشة بنت عبد اللههذا أمر كتبه الله على بنات آدم اقضي ما يقضي الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت فلما كنا بمنى أتيت بلحم بقر ضحى رسول الله عن أزواجه بالبقر
   صحيح البخاري5559عائشة بنت عبد اللههذا أمر كتبه الله على بنات آدم اقضي ما يقضي الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت ضحى رسول الله عن نسائه بالبقر
   صحيح البخاري6157عائشة بنت عبد اللهعقرى حلقى لغة لقريش إنك لحابستنا ثم قال أكنت أفضت يوم النحر يعني الطواف قالت نعم قال فانفري إذا
   سنن النسائى الصغرى349عائشة بنت عبد اللههذا أمر كتبه الله على بنات آدم اقضي ما يقضي الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت
   سنن النسائى الصغرى243عائشة بنت عبد اللهأرسلني مع عبد الرحمن بن أبي بكر إلى التنعيم فاعتمرت فقال هذه مكان عمرتك
   سنن النسائى الصغرى291عائشة بنت عبد اللههذا أمر كتبه الله على بنات آدم اقضي ما يقضي الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت ضحى رسول الله عن نسائه بالبقر
   سنن النسائى الصغرى2805عائشة بنت عبد اللهاذهبي مع أخيك إلى التنعيم فأهلي بعمرة ثم موعدك مكان كذا وكذا
   سنن النسائى الصغرى391عائشة بنت عبد اللهلعلها تحبسنا ألم تكن طافت معكن بالبيت قالت بلى قال فاخرجن
   سنن النسائى الصغرى2742عائشة بنت عبد اللههذا شيء كتبه الله على بنات آدم
   بلوغ المرام126عائشة بنت عبد اللهافعلي ما يفعل الحاج غير ان لا تطوفي بالبيت حتى تطهري
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم303عائشة بنت عبد اللهلعلها تحبسنا، الم تكن قد طافت معكن بالبيت
   مسندالحميدي203عائشة بنت عبد اللهأحابستنا هي
   مسندالحميدي204عائشة بنت عبد اللهفلا إذا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 126  
´حائضہ عورت بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتی`
«. . . وعن عائشة رضي الله تعالى عنها قالت: لما جئنا سرف حضت فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏افعلي ما يفعل الحاج غير ان لا تطوفي بالبيت حتى تطهري . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ہم مقام سرف میں آئے تو مجھے ایام ماہواری شروع ہو گئے (میرے بتانے پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مناسک حج تم بھی اسی طرح ادا کرو جس طرح دوسرے حاجی کرتے ہیں البتہ طواف بیت اللہ ایام سے فارغ ہو کر نہا دھو کر کرنا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 126]

لغوی تشریح:
«لَمَّا جِئْنَا» جب ہم آئے۔ یہ دراصل حجۃ الوداع کے سفر کا واقعہ ہے۔ اس وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حالت احرام میں تھیں۔
«سَرِف» سین پر فتحہ اور را کے نیچے کسرہ ہے۔ اور یہ دو اسباب کی وجہ سے غیر منصرف ہے: ایک علمیت، یعنی جگہ کا نام اور دوسرا تانیث۔ مکہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ تقریباً دس میل کے فاصلے پر۔
«حِضْتُ» واحد متکلم کا صیغہ ہے۔ مجھے ایام ماہواری شروع ہو گئے۔

