الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
رضاعت کے احکام و مسائل
16. باب اسْتِحْبَابِ نِكَاحِ الْبِكْرِ:
16. باب: باکرہ سے نکاح مستحب ہونے کابیان۔
حدیث نمبر: 3641
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا عبد الوهاب يعني ابن عبد المجيد الثقفي ، حدثنا عبيد الله ، عن وهب بن كيسان ، عن جابر بن عبد الله ، قال: خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة، فابطا بي جملي فاتى علي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لي: " يا جابر "، قلت: نعم، قال: " ما شانك "، قلت: ابطا بي جملي واعيا فتخلفت، فنزل فحجنه بمحجنه، ثم قال: " اركب "، فركبت، فلقد رايتني اكفه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " اتزوجت "، فقلت: نعم، فقال: " ابكرا ام ثيبا "، فقلت: بل ثيب، قال: " فهلا جارية تلاعبها وتلاعبك "، قلت: إن لي اخوات، فاحببت ان اتزوج امراة تجمعهن وتمشطهن وتقوم عليهن، قال: " اما إنك قادم، فإذا قدمت فالكيس الكيس، ثم قال: اتبيع جملك "، قلت: نعم، فاشتراه مني باوقية، ثم قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقدمت بالغداة، فجئت المسجد، فوجدته على باب المسجد، فقال: " الآن حين قدمت "، قلت: نعم، قال: " فدع جملك وادخل، فصل ركعتين "، قال: فدخلت فصليت ثم رجعت، فامر بلالا ان يزن لي اوقية، فوزن لي بلال، فارجح في الميزان، قال: فانطلقت فلما وليت، قال: " ادع لي جابرا "، فدعيت فقلت: الآن يرد علي الجمل، ولم يكن شيء ابغض إلي منه، فقال: " خذ جملك ولك ثمنه ".حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْمَجِيدِ الثَّقَفِيَّ ، حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَأَبْطَأَ بِي جَمَلِي فَأَتَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ لِي: " يَا جَابِرُ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " مَا شَأْنُكَ "، قُلْتُ: أَبْطَأَ بِي جَمَلِي وَأَعْيَا فَتَخَلَّفْتُ، فَنَزَلَ فَحَجَنَهُ بِمِحْجَنِهِ، ثُمَّ قَالَ: " ارْكَبْ "، فَرَكِبْتُ، فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي أَكُفُّهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " أَتَزَوَّجْتَ "، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فقَالَ: " أَبِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا "، فَقُلْتُ: بَلْ ثَيِّبٌ، قَالَ: " فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ "، قُلْتُ: إِنَّ لِي أَخَوَاتٍ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ امْرَأَةً تَجْمَعُهُنَّ وَتَمْشُطُهُنَّ وَتَقُومُ عَلَيْهِنَّ، قَالَ: " أَمَا إِنَّكَ قَادِمٌ، فَإِذَا قَدِمْتَ فَالْكَيْسَ الْكَيْسَ، ثُمَّ قَالَ: أَتَبِيعُ جَمَلَكَ "، قُلْتُ: نَعَمْ، فَاشْتَرَاهُ مِنِّي بِأُوقِيَّةٍ، ثُمَّ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدِمْتُ بِالْغَدَاةِ، فَجِئْتُ الْمَسْجِدَ، فَوَجَدْتُهُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فقَالَ: " الْآنَ حِينَ قَدِمْتَ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " فَدَعْ جَمَلَكَ وَادْخُلْ، فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ "، قَالَ: فَدَخَلْتُ فَصَلَّيْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ، فَأَمَرَ بِلَالًا أَنْ يَزِنَ لِي أُوقِيَّةً، فَوَزَنَ لِي بِلَالٌ، فَأَرْجَحَ فِي الْمِيزَانِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فَلَمَّا وَلَّيْتُ، قَالَ: " ادْعُ لِي جَابِرًا "، فَدُعِيتُ فَقُلْتُ: الْآنَ يَرُدُّ عَلَيَّ الْجَمَلَ، وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْهُ، فقَالَ: " خُذْ جَمَلَكَ وَلَكَ ثَمَنُهُ ".
