الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
وصیت کے احکام و مسائل
حدیث نمبر: 4224
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي التميمي ، اخبرنا سليم بن اخضر ، عن ابن عون ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: " اصاب عمر ارضا بخيبر، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم يستامره فيها، فقال: يا رسول الله، إني اصبت ارضا بخيبر لم اصب مالا قط هو انفس عندي منه، فما تامرني به؟، قال: إن شئت حبست اصلها وتصدقت بها، قال: فتصدق بها عمر انه لا يباع اصلها ولا يبتاع، ولا يورث، ولا يوهب، قال: فتصدق عمر في الفقراء، وفي القربى، وفي الرقاب، وفي سبيل الله، وابن السبيل، والضيف لا جناح على من وليها، ان ياكل منها بالمعروف او يطعم صديقا غير متمول فيه، قال: فحدثت بهذا الحديث محمدا، فلما بلغت هذا المكان غير متمول فيه، قال محمد: غير متاثل مالا، قال ابن عون: وانباني من قرا هذا الكتاب ان فيه غير متاثل مالا "،حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمُ بْنُ أَخْضَرَ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَأْمِرُهُ فِيهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ هُوَ أَنْفَسُ عِنْدِي مِنْهُ، فَمَا تَأْمُرُنِي بِهِ؟، قَالَ: إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا، قَالَ: فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ أَنَّهُ لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلَا يُبْتَاعُ، وَلَا يُورَثُ، وَلَا يُوهَبُ، قَالَ: فَتَصَدَّقَ عُمَرُ فِي الْفُقَرَاءِ، وَفِي الْقُرْبَى، وَفِي الرِّقَابِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، وَالضَّيْفِ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا، أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ، قَالَ: فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ مُحَمَّدًا، فَلَمَّا بَلَغْتُ هَذَا الْمَكَانَ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: وَأَنْبَأَنِي مَنْ قَرَأَ هَذَا الْكِتَابَ أَنَّ فِيهِ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا "،
سُلیم بن اخضر نے ہمیں ابن عون سے خبر دی، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں زمین ملی، وہ اس کے بارے میں مشورہ کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! مجھے خیبر میں زمین ملی ہے، مجھے کبھی کوئی ایسا مال نہیں ملا جو میرے نزدیک اس سے زیادہ عمدہ ہو، تو آپ مجھے اس کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "اگر تم چاہو تو اس کی اصل وقف کر دو اور اس (کی آمدنی) سے صدقہ کرو۔" کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے (اس شرط کے ساتھ) صدقہ کیا کہ اس کی اصل نہ بیچی جائے، نہ اسے خریدا جائے، نہ ورثے میں حاصل کی جائے اور نہ ہبہ کی جائے۔ کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس (کی آمدنی) کو فقراء، اقرباء، غلاموں، فی سبیل اللہ، مسافروں اور مہمانوں میں صدقہ کیا اور (قرار دیا کہ) اس شخص پر کوئی گناہ نہیں جو اس کا نگران ہے کہ وہ اس میں تمول حاصل کیے (مالدار بنے) بغیر معروف طریقے سے اس میں سے خود کھائے یا کسی دوست کو کھلائے۔ (ابن عون نے) کہا: میں نے یہ حدیث محمد (بن سیرین) کو بیان کی، جب میں اس جگہ "اس میں تمول حاصل کیے بغیر" پر پہنچا تو محمد نے (ان الفاظ کے بجائے) "مال جمع کیے بغیر کے الفاظ کہے۔ ابن عون نے کہا: مجھے اس شخص نے خبر دی جس نے اس کتاب (لکھے ہوئے وصیت نامے) کو پڑھا تھا کہ اس میں "مال جمع کیے بغیر" کے الفاظ ہیں
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو خیبر میں زمین ملی، تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کے بارے میں مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوئے، اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول! مجھے خیبر میں زمین ملی ہے، مجھے کبھی اس سے زیادہ پسندیدہ مال نہیں ملا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اس کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہو تو اس کے اصل کو روک رکھو اور اس کے علاوہ (منافع) صدقہ کر دو۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو صدقہ کر دیا، اس شرط کے ساتھ کہ اس کے اصل کو بیچا یا خریدا نہیں جائے گا، اور نہ اس کا کوئی وارث بنے گا، اور نہ اسے ھبہ کیا جا سکے گا، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے فقراء، رشتہ داروں، اللہ کی راہ، مسافروں اور مہمانوں کے لیے صدقہ کر دیا، اور کہا، جو شخص اس زمین کا انتظام کرے گا، اس پر کوئی تنگی یا گناہ نہیں ہے کہ وہ معروف طریقہ کے مطابق اس سے کھائے یا دوست و احباب کو کھلائے، ہاں اس کو مال جمع کرنے کا ذریعہ نہ بنائے، ابن عون کہتے ہیں، میں نے یہ حدیث محمد بن سیرین کو سنائی تو جب میں غير متمول فيه،
ترقیم فوادعبدالباقی: 1632