فائدہ:
اس حدیث کی رو سے حائضہ عورت بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتی، اس لیے کہ اکثر علماء کے نزدیک طواف کے لیے پاکیزگی شرط ہے۔ حالت حیض میں عورت چونکہ ناپاک ہو جاتی ہے اور ناپاک عورت کا مسجد میں زیادہ دیر ٹھہرنا بھی جائز نہیں، خانہ کعبہ تو افضل المساجد ہے، اس لیے طواف بدرجہ اولیٰ نہیں کر سکتی بلکہ ایسی حالت میں تو وہ نماز بھی نہیں پڑھ سکتی۔ علاوہ ازیں اب مسعٰی (سعی کرنے کی جگہ) بھی مسجد میں شامل ہو گئی ہے، اس لیے اب سعی بھی نہیں کر سکتی۔ اسی لیے مصنف (بلوغ المرام) نے اس حدیث کو اس بلوغ المرام کے باب «باب الحيض» میں ذکر کیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 126   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 330  
´عورت حیض آنے کی صورت میں طواف نہیں کرے گی`
«. . . 315- وعن أبيه عن عمرة بنت عبد الرحمن عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أنها قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إن صفية بنت حيي قد حاضت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لعلها تحبسنا، ألم تكن قد طافت معكن بالبيت؟ قلن: بلى، قال: فاخرجن. . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: صفیہ بنت حیی (رضی اللہ عنہا) کو حیض آ گیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غالباً وہ ہمیں (حج کے بعد سفر سے) روکنا چاہتی ہے، کیا اس نے تمہارے ساتھ بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے کہا: کیوں نہیں! وہ طواف کر چکی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر (سفر کے لیے) نکلو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 330]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 328، ومسلم 385/1211 بعد ح1328، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ عورت حائضہ ہونے کی حالت میں بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گی۔
➋ اگر عورت طوافِ زیارت (طوافِ افاضہ) کرلے اور بعد میں اسے حیض کی بیماری لاحق ہوجائے تو اس کے لئے طوافِ وداع ضروری نہیں ہے جبکہ دوسرے لوگوں پر طوافِ وداع ضروری ہے۔
➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جب حج ادا کرتیں اور ان کے ساتھ عورتیں ہوتیں تو آپ انھیں ان کے حیض کے خوف سے قربانی والے دن ہی طواف الافاضہ کے لئے (بیت اللہ) بھیج دیتیں۔ پھر جب وہ عورتیں طوافِ افاضہ کرلیتیں اور انھیں حیض آجاتا تو ان کے پاک ہونے کا انتظار نہ کرتیں بلکہ روانہ ہوجاتی تھیں۔ [الموطأ 1/413 ح956 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 315   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 331  
´عورت حیض آنے کی صورت میں طواف نہیں کرے گی`
«. . . 387- وبه: أنها قالت: قدمت مكة وأنا حائض ولم أطف بالبيت ولا بين الصفا والمروة، فشكوت ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: افعلي ما يفعل الحاج، غير أنك لا تطوفي بالبيت حتى تطهري. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ جب میں مکہ آئی تو میں حیض سے تھی۔ میں نے نہ بیت اللہ کا طواف کیا اور نہ صفا و مروہ کی سعی کی، پھر میں نے اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حاجی جو اعمال کرتا ہے وہ کرو سوائے اس کے کہ پاک ہونے سے پہلے بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 331]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1650، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ حالت حیض میں بیت اللہ کا طواف (اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا) جائز نہیں ہے۔
➋ اختلافی مسائل میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔
➌ یحییٰ بن یحییٰ کی روایت میں آیا ہے کہ اور صفا ومروہ کے درمیان سعی نہ کرنا، اسے حافظ ابن عبدالبر نے وہم قرار دیا ہے۔ دیکھئے [التمهيد 19/261]
➍ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حائضہ عورت اگر چاہے تو حج اور عمرے کی لبیک کہے لیکن وہ بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گی اور نہ صفا ومروہ کے درمیان سعی کرے گی۔ وہ حج کے تمام ارکان لوگوں کے ساتھ ادا کرے گی سوائے اس کے کہ وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی نہیں کرے گی اور پاک ہونے تک مسجد کے قریب نہیں جائے گی۔ [الموطأ 1/342 ح772 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 387   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 332  
´جو عورت طواف افاضہ کر چکی ہو اور حیض سے دوچار ہو جائے`
«. . . 388- وبه: عن عائشة أن صفية بنت حيي زوج النبى صلى الله عليه وسلم حاضت، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أحابستنا هي؟ فقيل: إنها قد أفاضت، قال: فلا إذا. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو (حج کے بعد) حیض کی بیماری لاحق ہوئی تو انہوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ ہمیں روکنا چاہتی ہے؟ پھر کہا گیا کہ انہوں نے طواف اضافہ کر لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر کوئی بات نہیں (چلو)۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 332]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1757، من حديث مالك به * وفي رواية يحييٰ بن يحييٰ: فَذَكَرْتُ]

تفقه:
➊ اگر عورت طواف افاضہ (طواف زیارت) کرلینے کے بعد حیض سے بیمار ہو جائے تو اس پر طواف وداع کے لئے رکنا ضروری نہیں ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 388   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 309  
´اگر حج پر جانے والی عورت کے ہاں بچے کی پیدائش ہو جائے تو . . .`
«. . . 389- وبه: عن أبيه عن أسماء بنت عميس أنها ولدت محمد بن أبى بكر بالبيداء، فذكر ذلك أبو بكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: مرها فلتغتسل ثم لتهل. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بیداء کے مقام پر ان کا بیٹا محمد بن ابی بکر پیدا ہوا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے حکم دو کہ نہا لے پھر لبیک شروع کر دے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 309]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه النسائي 127/5 ح 2664 من حديث عبد الرحمن بن القاسم عن مالك به ورواه مسلم 1209/109، من حديث عبدالرحمن بن القاسم عن أبيه عن عائشه به]