وہب بن کیسان نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں نکلا تھا، میرے اونٹ نے میری رفتار سست کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا: "جابر!" میں نے عرض کی: جی۔ آپ نے پوچھا: "کیا معاملہ ہے؟" میں نے عرض کی: میرے لیے میرا اونٹ سست پڑ چکا ہے اور تھک گیاہے، اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ آپ (اپنی سواری سے) اترے اور اپنی مڑے ہوئے سرے والی چھڑی سے اسے کچوکا لگایا، پھر فرمایا: "سوار ہو جاؤ۔" میں سوار ہو گیا۔ اس کے بعد میں نے خود کو دیکھا کہ میں اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی اونٹنی) سے (آگے بڑھنے سے) روک رہا ہوں۔ پھر آپ نے پوچھا: "کیا تم نے شادی کر لی؟" میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے پوچھا: "کنواری سے یا دوہاجو سے؟" میں نے عرض کی: دوہاجو ہے۔ آپ نے فرمایا: " (کنواری) لڑکی سے کیوں نہ کی، تم اس کے ساتھ دل لگی کرتے، وہ تمہارے ساتھ دل لگی کرتی۔" میں نے عرض کی: میری (چھوٹی) بہنیں ہیں۔ میں نے چاہا کہ ایسی عورت سے شادی کروں جو ان کی ڈھارس بندھائے، ان کی کنگھی کرے اور ان کی نگہداشت کرے۔ آپ نے فرمایا: "تم (گھر) پہنچنے والے ہو، جب پہنچ جاؤ تو احتیاط اور عقل مندی سے کام لینا۔" پھر پوچھا: "کیا تم اپنا اونٹ بیچو گے؟" میں نے عرض کی: جی ہاں، چنانچہ آپ نے وہ (اونٹ) مجھ سے ایک اوقیہ (چاندی کی قیمت) میں خرید لیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ گئے اور میں صبح کے وقت پہنچا، مسجد میں آیا تو آپ کو مسجد کے دروازے پر پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "ابھی پہنچے ہو؟" میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: "اپنا اونٹ چھوڑو اور مسجد میں جا کر دو رکعت نماز ادا کرو۔" میں مسجد میں داخل ہوا، نماز پڑھی، پھر (آپ کے پاس) واپس آیا تو آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک اوقیہ (چاندی) تول دیں، چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے وزن کیا، اورترازو کو جھکایا (اوقیہ سے زیادہ تولا۔) کہا: اس کے بعد میں چل پڑا، جب میں نے پیٹھ پھیری تو آپ نے فرمایا: "جابر کو میرے پاس بلاؤ۔" مجھے بلایا گیا۔ میں نے (دل میں) کہا: اب آپ میرا اونٹ (بھی) مجھے واپس کر دیں گے۔ اور مجھے کوئی چیز اس سے زیادہ ناپسند نہ تھی (کہ میں قیامت وصول کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا اونٹ بھی واپس لے لوں۔) آپ نے فرمایا: "اپنا اونٹ لے لو اور اس کی قیمت بھی تمہاری ہے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں ایک جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا میرا اونٹ سست رفتار چلنے لگا، میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: جابر ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا معاملہ ہے؟ میں نے عرض کیا، میرا اونٹ آہستہ آہستہ چلنے لگا ہے وہ تھک گیا ہے اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اترے اور اسے خمیدہ چھڑی سے کچوکا لگایا، پھر فرمایا: سوار ہو جا تو میں سوار ہو گیا، اور میں اپنے اونٹ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ گے بڑھنے سے روک رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تو نے شادی کر لی ہے؟ میں نے جواب دیا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا، بلکہ وہ ثیب (بیوہ) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوشیزہ سے کیوں نہیں، تم باہمی اٹھکیلیاں کرتے؟ میں نے عرض کیا، میری بہنیں ہیں، اس لیے میں نے چاہا ایسی عورت سے شادی کروں جو انہیں اپنے دامن میں لے، ان کی کنگھی پٹی کرے اور ان کی دیکھ بھال رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب تم پہنچ رہے ہو، تو جب گھر پہنچو، عقل اور احتیاط سے کام لینا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا اپنا اونٹ بیچو گے؟ میں نے کہا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار کے بعد) جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اسے ایک اوقیہ (چالیس درہم) میں خرید لیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ) پہنچے اور صبح کو میں بھی (اپنے محلہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں مسجد میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے مسجد کے دروازہ پر پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابھی پہنچے ہو؟ میں نے کہا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے اونٹ کو چھوڑ دے اور مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھ۔ میں نے مسجد میں جا کر نماز پڑھی اور پھر واپس آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ مجھے چالیس درہم تول دے، بلال نے مجھے چاندی تول دی اور ترازو جھکایا، میں لے کر چل دیا۔ جب میں نے پشت پھیری، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جابر کو بلاؤ۔ مجھے بلایا گیا تو میں نے سوچا، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا اونٹ واپس کر دیں گے، اور مجھے اس سے زیادہ ناپسند کوئی اور چیز نہ تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا اونٹ لے لو، اور تمہیں اس کی قیمت بھی دی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1467

   صحيح البخاري2967جابر بن عبد اللهما لبعيرك قال قلت عيي قال فتخلف رسول الله فزجره ودعا له فما زال بين يدي الإبل قدامها يسير فقال لي كيف ترى بعيرك قال قلت بخير قد أصابته بركتك قال أفتبيعنيه قال فاستحييت ولم يكن لنا ناضح غيره قال فقلت نعم قال فبعنيه فبعته إياه على أن لي فقار ظهره حتى أبلغ ا
   صحيح البخاري5367جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك وتضاحكها وتضاحكك
   صحيح البخاري2385جابر بن عبد اللهأتبيعنيه قلت نعم فبعته إياه فلما قدم المدينة غدوت إليه بالبعير فأعطاني ثمنه
   صحيح البخاري2309جابر بن عبد اللهما لك قلت إني على جمل ثفال قال أمعك قضيب قلت نعم قال أعطنيه فأعطيته فضربه فزجره فكان من ذلك المكان من أول القوم قال بعنيه فقلت بل هو لك يا رسول الله قال بل بعنيه قد أخذته بأربعة دنانير ولك ظهره إلى المدينة فلما دنونا من المدينة أخذت أرتحل قال أين تريد قلت
   صحيح البخاري4052جابر بن عبد اللهفهلا جارية تلاعبك قلت يا رسول الله إن أبي قتل يوم أحد وترك تسع بنات كن لي تسع أخوات فكرهت أن أجمع إليهن جارية خرقاء مثلهن ولكن امرأة تمشطهن وتقوم عليهن قال أصبت
   صحيح البخاري2718جابر بن عبد اللهيسير على جمل له قد أعيا فمر النبي فضربه فدعا له فسار بسير ليس يسير مثله ثم قال بعنيه بوقية قلت لا ثم قال بعنيه بوقية فبعته فاستثنيت حملانه إلى أهلي فلما قدمنا أتيته بالجمل ونقدني ثمنه ثم انصرفت فأرسل على إثري قال ما كنت لآخذ جملك فخذ
   صحيح البخاري5080جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك
   صحيح البخاري5245جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك
   صحيح البخاري5079جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك
   صحيح البخاري5247جابر بن عبد اللهبكرا تلاعبها وتلاعبك قال فلما قدمنا ذهبنا لندخل
   صحيح البخاري6387جابر بن عبد اللهتزوجت يا جابر قلت نعم قال بكرا أم ثيبا قلت ثيبا قال هلا جارية تلاعبها وتلاعبك أو تضاحكها وتضاحكك قلت هلك أبي فترك سبع أو تسع بنات فكرهت أن أجيئهن بمثلهن فتزوجت امرأة تقوم عليهن قال فبارك الله عليك
   صحيح البخاري2470جابر بن عبد اللههذا جملك فخرج فجعل يطيف بالجمل قال الثمن والجمل لك
   صحيح البخاري2604جابر بن عبد اللهبعت من النبي بعيرا في سفر فلما أتينا المدينة قال ائت المسجد فصل ركعتين فوزن