   صحيح البخاري2772عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   صحيح البخاري2737عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   صحيح البخاري2773عبد الله بن عمرإن شئت تصدقت بها فتصدق بها
   صحيح مسلم4224عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   جامع الترمذي1375عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   سنن أبي داود2878عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها وتصدقت بها
   سنن ابن ماجه2396عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   سنن ابن ماجه2397عبد الله بن عمراحبس أصلها سبل ثمرها
   سنن النسائى الصغرى3627عبد الله بن عمرإن شئت تصدقت بها فتصدق بها لا تباع لا توهب
   سنن النسائى الصغرى3629عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   سنن النسائى الصغرى3630عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها وتصدقت بها فتصدق بها
   سنن النسائى الصغرى3631عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   سنن النسائى الصغرى3633عبد الله بن عمراحبس أصلها سبل ثمرتها
   سنن النسائى الصغرى3634عبد الله بن عمراحبس أصلها سبل الثمرة
   سنن النسائى الصغرى3635عبد الله بن عمراحبس أصلها سبل ثمرتها
   بلوغ المرام786عبد الله بن عمر إن شئت حبست أصلها وتصدقت بها
   مسندالحميدي667عبد الله بن عمريا عمر، احبس الأصل، وسبل الثمرة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2397  
´جس نے وقف کیا اس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! خیبر کے جو سو حصے مجھے ملے ہیں ان سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، میں چاہتا ہوں کہ ان کو صدقہ کر دوں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اصل زمین کو رہنے دو، اور اس کے پھلوں کو اللہ کی راہ میں خیرات کر دو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2397]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
وقف شرعاً درست ہے۔

(2)
وقف کسی کی ملکیت نہیں ہوتا البتہ وقف کرنے والا اس کا انتظام خود کرنے کا حق رکھتا ہے۔

(3)
وقف سےحاصل ہونے والی آمدنی میں سے وقف قائم رکھنے کےضروری اخراجات نکال کرباقی مال نیکی کےان کاموں میں خرچ ہوگا جن کےلیے وقف کیاگیا ہے۔

(4)
وقف کا منتظم اپنی خدمات کےعوض مناسب تنخواہ لے سکتا ہے لیکن یہ تنخواہ بہت زیادہ نہ ہو۔