تفقه:
➊ حج پر جانے والی جس عورت کے ہاں بچے کی پیدائش ہو تو اسے چاہئے کہ نہا کر سفر شروع کر دے اور چالیس دنوں کا انتظار نہ کرے
➋ اس حدیث سے اشارہ ملتا ہے کہ، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ صحابی تھے۔
➌ احرام سے پہلے نہانا سنت ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 389   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 305  
´حائضہ بیت اللہ کے طواف کے علاوہ حج کے باقی ارکان پورا کرے گی`
«. . . قَالَ: لَعَلَّكِ نُفِسْتِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" فَإِنَّ ذَلِكِ شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید تمہیں حیض آ گیا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ چیز تو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقرر کر دی ہے۔ اس لیے تم جب تک پاک نہ ہو جاؤ طواف بیت اللہ کے علاوہ حاجیوں کی طرح تمام کام انجام دو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 305]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب دلالت کرتا ہے کہ حائضہ عورت حالت حج میں تمام ارکان کو پورا کرے سوائے نماز اور طواف کے، امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ مراد بھی سمجھ میں آتی ہے کہ حائضہ قرآن کی تلاوت کر سکتی ہے، حدیث میں امام بخاری رحمہ اللہ نے دلیل کے طور پر ہرقل کی دلیل پیش کی جس میں آپ علیہ السلام نے قرآن مجید کی آیت لکھ کر ان کو بھیجی لازماً ہرقل کے بادشاہ نے اسے پڑھا اور وہ کفر کی حالت اور ناپاکی کی حالت میں تھا اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کیا کہ کفر اور شرک کی نجاست کے باوجود اسے قرآن کی آیت لکھ کر بھیجیں اس کے برعکس مومنہ حالت حیض میں اگرچہ ظاہری ناپاکی میں ہے مگر کفر اور شرک کی ناپاکی سے بطریق اولیٰ کم ہے کیوں کہ وہاں ناپاکی ایمان نہ ہونے کہ وجہ سے ہے اور یہ ناپاکی عورت کی جسمانی ناپاکی ہو گی تو لہٰذا اس حالت میں بطریق اولیٰ قرآن پڑھنا درست ہو گا۔
◈ علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ نے اس حدیث سے جنبی کی تلاوت کا بھی استدلال کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ حیض حدث اکبر ہے جنابت سے، لہٰذا جب حیض کی حالت میں قرآن پڑھنا درست ٹھہرا تو کیوں کر حالت جنابت جو کہ حدث اصغر ہے اس میں قرآن پڑھنا درست نہ ٹھہرا؟ ديكهئے: [المتواريص 83]
ان تمام احادیث اور آثار کو جو امام بخاری رحمہ اللہ نے پیش فرمایا ہے یہی مقصود ہے کہ جنبی اور حالت حیض والی عورت قرآن مجید پڑھ سکتی ہے ان کو پڑھنے میں کوئی چیز مانع نہیں رکھتی کیوں کہ ہرقل بادشاہ کافر و مشرک تھا اور وہ جنبی کے حکم میں ہے جب اس کو قرآن لکھ کر بھیجا گیا اور اس کا قرآن پڑھنا درست ٹھرا تو حائضہ اور جنبی کا بھی قرآن پڑھنا درست ٹھرا۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قيل مقصود البخاري ذكر فى هذا الباب من الاحاديث والاثار ان الحيض وما فى معناه من الجنابة لا ينافي جميع العبادات» [فتح الباري ج1، ص537]
مقصود امام بخاری رحمہ اللہ کا ان تمام احادیث اور آثار سے یہ ہے کہ عورت کا حالت حیض میں اور جنبی کو حالت جنابت میں قرآن اور ذکر کرنا سب جائز ہے۔
لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا باب قائم فرمانا کہ حائضہ تمام کام کرے حج میں سوائے طواف کے اور احادیث پیش کرنا کہ ہرقل نے قرآن کی آیت پڑھی مناسبت ہم نے بیان کیا کہ ہرقل جنابت کے حکم میں ہے جب وہ تلاوت کر سکتا ہے تو حائضہ کیوں کر نہیں۔
◈ علامہ کرمانی نے ایک اور بھی تطبیق پیش کی ہے کہ عورت کا حیض ہر ماہ آنا ہے اگر وہ قرآن نہ پڑھے گی تو بھول جائے گی۔ تفصيل كے لئے ديكهئے: [الكواكب الدراري شرح صحيح الباري ج2، ص167]
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ حائضہ اور جنبی کے لئے قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت ہے۔ جیسا کہ:
◈ شیخ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اعلم ان البخاري عقد باباً فى صحيحه يدل على انه قائل بجواز قراءة القرآن للجنب والحائضة» [تحفةالاحوذي، ج1، ص124]