   صحيح البخاري3089جابر بن عبد اللهاشترى مني النبي بعيرا بوقيتين ودرهم أو درهمين فلما قدم صرارا أمر ببقرة فذبحت فأكلوا منها فلما قدم المدينة أمرني أن آتي المسجد فأصلي ركعتين ووزن لي ثمن البعير
   صحيح البخاري2097جابر بن عبد اللهكنت مع النبي في غزاة فأبطأ بي جملي وأعيا فأتى علي النبي فقال جابر فقلت نعم قال ما شأنك قلت أبطأ علي جملي وأعيا فتخلفت فنزل يحجنه بمحجنه ثم قال اركب فركبت فلقد رأيته أكفه عن رسول الله قال تزوجت قلت نعم قال بكرا أم ثيبا قلت بل ثيبا قال أفلا جارية تلاعبها وت
   صحيح مسلم3640جابر بن عبد اللهأبكرا تزوجتها أم ثيبا قال قلت بل ثيبا هلا جارية تلاعبها وتلاعبك لما قدمنا المدينة ذهبنا لندخل فقال أمهلوا حتى ندخل ليلا أي عشاء كي تمتشط الشعثة وتستحد المغيبة قال وقال إذا قدمت فالكيس الكيس
   صحيح مسلم3642جابر بن عبد اللهأتبيعنيه بكذا وكذا والله يغفر لك قال قلت هو لك يا نبي الله قال أتبيعنيه بكذا وكذا والله يغفر لك قال قلت هو لك يا نبي الله قال وقال لي أتزوجت بعد أبيك قلت نعم قال ثيبا أم بكرا قال قلت ثيبا قال فهلا تزوجت بكرا تضاحكك وتضاحكها وتلاعبك وتلاعبها
   صحيح مسلم4098جابر بن عبد اللهبعنيه بوقية قلت لا ثم قال بعنيه فبعته بوقية واستثنيت عليه حملانه إلى أهلي فلما بلغت أتيته بالجمل فنقدني ثمنه ثم رجعت فأرسل في أثري فقال أتراني ماكستك لآخذ جملك خذ جملك ودراهمك فهو لك
   صحيح مسلم4100جابر بن عبد اللهتزوجت بكرا تلاعبك وتلاعبها
   صحيح مسلم3638جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك
   صحيح مسلم3641جابر بن عبد اللهأتزوجت فقلت نعم فقال أبكرا أم ثيبا فقلت بل ثيب هلا جارية تلاعبها وتلاعبك لي أخوات فأحببت أن أتزوج امرأة تجمعهن وتمشطهن وتقوم عليهن قال أما إنك قادم فإذا قدمت فالكيس الكيس ثم قال أتبيع جملك قلت نعم فاشتراه مني بأوقية
   صحيح مسلم3637جابر بن عبد اللهأبكرا أم ثيبا قلت ثيبا أين أنت من العذارى
   صحيح مسلم1658جابر بن عبد اللهخرجت مع رسول الله في غزاة فأبطأ بي جملي وأعيا ثم قدم رسول الله قبلي وقدمت بالغداة فجئت المسجد فوجدته على باب المسجد قال الآن حين قدمت قلت نعم قال فدع جملك وادخل فصل ركعتين قال فدخلت فصليت ثم رجعت
   صحيح مسلم4103جابر بن عبد اللهلما أتى علي النبي وقد أعيا بعيري قال فنخسه فوثب فكنت بعد ذلك أحبس خطامه لأسمع حديثه فما أقدر عليه فلحقني النبي فقال بعنيه فبعته منه بخمس أواق قال قلت على أن لي ظهره إلى المدينة قال ولك ظهره إلى المدينة قال فلما قدمت المدينة أتيته به فزادني وقية ثم وهبه لي
   صحيح مسلم4107جابر بن عبد اللهأخذت جملك بأربعة دنانير ولك ظهره إلى المدينة
   صحيح مسلم1657جابر بن عبد اللهاشترى مني رسول الله بعيرا فلما قدم المدينة أمرني أن آتي المسجد فأصلي ركعتين
   صحيح مسلم4105جابر بن عبد اللهاشترى مني رسول الله بعيرا بوقيتين ودرهم أو درهمين قال فلما قدم صرارا أمر ببقرة فذبحت فأكلوا منها فلما قدم المدينة أمرني أن آتي المسجد فأصلي ركعتين ووزن لي ثمن البعير فأرجح لي
   جامع الترمذي1100جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك
   جامع الترمذي1253جابر بن عبد اللهباع من النبي بعيرا واشترط ظهره إلى أهله
   سنن أبي داود3505جابر بن عبد اللهتراني إنما ماكستك لأذهب بجملك خذ جملك وثمنه فهما لك
   سنن أبي داود2048جابر بن عبد اللهبكر تلاعبها وتلاعبك
   سنن النسائى الصغرى3228جابر بن عبد اللهفهلا بكرا تلاعبك قال قلت يا رسول الله كن لي أخوات فخشيت أن تدخل بيني وبينهن قال فذاك إذا إن المرأة تنكح على دينها ومالها وجمالها فعليك بذات الدين تربت يداك
   سنن النسائى الصغرى4645جابر بن عبد اللهأتبيعنيه بكذا وكذا والله يغفر لك قلت نعم هو لك يا نبي الله قال أتبيعنيه بكذا وكذا والله يغفر لك قلت نعم هو لك يا نبي الله قال أتبيعنيه بكذا وكذا والله يغفر لك قلت نعم هو لك
