الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
17. باب بَيَانِ وُجُوهِ الإِحْرَامِ وَأَنَّهُ يَجُوزُ إِفْرَادُ الْحَجِّ وَالتَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ وَجَوَازِ إِدْخَالِ الْحَجِّ عَلَى الْعُمْرَةِ وَمَتَى يَحِلُّ الْقَارِنُ مِنْ نُسُكِهِ:
17. باب: احرام کی اقسام کابیان، اور حج افراد، تمتع، اور قران تینوں جائز ہیں، اور حج کا عمرہ پر داخل کرنا جائز ہے، اور حج قارن والا اپنے حج سے کب حلال ہو جائے؟
حدیث نمبر: 2937
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، ومحمد بن رمح جميعا، عن الليث بن سعد ، قال قتيبة: حدثنا ليث، عن ابي الزبير ، عن جابر رضي الله عنه، انه قال: اقبلنا مهلين مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بحج مفرد، واقبلت عائشة رضي الله عنها بعمرة، حتى إذا كنا بسرف عركت، حتى إذا قدمنا طفنا بالكعبة والصفا والمروة، فامرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يحل منا من لم يكن معه هدي، قال: فقلنا: حل ماذا؟، قال: " الحل كله "، فواقعنا النساء وتطيبنا بالطيب ولبسنا ثيابنا، وليس بيننا وبين عرفة إلا اربع ليال، ثم اهللنا يوم التروية، ثم دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم على عائشة رضي الله عنها فوجدها تبكي، فقال: " ما شانك؟ "، قالت: شاني اني قد حضت، وقد حل الناس ولم احلل، ولم اطف بالبيت والناس يذهبون إلى الحج الآن، فقال: " إن هذا امر كتبه الله على بنات آدم فاغتسلي، ثم اهلي بالحج "، ففعلت ووقفت المواقف، حتى إذا طهرت طافت بالكعبة والصفا والمروة ثم قال: " قد حللت من حجك وعمرتك جميعا "، فقالت: يا رسول الله إني اجد في نفسي اني لم اطف بالبيت حتى حججت، قال: " فاذهب بها يا عبد الرحمن فاعمرها من التنعيم "، وذلك ليلة الحصبة،حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ جميعا، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ قُتَيْبَةُ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: أَقْبَلْنَا مُهِلِّينَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَجٍّ مُفْرَدٍ، وَأَقْبَلَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بِعُمْرَةٍ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِسَرِفَ عَرَكَتْ، حَتَّى إِذَا قَدِمْنَا طُفْنَا بِالْكَعْبَةِ وَالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَحِلَّ مِنَّا مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، قَالَ: فَقُلْنَا: حِلُّ مَاذَا؟، قَالَ: " الْحِلُّ كُلُّهُ "، فَوَاقَعْنَا النِّسَاءَ وَتَطَيَّبْنَا بِالطِّيبِ وَلَبِسْنَا ثِيَابَنَا، وَلَيْسَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا أَرْبَعُ لَيَالٍ، ثُمَّ أَهْلَلْنَا يَوْمَ التَّرْوِيَةِ، ثُمَّ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَوَجَدَهَا تَبْكِي، فَقَالَ: " مَا شَأْنُكِ؟ "، قَالَتْ: شَأْنِي أَنِّي قَدْ حِضْتُ، وَقَدْ حَلَّ النَّاسُ وَلَمْ أَحْلِلْ، وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ وَالنَّاسُ يَذْهَبُونَ إِلَى الْحَجِّ الْآنَ، فَقَالَ: " إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ فَاغْتَسِلِي، ثُمَّ أَهِلِّي بِالْحَجِّ "، فَفَعَلَتْ وَوَقَفَتِ الْمَوَاقِفَ، حَتَّى إِذَا طَهَرَتْ طَافَتْ بِالْكَعْبَةِ وَالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ قَالَ: " قَدْ حَلَلْتِ مِنْ حَجِّكِ وَعُمْرَتِكِ جَمِيعًا "، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي أَنِّي لَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ حَتَّى حَجَجْتُ، قَالَ: " فَاذْهَبْ بِهَا يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ فَأَعْمِرْهَا مِنَ التَّنْعِيمِ "، وَذَلِكَ لَيْلَةَ الْحَصْبَةِ،