جان لو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں جو باب قائم فرمایا وہ اس مسئلہ پر دلالت ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ قائل ہیں جواز کے کہ جنبی اور حائضہ قرآن کریم کی قرأت کر سکتے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی نظر میں کوئی ایسی صحیح روایت نہیں جس میں جنبی اور حائضہ کو قرأت سے روکا گیا ہو۔ گو اس سلسلے میں متعدد روایات ہیں اور بعض کی کئی محدثین نے تصحیح بھی کی ہے۔ لیکن صحیح یہی ہے کہ کوئی صحیح روایت اس سلسلے میں نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی نظر میں کوئی روایت درجہ صحت تک نہیں پہنچتی۔ اس لئے انہوں نے جنبی اور حائضہ کے لئے قرأت قرآن کو جائز رکھا۔ ائمہ فقہاء میں سے امام مالک رحمہ اللہ سے دو روایات ہیں۔ جو حائضہ اور نفاس والی خواتین کو قرآن پڑھنے سے روکتی ہیں مگر وہ روایات پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتی پہلی روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: «عن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبى صلى الله عليه وسلم لا يقرأ الجنب ولا الحائض شيئا من القرآن» [رواه ابوداؤد، رقم 229، سنن الترمذي، رقم: 146]
اس کی سند میں اسماعیل بن عیاش ہے اور وہ ضعیف ہے خصوصاً جب کہ وہ حجازیوں سے روایت کرے اور یہ روایت ان میں سے ہے۔ ديكهئے: [نيل الاوطار، شرح منتقي الاخبار، ج1، ص 293]
دوسری روایت ہے: «لا تقرا الحائض ولا نفساء من القرآن شيئاً» [رواه الدارقطني فى سنة: ج1ص121]
یعنی حائضہ اور نفاس والی قرآن سے کچھ نہ پڑھے اس کی سند میں محمد بن الفضیل ہے جو کہ متروک ہے اور اس کی طرف وضع کرنے کا حکم ہے۔
◈ امام بیہقی فرماتے ہیں:
«هَذَا الْاَثَرُ لَيْسَ بِقوِي» لہٰذا حائضہ اور نفساء کے قرآن نہ پڑھنے کے بارے میں کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔ اسی لیے امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«والحديث هذا والذي بعده لا يصلحان للاحتجاج بهما على ذالك»
ابن عمر اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کے روایات صحت کے اعتبار سے اس لائق نہیں کہ ان سے احتجاج اخذ کیا جائے۔ لہٰذا حائضہ اور نفساء اگر لمبے عرصے تک قرآن نہیں پڑھیں گی تو وہ بھول جائیں گے۔ ممکن ہے کہ یہ سبب بھی ہو کہ ان کی ممانعت کے لیے کوئی صحیح حکم کسی حدیث سے ثابت نہیں اور جہاں تک تعلق ہے جنبی کا تو اس وقت انتہائی مختصر ہے جیسے ہی اس نے غسل کیا وہ پاک ہو گیا جنبی کے بارے میں قرآن کی تلاوت نہ کرنے کی حدیث مسند ابی یعلی الموصلی میں موجود ہے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جنبی قرآن نہ پڑھے۔ ديكهئے: [مسند ابي يعلي ج1، ص188۔ رجاله موثقون]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 146   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5329  
´اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ عورتوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحموں میں جو پیدا کر رکھا ہے اسے وہ چھپا رکھیں کہ حیض آتا ہے یا حمل ہے۔`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَمَّا أَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْفِرَ، إِذَا صَفِيَّةُ عَلَى بَابِ خِبَائِهَا كَئِيبَةً، فَقَالَ لَهَا:" عَقْرَى أَوْ حَلْقَى إِنَّكِ لَحَابِسَتُنَا، أَكُنْتِ أَفَضْتِ يَوْمَ النَّحْرِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَانْفِرِي إِذًا . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع میں) کوچ کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ صفیہ رضی اللہ عنہا اپنے خیمہ کے دروازے پر غمگین کھڑی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ «عقرى» یا (فرمایا راوی کو شک تھا) «حلقى» معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمیں روک دو گی، کیا تم نے قربانی کے دن طواف کر لیا ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر چلو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ: 5329]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5329 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَلاَ يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ} مِنَ الْحَيْضِ وَالْحَبَلِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
بظاہر ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت معلوم نہیں ہوتی کیوں کہ باب میں اللہ تعالیٰ کا فرمان نقل کیا گیا ہے کہ عورتوں کے لئے جائز نہیں کہ اللہ نے جو ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے وہ اسے چھپائیں جبکہ تحت الباب رحم کے مطابق کوئی الفاظ حدیث میں موجود نہیں ہیں۔