   سنن النسائى الصغرى4643جابر بن عبد اللهبعنيه قد أخذته بوقية اركبه فإذا قدمت المدينة فأتنا به فلما قدمت المدينة جئته به فقال لبلال يا بلال زن له أوقية وزده قيراطا قلت هذا شيء زادني رسول الله فلم يفارقني فجعلته في كيس فلم يزل عندي حتى جاء أهل الشام يوم الحرة فأخذوا منا ما أخذوا
   سنن النسائى الصغرى3221جابر بن عبد اللههلا بكرا تلاعبها وتلاعبك
   سنن النسائى الصغرى4644جابر بن عبد اللهأعطه ثمنه فلما أدبرت دعاني فخفت أن يرده فقال هو لك
   سنن النسائى الصغرى4642جابر بن عبد اللهبعنيه ولك ظهره حتى تقدم فبعته وكانت لي إليه حاجة شديدة ولكني استحييت منه فلما قضينا غزاتنا ودنونا استأذنته بالتعجيل فقلت يا رسول الله إني حديث عهد بعرس قال أبكرا تزوجت أم ثيبا قلت بل ثيبا يا رسول الله إن عبد الله بن عمرو أصيب وترك جواري أبكارا فكرهت أن
   سنن النسائى الصغرى4641جابر بن عبد اللهبعنيه بوقية قلت لا قال بعنيه فبعته بوقية واستثنيت حملانه إلى المدينة فلما بلغنا المدينة أتيته بالجمل وابتغيت ثمنه ثم رجعت فأرسل إلي فقال أتراني إنما ماكستك لآخذ جملك خذ جملك ودراهمك
   سنن النسائى الصغرى3222جابر بن عبد اللههلا بكرا تلاعبك
   سنن ابن ماجه2205جابر بن عبد اللهأتبيع ناضحك هذا بدينار والله يغفر لك قلت يا رسول الله هو ناضحكم إذا أتيت المدينة قال فتبيعه بدينارين والله يغفر لك قال فما زال يزيدني دينارا دينارا ويقول مكان كل دينار والله يغفر لك حتى بلغ عشرين دينارا فلما أتيت المدينة أخذت برأس الناضح فأتيت به النبي فق
   سنن ابن ماجه1860جابر بن عبد اللهأتزوجت يا جابر قلت نعم قال أبكرا أو ثيبا قلت ثيبا هلا بكرا تلاعبها لي أخوات فخشيت أن تدخل بيني وبينهن قال فذاك إذا
   بلوغ المرام870جابر بن عبد الله أمهلوا حتى تدخلوا ليلا ،‏‏‏‏ ( يعني عشاء ) لكي تمتشط الشعثة ،‏‏‏‏ وتستحد المغيبة
   المعجم الصغير للطبراني525جابر بن عبد الله اشترى مني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعيرا ، وأفقرني ظهره إلى المدينة
   المعجم الصغير للطبراني1180جابر بن عبد الله إذا قدم من سفر صلى ركعتين
   مسندالحميدي1261جابر بن عبد اللهأنكحت يا جابر؟
   مسندالحميدي1322جابر بن عبد اللهفحرسه النبي صلى الله عليه وسلم بعود معه، أو محجن فلقد رأيته، وما يكاد يتقدمه شيء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1860  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، تو آپ نے فرمایا: جابر! کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا: غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شادی کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے کودتے؟ میں نے کہا: میری کچھ بہنیں ہیں، تو میں ڈرا کہ کہیں کنواری لڑکی آ کر ان میں اور مجھ میں دوری کا سبب نہ بن جائے، آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1860]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نکاح کے وقت تمام دوستوں اور رشتے داروں کا اجتماع ضروری نہیں۔

(2)
اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کے حالات معلوم کرنا اور ان کی ضرورتیں ممکن حد تک پوری کرنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنا عیب نہیں۔
حدیث میں «ثیب» کالفظ ہے جو بیوہ اور طلاق یافتہ عورت دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔

(4)
جوان آدمی کے لیے جوان عورت سے شادی کرنا بہتر ہےکیونکہ اس میں زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہونے کی امید ہوتی ہے۔

(5)
حضرت جابر نے اپنی بہنوں کی تربیت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی عمر کی خاتون سے نکاح کیا، اس لیے دوسروں کے فائدے کو سامنے رکھ کر اپنی پسند سے کم تر چیز پر اکتفا کرنا بہت اچھی خوبی ہے۔