قتیبہ نے کہا: ہم سے لیث نے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو زبیر سے انھوں نے حضرت جا بر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اکیلے حج (افرا د) کا تلبیہ پکا رتے ہو ئے آئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صرف عمرے کی نیت سے آئیں۔جب ہم مقام سرف پہنچے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایام شروع ہو گئے حتی کہ جب ہم مکہ آئے تو ہم نے کعبہ اور صفا مروہ کا طواف کر لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں سے جس کسی کے ہمرا ہ قربانی نہیں، وہ (احرا م چھوڑ کر) حلت (عدم احرا م کی حالت) اختیا ر کرلے۔ہم نے پو چھا: کو ن سی حلت؟آپ نے فرمایا: مکمل حلت (احرا م کی تمام پابندیوں سے آزادی۔) "تو پھر ہم اپنی عورتوں کے پاس گئے خوشبو لگا ئی اور معمول کے) کپڑے پہن لیے۔ (اور اس وقت) ہمارے اور عرفہ (کو روانگی) کے درمیان چار راتیں باقی تھیں۔پھر ہم نے ترویہ والے دن (آٹھ ذوالحجہ کو) تلبیہ پکارا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خیمے میں دا خل ہو ئے تو انھیں روتا ہوا پا یا۔پوچھا: "تمھا را کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے جواب دیا: میرا معاملہ یہ ہے کہ مجھے ایام شروع ہو گئے ہیں۔ لو گ حلال (احرا م سے فارغ) ہو چکے ہیں اور میں ابھی نہیں ہو ئی اور نہ میں نے ابھی بیت اللہ کا طواف کیا ہے لو گ اب حج کے لیے روانہ ہو رہے ہیں آپ نے فرمایا: " (پریشان مت ہو) یہ (حیض) ایسا معاملہ ہے جو اللہ نے آدم ؑ کی بیٹیوں کی قسم میں لکھ دیا ہے تم غسل کر لو اور حج کا (احرا م باندھ کر) تلبیہ پکارو۔"انھوں نے ایسا ہی کیا اور وقوف کے ہر مقام پر وقوف کیا (حاضری دی دعائیں کیں) اور جب پا ک ہو گئیں تو عرفہ کے دن) بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کیا۔پھر آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا: " تم اپنے حج اور عمرے دونوں (مکمل کر کے ان کے احرا م کی پابندیوں) سے آزاد ہو چکی ہو۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے دل میں (ہمیشہ) یہ کھٹکا رہے گا کہ میں حج کرنے تک بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکی۔آپ نے فرمایا: "اے عبد الرحمٰن! انھیں 0لے جاؤ اور) تنعیم سے عمرہ کرا لاؤ۔اور یہ (منیٰ سے واپسی پر) حصبہ (میں قیام والی رات کا واقعہ ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج مفرد کا احرام باندھ کر چلے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عمرہ کا احرام باندھ کر چلیں، حتی کہ جب ہم سرف مقام پر پہنچ گئے، انہیں حیض آنا شروع ہو گیا، حتی کہ جب ہم مکہ پہنچے، ہم نے بیت اللہ اور صفا اور مروہ کا طواف کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جس کے پاس ہدی نہیں ہے، وہ احرام کھول دے تو ہم نے پوچھا، حلال ہونے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مکمل حلت۔ تو ہم بیویوں کے پاس گئے اور خوشبو لگائی اور اپنے کپڑے پہن لیے، ہمارے اور عرفہ کے درمیان چار دن باقی تھے، پھر ہم نے ترویہ کے دن (آٹھ ذوالحجہ کو) احرام باندھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئے تو انہیں روتے ہوئے پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے جواب دیا، میری حالت یہ ہے، میں حائضہ ہوں، لوگ احرام کھول چکے ہیں اور میں نے احرام نہیں کھولا اور نہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا ہے اور لوگ اب حج کے لیے جا رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایسی چیز ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں کی فطرت میں رکھ دی ہے، تم غسل کر کے، حج کا احرام باندھ لو۔ تو میں نے ایسے ہی کیا اور تمام مقامات پر وقوف کیا، (ٹھہری) حتی کہ جب پاک ہو گئی تو کعبہ اور صفا اور مروہ کا طواف کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے حج اور عمرہ دونوں سے حلال ہو گئی ہو۔ تو اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے دل میں کھٹک محسوس کر رہی ہوں کہ میں حج سے پہلے بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکی، (حالانکہ میں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبدالرحمٰن! اسے لے جاؤ اور اسے تنعیم سے عمرہ کرواؤ۔ اور یہ مَحصَب کی رات کا واقعہ ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1213

   صحيح البخاري7230جابر بن عبد اللهلو استقبلت من أمري ما استدبرت ما أهديت ولولا أن معي الهدي لحللت قال ولقيه سراقة وهو يرمي جمرة العقبة فقال يا رسول الله ألنا هذه خاصة قال لا بل لأبد قال وكانت عائشة قدمت معه مكة وهي حائض فأمرها النبي أن تنسك المناسك كلها غير أنها