دراصل امام بخاری رحمہ اللہ تحت الباب جو حدیث پیش کی ہے اس پر غور کرنے سے مناسبت کا پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کا قول ان کے حائضہ ہونے کے بارے میں قبول فرمایا تو اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ خاوند کے مقابلے میں بھی رجعت، سقوط عدت اور حمل وغیرہ کے مسائل میں عورت کی بات کو قبول کیا جائے گا،

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«والمقصود من الاية أن أمر العدة لما دار على الحيض والطهر، والاطلاع على ذلك يقع من جهة النساء غالباً، جعلت المرأة مؤتمنة على ذالك، قال اسماعيل القاضي دلت الاية أن المرأة المعتدة مؤتمنة على رحمها من الحمل والحيض الا ان تاتي من ذالك لما يعرف كذبها فيه، وقد أخرج الحاكم فى المستدرك من حديث ابي بن كعب أن من الامانة ان ائتمنت المراة على فرجها .» [فتح الباري لابن حجر: 412/9]
آیت مبارکہ سے مقصود یہ ہے کہ عد ت کا معاملہ جب حیض اور طہر پر مبنی ہے اور اس کی اطلاع عورتوں کی جانب سے ہی میسر آتی ہے تو عورت کو (اس خبر پر) امین بنایا گیا ہے، اسماعیل قاضی کا کہنا ہے کہ آیت اسی امر پر دلالت کرتی ہے کہ عدت والی خاتون حمل اور حیض کے ضمن میں امین ہے۔، (یعنی اس کی بات کو قبول کیا جا ئے گا) سوائے اس کے کہ وہ صریحاً جھوٹ کا ارتکاب کرے جو واضح ہو جائے، امام حاکم رحمہ اللہ کی المستدرک میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ امانت میں سے (یہ بھی) ہے کہ عورت اپنی شرم گاہ کے بارے میں امین ہو۔

علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لما رتب النبى صلى الله عليه وسلم على مجرد قول صفية انها حائض تاخيره السفر أخذ منه تعدي الحكم الي الزوج، فتصدق المرأة فى الحيض والحمل باعتبار رجعة الزوج وسقوطها والحاق الحمل به .» [فتح الباري لابن حجر: 412/10]
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجرد سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے کہنے پر کہ وہ حیض سے ہیں تاخیر سفر کا ارادہ فرما لیا تو اس سے تعدی الحکم الی الزوج بھی ماخوذ ہو گا تو حیض ہو یا حمل اس میں شوہر کے رجوع کے اعتبار سے خاتون کے دعووں کی تصدیق کرنا ہو گی، بعین اسی طرح سے سقوط کا معاملہ ہو یا حمل کا اس کے ساتھ الحاق کا اس میں بھی اس کی بات کا اعتبار ہو گا۔

صحیح بخاری بحاشیۃ السھارنفوری میں لکھا ہے کہ:
«كئية اي خزينة وهذا موضع الترجمة اذا يفهم منه أظهرت حيضها .» [صحيح بخاري بحاشية السهارنفوري: 761/10]

بدر الدین بن جماعہ رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
عورت کے قول پر استنباط ہو گا حیض اور حمل کے مسائل پر، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجرد صفیہ رضی اللہ عنہا کے قول پر سفر میں تاخیر فرمائی تھی، پس یہ اس بات پر دلالت ہے کہ یقیناًً عورت کی بات عدت حیض اور حمل میں معتبر ہوگی۔

لہٰذا ان تمام تفصیلات سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں بنتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض کے بارے میں صفیہ رضی اللہ عنہا کی بات پر سفر میں تاخیر فرمائی، جب حیض کے میں عورت کا قول معتبر ٹھہرا تو یقیناًً حمل، اسقاط اور عدت کے بارے میں بھی اس کے قول کو معتبر ٹھہرایا جائے گا، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 118   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 305  
´حائضہ بیت اللہ کے طواف کے علاوہ حج کے باقی ارکان پورا کرے گی`
«. . . قَالَ: لَعَلَّكِ نُفِسْتِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" فَإِنَّ ذَلِكِ شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید تمہیں حیض آ گیا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ چیز تو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقرر کر دی ہے۔ اس لیے تم جب تک پاک نہ ہو جاؤ طواف بیت اللہ کے علاوہ حاجیوں کی طرح تمام کام انجام دو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 305]

تشریح:
سید المحدثین حضرت امام بخاری رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ حائضہ اور جنبی کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت ہے۔ جیسا کہ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اعلم ان البخاري عقد بابا فى صحيحه يدل على انه قائل بجواز قراءة القرآن للجنب والحائض .» [تحفة الاحوذي، جلد1، ص: 124]
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ہے جس میں جنبی اور حائضہ کو قرات سے روکا گیا ہو گو اس سلسلے میں متعدد روایات ہیں اور بعض کی متعدد محدثین نے تصحیح کی ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ کوئی صحیح روایت اس سلسلہ میں نہیں ہے جیسا کہ صاحب ایضاح البخاری نے جزء11، ص: 94 پر تحریر فرمایا ہے۔ درجہ حسن تک کی روایات تو موجود ہیں، البتہ ان تمام روایات کا قدر مشترک یہی ہے کہ جنبی کو قرات قرآن کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ امام بخاری رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی روایت درجہ صحت تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے جنبی اور حائضہ کے لیے قرات قرآن کو جائز رکھا ہے۔ ائمہ فقہاء میں سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے دو روایتیں ہیں۔ ایک میں جنبی اور حائضہ ہر دو کو قرات کی اجازت ہے اور طبری، ابن منذر اور بعض حضرات سے بھی یہ اجازت منقول ہے۔