(6)
کنبے کے سربراہ کو گھر کے افراد کا مفاد مقدم رکھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1860   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 870  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچ کر اپنے اپنے گھروں میں جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ۔ رات کے وقت گھروں میں داخل ہونا، رات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عشاء کا وقت تھا، تاکہ پراگندہ بالوں والی اپنے بالوں میں کنگھی وغیرہ کر لے اور جس کا خاوند گھر سے باہر غائب تھا وہ اپنے جسم کے زائد بالوں کی صفائی کر لے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے تم میں سے کوئی جب لمبی مدت کے بعد واپس آئے تو اچانک رات کے وقت گھر میں داخل نہ ہو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 870»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب تزوج الثيبات، حديث:5079، ومسلم، الرضاع، باب استحباب نكاح البكر، حديث:715، بعد حديث:1466 /57.»
تشریح:
1. اس حدیث میں اس شخص کو‘ جو بہت دیر کے بعد گھر واپس لوٹا ہو‘ حکم ہے کہ وہ اچانک گھر آنے کی بجائے اپنی رہائش سے قریب کسی جگہ پر کچھ دیر ٹھہرے اور انتظار کرے اور اپنی آمد کی اطلاع اہل خانہ کو کرے تاکہ اس کی بیوی اپنی زیب و آرائش کر لے‘ اس لیے کہ جن عورتوں کے شوہر سفر پر یا باہر کسی علاقے میں ہوتے ہیں‘ وہ عموماً پراگندہ اور غیر مناسب حالت میں ہوتی ہیں۔
ممکن ہے کہ شوہر جب ایسی پراگندہ حالت میں اسے دیکھے تو اس سے نفرت پیدا ہوجائے۔
2. دور جدید میں ڈاک اور ٹیلیفون کے ذریعے سے پیشگی اطلاع دی جا سکتی ہے۔
یہ اطلاع مقصد پورا کر دیتی ہے‘ لہٰذا اب گھر کے قریب پہنچ کر ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 870   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1253  
´جانور بیچتے وقت اس پر سواری کی شرط لگا کر لینے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1253]
اردو حاشہ: 1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگرجائزشرط ہو تو بیع اورشرط دونوں درست ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1253   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2048  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2048]
فوائد ومسائل:
کنواری لڑکی سے شادی زیادہ مرغوب ہے اور کنوارے میاں بیوی میں ہنسی کھیل فطرتاً اور بالعموم بہت زیادہ ہوتا ہے۔
بخلاف بیوہ کے یہ عمل نفسیاتی صحت کےلئے بہت عمدہ ہوتا ہے۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں لہو لعب جائز اور حق ہے۔
تاہم کچھ اور وجوہات سے بیوہ سے شادی کرنا بھی باعث فضیلت ہے۔
جیسا کہ نبی کریمﷺ کا عمل اس پر شاہد ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2048   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3641  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس یہی ایک اونٹ تھا جس سے وہ پانی ڈھونے کا کام لیتے تھے،
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےتکرار واصرار پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچ دیا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بہت قیمت دی،
اس لیے اب اس کو واپس لینا پسند نہیں تھا اور یہ خطرہ بھی تھا کہ اس کی سست رفتاری لوٹ نہ آئے،
یا وہ سمجھتے تھے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ کےساتھ قیمت بھی دیں گے اور دونوں چیزیں لینا مناسب نہیں ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جو ایک قیراط زیادہ دلوایا تھا وہ اس کو ہمیشہ اپنی تھیلی میں رکھتے تھے حتی کہ وہ واقعہ حرہ میں ضائع ہو گیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3641   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.