   صحيح البخاري7367جابر بن عبد اللهلولا هديي لحللت كما تحلون فحلوا فلو استقبلت من أمري ما استدبرت ما أهديت فحللنا وسمعنا وأطعنا
   صحيح البخاري4352جابر بن عبد اللهأهد وامكث حراما كما أنت
   صحيح البخاري1557جابر بن عبد اللهيقيم على إحرامه
   صحيح البخاري1651جابر بن عبد اللهأهل النبي هو وأصحابه بالحج ليس مع أحد منهم هدي غير النبي وطلحة وقدم علي من اليمن ومعه هدي فقال أهللت بما أهل به النبي فأمر النبي أصحابه أن يجعلوها عمرة ويطوفوا ثم يقصروا ويحلوا
   صحيح البخاري1568جابر بن عبد اللهأحلوا من إحرامكم بطواف البيت وبين الصفا و المروة
   صحيح البخاري1570جابر بن عبد اللهلبيك اللهم لبيك بالحج أمرنا رسول الله فجعلناها عمرة
   صحيح مسلم2949جابر بن عبد اللهلبيك بالحج أمرنا رسول الله أن نجعلها عمرة
   صحيح مسلم2937جابر بن عبد اللهمن لم يكن معه هدي قال فقلنا حل ماذا قال الحل كله فواقعنا النساء وتطيبنا بالطيب ولبسنا ثيابنا وليس بيننا وبين عرفة إلا أربع ليال أهللنا يوم التروية ثم دخل رسول الله على عائشة ا
   صحيح مسلم2940جابر بن عبد اللهمن لم يكن معه هدي فليحلل قال قلنا أي الحل قال الحل كله قال فأتينا النساء ولبسنا الثياب ومسسنا الطيب لما كان يوم التروية أهللنا بالحج وكفانا الطواف الأول بين الصفا والمروة أمرنا رسول الله أن نشترك في الإبل والبقر كل سبعة من
   صحيح مسلم2941جابر بن عبد اللهأمرنا النبي لما أحللنا أن نحرم إذا توجهنا إلى منى
   صحيح مسلم2943جابر بن عبد اللهلولا هديي لحللت كما تحلون ولو استقبلت من أمري ما استدبرت لم أسق الهدي فحلوا فحللنا وسمعنا وأطعنا بم أهللت قال بما أهل به النبي فقال له رسول الله فأهد وامكث حراما قال وأهدى له
   صحيح مسلم2944جابر بن عبد اللهأحلوا فلولا الهدي الذي معي فعلت كما فعل
   صحيح مسلم2945جابر بن عبد اللهأحلوا من إحرامكم فطوفوا بالبيت وبين الصفا والمروة
   صحيح مسلم2946جابر بن عبد اللهأمرنا رسول الله أن نجعلها عمرة ونحل قال وكان معه الهدي فلم يستطع أن يجعلها عمرة
   سنن أبي داود1785جابر بن عبد اللهيحل منا من لم يكن معه هدي قال فقلنا حل ماذا فقال الحل كله فواقعنا النساء وتطيبنا بالطيب ولبسنا ثيابنا وليس بيننا وبين عرفة إلا أربع ليال ثم أهللنا يوم التروية ثم دخل رسول الله على عائشة فوجدها تبكي فقال ما شأنك قالت شأني أني قد
   سنن أبي داود1788جابر بن عبد اللهاجعلوها عمرة إلا من كان معه الهدي لما كان يوم التروية أهلوا بالحج فلما كان يوم النحر قدموا فطافوا بالبيت ولم يطوفوا بين الصفا و المروة
   سنن أبي داود1789جابر بن عبد اللهما أهديت ولولا أن معي الهدي لأحللت
   سنن النسائى الصغرى2744جابر بن عبد اللهاللهم إني أهل بما أهل به رسول الله ومعي الهدي قال فلا تحل
   سنن النسائى الصغرى2745جابر بن عبد اللهبما أهل به النبي قال فاهد وامكث حراما كما أنت
   سنن النسائى الصغرى2807جابر بن عبد اللهأبركم وأتقاكم ولولا الهدي لحللت ولو استقبلت من أمري ما استدبرت
   سنن النسائى الصغرى2713جابر بن عبد اللهلم أسق الهدي وجعلتها عمرة فمن لم يكن معه هدي فليحلل وليجعلها عمرة وقدم علي من اليمن بهدي وساق رسول الله من المدينة هديا وإذا فاطمة قد لبست ثيابا صبيغا واكتحلت قال فانطلقت محرشا أستفتي رسول ال
   سنن النسائى الصغرى2997جابر بن عبد اللهأحلوا فلولا الهدي الذي معي لفعلت مثل الذي تفعلون
   سنن النسائى الصغرى2875جابر بن عبد اللهقدم النبي مكة صبيحة رابعة مضت من ذي الحجة
   سنن ابن ماجه2966جابر بن عبد اللهأفرد الحج
   سنن ابن ماجه2967جابر بن عبد اللهأفردوا الحج
   سنن ابن ماجه1074جابر بن عبد اللهقدم النبي مكة صبح رابعة مضت من شهر ذي الحجة
   المعجم الصغير للطبراني439جابر بن عبد الله قرن رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الحج والعمرة ، وطاف لهما طوافا واحدا
   مسندالحميدي1325جابر بن عبد اللهأذن في الناس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد الحج، فامتلأت المدينة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في زمان الحج، وفي حين الحج، فلما أشرف على البيداء أهل منها، وأهل الناس معه
   مسندالحميدي1330جابر بن عبد اللهلو استقبلت من أمري ما استدبرت، ما صنعت الذي صنعت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1074  