مولانا مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں:
«تمسك البخاري ومن قال بالجواز غيره كالطبري و ابن المنذر وداود بعموم حديث كان يذكر الله على كل احيانه لان الذكر اعم ان يكون بالقرآن اوبغيره الخ» [تحفة الاحوذي، ج1، ص: 124]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے علاوہ دیگر مجوزین نے حدیث «يذكرالله على كل احيانه» (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں اللہ کا ذکر فرماتے تھے) سے استدلال کیا ہے۔ اس لیے کہ ذکر میں تلاوت قرآن بھی داخل ہے۔ مگر جمہور کا مذہب مختار یہی ہے کہ جنبی اور حائضہ کو قرات قرآن جائز نہیں۔ تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی کا مقام مذکورہ مطالعہ کیا جائے۔

صاحب ایضاح البخاری فرماتے ہیں کہ درحقیقت ان اختلافات کا بنیادی منشاء اسلام کا وہ توسع ہے جس کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں بھی فرمایا تھا اور ایسے ہی اختلافات کے متعلق آپ نے خوش ہو کر پیشین گوئی کی تھی کہ میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہو گا۔ [ايضاح البخاري، ج2، ص: 32]
(امت کا اختلاف باعث رحمت ہونے کی حدیث صحیح نہیں)۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 305   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 391  
´طواف افاضہ کے بعد عورت کے حائضہ ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو حیض آ گیا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید وہ ہمیں روک لے گی، کیا اس نے تم لوگوں کے ساتھ طواف (افاضہ) نہیں کیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں (ضرور کیا تھا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر تو نکلو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 391]
391۔ اردو حاشیہ:
➊ طواف افاضہ سے مراد دس ذوالحجہ کا طواف ہے جو حاجی پر فرض ہے۔ افاضہ کے معنی واپسی کے ہیں۔ چونکہ یہ عرفات سے واپسی کے بعد ہوتا ہے، اس لیے اسے طواف افاضہ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو طواف زیارت اور طواف فرض بھی کہا جاتا ہے۔
➋ حج کی ادائیگی کے بعد گھر کو واپسی سے قبل بھی طواف کرنا ضروری ہے، اسے طواف وداع کہا جاتا ہے، مگر جو عورت طواف افاضہ کر چکی ہو، اس کے بعد اس کو حیض شروع ہو جائے اور گھر واپسی کی تاریخ آ جائے تو وہ معذور ہے، بغیر طواف و داع کیے گھر واپس جا سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 391   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 243  
´حائضہ کو احرام کے غسل کے وقت چوٹی کھولنے کا حکم۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے سال نکلے تو میں نے عمرہ کا احرام باندھا، پھر میں مکہ پہنچی تو حائضہ ہو گئی، تو میں نہ خانہ کعبہ کا طواف کر سکی، نہ صفا و مروہ کے بیچ سعی، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا سر کھول لو، کنگھی کر لو، حج کا احرام باندھ لو، اور عمرہ چھوڑ دو، چنانچہ میں نے (ایسا ہی) کیا، تو جب ہم نے حج پورا کر لیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تنعیم بھیجا (وہاں سے میں عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ آئی اور) میں نے عمرہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تیرے اس عمرہ کی جگہ ہے (جو حیض کی وجہ سے تجھ سے چھوٹ گیا تھا)۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی رحمہ اللہ) کہتے ہیں: ہشام بن عروہ کے واسطے سے مالک کی یہ حدیث غریب ہے، مالک سے یہ حدیث صرف اشہب نے ہی روایت کی ہے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 243]
243۔ اردو حاشیہ:
➊ امام صاحب کا مقصود یہ ہے کہ اشہب نے (اس حدیث میں امام مالک کا استاذ ابن شہاب زہری کے ساتھ ہشام بن عروہ کو بھی بتلایا ہے جب کہ عام رواۃ اس روایت میں امام مالک کا استاذ صرف زہری ہی کو بتاتے ہیں۔ جب کسی راوی کی تائید کوئی اور ساتھی نہ کرے تو اس کی روایت کو غریب کہا جاتا ہے۔
➋ حیض کی حالت میں چونکہ بیت اللہ میں داخلہ منع ہے، لہٰذا حائضہ عورت کو طواف منع ہے اور سعی چونکہ طواف کے تابع ہے، اس لیے وہ بھی منع ہے۔
➌ تنعیم مکہ سے مدینہ منورہ کے راستے پر قریب ترین حل ہے، یعنی یہاں حرم ختم ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے یہ خصوصی حکم فرمایا کہ وہ تنعیمم سے احرام باندھ کر آجائیں اور عمرہ کر لیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حیض کی وجہ سے عمرہ رہ گیا تھا۔ یہ اجازت ہر شخص کے لیے نہیں ہے کہ وہ تنعیم سے احرام باندھ کر آ جائے اور عمرہ کر لے جیسا کہ آفاق سے جانے والے بہت سے حاجی ایسا کرتے ہیں اور بعض علماء اس کے جواز کا فتویٰ بھی دیتے ہیں۔ لیکن یہ جواز محل نظر ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ دوبارہ عمرے کے لیے میقات پر جا کر وہاں سے احرام باندھ کر آنا ضروری ہے۔ یا پھر مذکورہ حدیث کے پیش نظر تنعیم سے احرام باندھنے کی یہ اجازت صرف ان خواتین کے لیے ہے جو مخصوص ایام کی وجہ سے عمرہ نہ کرسکی ہوں۔ واللہ أعلم۔
➍ چونکہ حج کا احرام کئی دن جاری رہتا ہے، لہٰذا مینڈھیاں کھول کر اچھی طرح غسل کرنے کا حکم دیا تاکہ بعد میں تنگی نہ ہو۔ اس غسل کا حیض سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ صفائی کے لیے ہوتا ہے اور یہ ہر محرم کے لیے مستحب ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 243   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 291  
´محرم عورت جب حائضہ ہو جائے تو کیا کرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمیں صرف حج کرنا تھا، جب مقام سرف آیا تو میں حائضہ ہو گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے، اور اس وقت میں رو رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا بات ہے؟ حائضہ ہو گئی ہو؟ میں نے عرض کیا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایسی چیز ہے جسے اللہ عزوجل نے آدم زادیوں کے لیے مقدر کر دیا ہے، تو وہ سارے کام کرو جو حاجی کرتا ہے سوائے اس کے کہ خانہ کعبہ کا طواف نہ کرنا، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 291]
291۔ اردو حاشیہ:
➊ چونکہ حیض کی حالت میں، عورت کے لیے مسجد میں ٹھہرنا منع ہے اور طواف مسجد میں ہوتا ہے، لہٰذا طواف سے روکا گیا ہے۔ سعی بھی طواف کے تابع ہے، وہ بھی منع ہے۔
➋ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی عورتوں کی طرف سے گائے ذبح کرنا نفل ہو گا کیونکہ حج افراد کرنے والے پر قربانی فرض نہیں۔ ممکن ہے، بعض نے حج کے ساتھ عمرہ بھی کیا ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 291   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 349  
´حیض کی شروعات کا بیان اور کیا حیض کو نفاس کہہ سکتے ہیں؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمارا مقصد صرف حج کرنا تھا، جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو میں حائضہ ہو گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میں رو رہی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا بات ہے؟ کیا تم حائضہ ہو گئی ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایک ایسا معاملہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم زادیوں پر مقدر کر دیا ہے ۱؎، اب تم وہ سارے کام کرو، جو حاجی کرتا ہے، البتہ خانہ کعبہ کا طواف نہ کرنا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 349]
349۔ اردو حاشیہ:
بَنَاتِ آدَمَ سے استدلال ہے کہ حیض شروع ہی سے عورتوں پر مقرر ہے جب کہ حضرت ابن معسود رضی اللہ عنہ سے موقوفاً (ان کا قول) منقول ہے کہ حیض بنی اسرائیل کی عورتوں پر مسلط کیا گیا تھا۔ دیکھیے: [فتح الباري: 519/1]
ان کے مابین تطبیق یوں ممکن ہے کہ ابتدا تو حضرت حوا علیہاالسلام ہی سے ہوئی مگر بنی اسرائیل کے دور میں کچھ اضافہ کر دیا گیا اور یہ کوئی بعید نہیں۔ واللہ أعلم۔
«أَنَفِسْتِ» اس جملے میں نفاس سے حیض مراد ہے۔ تشبیہا نفاس کہا گیا۔ باب کا دوسرا جزو یہاں سے ثابت ہوا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 349   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث641  
´حائضہ عورت غسل کیسے کرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب وہ حالت حیض میں تھیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اپنے بال کھول لو، اور غسل کرو ۱؎، علی بن محمد نے اپنی حدیث میں کہا: اپنا سر کھول لو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 641]
اردو حاشہ:
(1)
سر کھولنے سے مراد یہ ہے کہ گوندھے ہوئے بال کھول کر سر دھویا جائے۔
یہ حکم غسل جنابت میں نہیں ہے۔ (دیکھیے حدیث: 604، 603)