´جب مسافر کسی مقام پر ٹھہرے تو کتنے دنوں تک قصر کر سکتا ہے؟`
عطاء کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے مجھ سے میرے ساتھ کئی لوگوں کی موجودگی میں حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ چار ذی الحجہ کی صبح تشریف لائے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1074]
اردو حاشہ:
فائدہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کو صبح کے وقت مکہ مکرمہ تشریف فرما ہوئے۔
اور یہاں سے یوم الترویہ (8 ذوالحجہ)
کو منیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔
اس میں یہ ارشاد ہے کہ چاردن ٹھرنے کی صورت میں بھی دوگانہ ادا کیاجا سکتا ہے۔
الغرض قصر نماز کےلئے دنوں کے تعین میں یہ روایت پہلی روایت سے زیادہ واضح اور فیصلہ کن ہے۔
واللہ أعلم تاہم دونوں ہی موقف صحیح ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1074   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1789  
´حج افراد کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا احرام باندھا ان میں سے اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے پاس ہدی کے جانور نہیں تھے اور علی رضی اللہ عنہ یمن سے ساتھ ہدی لے کر آئے تھے تو انہوں نے کہا: میں نے اسی کا احرام باندھا ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ حج کو عمرہ میں بدل لیں یعنی وہ طواف کر لیں پھر بال کتروا لیں اور پھر احرام کھول دیں سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی ہو، تو لوگوں نے عرض کیا: کیا ہم منیٰ کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر منی ٹپکا رہے ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا: اگر مجھے پہلے سے یہ معلوم ہوتا جو اب معلوم ہوا ہے تو میں ہدی نہ لاتا، اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1789]
1789. اردو حاشیہ:
➊ صحابہ کرام خوب سمجھتے تھے کہ دین و شریعت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ا ور پیروی کانام ہے۔ اسی لیے حضرت علی نے احرام کی نیت میں یہ کہا کہ میرا احرام اور میری نیت وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ہے۔
➋ اور دوسری بات (کہ ہم منی کو اس حالت میں جائیں ......)کہنے کی وجہ یہ تھی کہ عبادت چونکہ انسان سے زہد و رغبت الی اللہ کا تقاضا کرتی ہے اور اعمال حج شروع ہونےمیں دو دن باقی تھے تو انہیں کامل حلت کچھ عجیب سی لگی۔ نیز رسول اللہ ﷺ خود بھی تو حلال نہیں ہوئے تھے۔ او روہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کے شائق تھے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنی مجبوری کی وضاحت کرکے صحابہ کرام کا اشکال دور فرما دیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1789   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2937  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہےکہ جو لوگ مکہ مکرمہ پہنچ کر،
عمرہ کا طواف کر کے احرام کھول دیں وہ مکمل طور پر حلال ہو جاتے ہیں اور ان پر احرام کی کوئی پابندی برقرار نہیں رہتی حتی کہ ان کے لیے جنسی تعلقات قائم کرنا بھی جائز ہو جاتا ہے اور وہ حج کے لیےنئے سرے سے احرام آٹھ ذوالحجہ کو باندھیں گے اور اس کے لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ وہ آٹھ تاریخ کو غسل کر کے احرام باندھیں،
اگر عورت حائضہ ہو تو وہ بھی غسل کر لے نیز اس حدیث سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عمرہ پر حج کا احرام باندھا تھا عمرہ کوترک نہیں کیا تھا اس لیے آپ کا حج،
حج قِران تھا حج مفرد نہ تھا،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم اپنے حج اور عمرہ دونوں سےحلال ہو گئی ہو۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تنعیم سے جو عمرہ کیا وہ محض دل کے کھٹک اور خلجان کو دور کرنے کے لیے تھا عمرہ ترک نہیں کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قضائی دی ہو اور اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حج قِران کے لیے ایک طواف اور ایک سعی کافی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2937   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.