(2)
بعض حضرات صحیح مسلم میں وارد الفاظٰ (فَأَنْقُضُهُ لِلْحَيْضَةِ وَالْجَنَابَةِ؟ فَقَالَ لَا) (صحيح مسلم، الحيض، باب حكم ضفائر المغتسلة، حديث: 330)
سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورت کے لیے غسل حیض میں بالوں کا کھولنا ضروری نہیں ہے لیکن صاحب عون اور شیخ البانی ؒ نے صراحت کی ہے کہ صحیح مسلم کے ایک طریق میں (الحیضة)
کا جو اضافہ ہے وہ شاذ ہے اصل روایت (الحیضة)
 کے بغیر ہی محفوظ ہے۔ دیکھیے: (عون المعبود، الطھارة، باب المرأۃ ھل تنقص شعرھا عند الغسل، والصحیحة للألبانی، حدیث: 188)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 641   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 945  
´حائضہ عورت حج کے کون کون سے مناسک ادا کرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ مجھے حیض آ گیا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے طواف کے علاوہ سبھی مناسک ادا کرنے کا حکم دیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 945]
اردو حاشہ: 1؎:
بخاری ومسلم کی روایت میں ہے' أهلي بالحج واصنعي ما يصنع الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت' یعنی حج کا تلبیہ پکارو اوروہ سارے کام کرو جو حاجی کرتا ہے سوائے خانہ کعبہ کے طواف کے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 945   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1743  
´حائضہ عورت حج کا تلبیہ پکارے اور احرام باندھ لے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا (ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی) کو مقام شجرہ میں محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی (ولادت کی) وجہ سے نفاس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ (اسماء سے کہو کہ) وہ غسل کر لے پھر تلبیہ پکارے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1743]
1743. اردو حاشیہ: مقام شجرہ سےمراد ذوالحلیفہ یا البیداء ہے جو اہل مدینہ کی میقات ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1743   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2919  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

طواف افاضہ جس کو طواف زیارت اور طواف رکن بھی کہا جاتا ہے،
اس سے مراد وہ طواف جو دس ذوالحجہ کو رمی جمار،
قربانی اور تحلیق یا تقصیر کرنے کے بعد منی سے مکہ مکرمہ آ کر کیا جاتا ہے۔

جن لوگوں کے پاس ہدی نہیں تھی،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو حکم دیا کہ وہ اپنے حج کو فسخ کر کے،
اس کو عمرہ بنا لیں،
اب اس میں اختلاف ہے کہ کیا حج کے لیے احرام باندھنے والا مکہ پہنچ کر،
اپنے حج کو عمرہ میں بدل سکتا ہے،
یا نہیں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حج کا احرام باندھ کر اسے فسخ کر کے عمرہ بنا لینا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ خاص تھا اور اب اس کی اجازت نہیں ہے لیکن امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
امام داؤد رحمۃ اللہ علیہ،
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ وابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین کے نزدیک جو انسان ہدی ساتھ لے کر نہیں گیا،
اسے حج کو عمرہ سے تبدیل کرنا ہو گا۔

اگر انسان مکہ مکرمہ پہنچ کروہاں سے عمرہ کرنا چاہتا ہے تو وہ جمہور علماء کے نزدیک حرم سے باہر جا کر حل سے احرام باندھے گا اگر حرم کے اندر سے ہی احرام باندھ کر عمرہ کرے گا تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور قول کے مطابق اس کا عمرہ صحیح ہو گا لیکن ترک میقات کی وجہ سے دم (قربانی)
لازم آئے گا دوسرا قول یہ ہے کہ اس کا یہ عمرہ صحیح نہیں ہے وہ حرم سے باہر جا کر نئے سرے سے احرام باندھے اور عمرہ کرے جمہور کے نزدیک عمرہ صحیح ہے۔
لیکن چونکہ خارج حرم نہیں گیا اس طرح حل اور حرم جمع نہیں ہوئے اس لیے دم (خون)
لازم ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تنعیم سے عمرہ کرنا لازم ہے اس کے بغیر عمر ہ نہیں ہو گا باقی آئمہ کے نزدیک حل کے کسی مقام سے بھی عمرہ کر سکتا ہے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں عمرہ اس صورت میں ہے جب انسان باہر سے مکہ میں داخل ہو،
مکہ سے باہر نکل کر عمرہ کرنا سوائے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے(اس حج والے عمرہ کے)
کسی صحابی سے ثابت نہیں ہے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج میں بے شمار لوگ تھے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوا کسی نے بھی حج سے فراغت کے بعد عمرہ نہیں کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سال میں ایک ہی عمرہ کیا،
ایک سال میں دو عمرے نہیں کیے اس لیے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سال میں ایک ہی عمرہ کرنا چاہیے۔
لیکن جمہور کے نزدیک زیادہ عمرے بھی ہو سکتے ہیں لیکن آج کل جو رواج پڑ گیا ہے کہ روزانہ حرم سے باہر تنعیم میں آتے ہیں اور عمرہ کرتے ہیں اور اس کے لیے چند بال کاٹ لیتے ہیں اس کا تو کوئی ثبوت نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2919   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.