(5)
مال نہ کمانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اپنے لیے ذریعہ آمدنی نہ بنا لے اورجائز حد سے زیادہ مالی فوائد حاصل نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2397   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 786  
´وقف کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (میرے والد) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر کے علاقہ میں زمین ملی تھی۔ (میرے والد) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشورہ طلب کرنے کیلئے حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے خیبر میں کچھ زمین حاصل ہوئی ہے ایسی نفیس و قیمتی کہ اس سے پہلے کبھی بھی ایسی زمین مجھے نہیں ملی۔ میں اسے صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر چاہو تو اصل کو اپنے پاس روک لو اور اس کی پیداوار صدقہ کر دو۔ راوی کا بیان ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس زمین کو فقیروں، قرابت داروں، غلاموں کو آزاد کرنے میں اور راہ خدا میں، راہ چلتے مسافروں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کیلئے وقف کر دیا اور وصیت بھی کر دی کہ اس کا منتظم و نگہبان معروف طریقہ کے مطابق خود بھی کھا سکتا ہے اور احباب و رفقاء کو بھی کھلا سکتا ہے۔ مگر مال کو ذخیرہ بنا کر نہ رکھے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں اور بخاری کی روایت میں ہے کہ اس کے اصل کو صدقہ کر دیا (یعنی وقف کر دیا) جو نہ فروخت کیا جائے گا اور نہ ھبہ کیا جائے گا لیکن اس کی پیداوار، راہ خدا میں خرچ کی جائے گی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 786»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الشروط، باب الشروط في الوقف، حديث:2737، ومسلم، الوصية، باب الوقف، حديث:1632.»
تشریح:
اس حدیث میں وقف شدہ چیز کو فروخت کرنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا گیا ہے‘ یعنی جو چیز وقف کر دی جائے اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا اور نہ اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے۔
حدیث سے تو یہی معلوم ہوتا ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف شدہ چیز کے فروخت کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔
ان کے شاگرد رشید امام ابویوسف رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو یہ حدیث پہنچ جاتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع کر لیتے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 786   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1375  
´وقف کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ کو خیبر میں (مال غنیمت سے) کچھ زمین ملی، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! خیبر میں مجھے مال ملا ہے اس سے زیادہ عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا۔ (اس کے بارے میں) آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر چاہو تو اس کی اصل روک لو اور اسے (پیداوار کو) صدقہ کر دو، تو عمر رضی الله عنہ نے اسے اس طرح سے صدقہ کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ کسی کو وراثت میں دی جائے ۱؎، اور اسے فقیروں میں، رشتہ داروں میں، غلام آزاد کرنے میں، اللہ کے راستے (جہاد) میں، مسافروں میں اور مہمانوں میں خ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1375]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ جو چیزوقف کردی گئی ہو وہ نہ بیچی جاسکتی ہے اورنہ اسے ہبہ اوروراثت میں دیا جا سکتا ہے،
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف کے فروخت کو جائزسمجھتے ہیں،
ان کے شاگرد امام یوسف فرماتے ہیں کہ امام صاحب کو اگریہ حدیث مل گئی ہوتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع فرما لیتے۔
(دیکھیے:
فتح الباری کتاب الوصایا،
باب 29 (2773)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1375   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4224  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
یہ زمین جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ملی تھی،
وہ ان کا غنیمت سے حصہ تھا،
اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنا ثمغ نامی مدینہ میں نخلستان بھی وقف کر دیا تھا،
بعض راویوں نے اس ثمغ کو خیبر والی زمین قرار دیا ہے،
جو درست نہیں ہے،
یہ دونوں الگ الگ زمینیں ہیں۔
(تفصیل کے لیے،
وفاء الوفاء،
امام سمھودی،
ج 4،
ص 1166،
طبع مدینہ منورہ دیکھئے)
(2)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
کسی اہم کام کے لیے اہل علم اور اہل فضل سے مشورہ کرنا اچھا ہے،
اور مشیر کو بھی اچھا مشورہ ہی دینا چاہیے۔
(3)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ کے مطابق اپنی زمین وقف کر دی،
اور خود ہی اس کے نگران اور متولی رہے اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں،
اس وقت کی صورت کو تحریر کر دیا،
جس کے لیے سرخ چمڑا (اديم احمر)
استعمال کیا گیا۔
(4)
وقف کی دو صورتیں ہیں (ا)
آدمی اپنی چیز کی اصل یا ذات وقف کر دے،
جس سے رفاہ عامہ کا کام لیا جائے،
مثلا کوئی زمین مسجد یا مدرسہ یا مسافر خانہ کے طور پر وقف کر دی،
اب یہ بالاتفاق ہمیشہ کے لیے وقف ہو جائے گی،
واقف کا رجوع یا اس کو فروخت کرنا،
کسی کو ھبہ کرنا،
یا کسی کا اس کا وارث بننا جائز نہیں ہو گا۔
(ب)
شے کی ذات اور اصل وقف نہ کرے،
اس کے فوائد اور منافع وقف کر دے،
کہ اس گھر کا کرایہ یا اس زمین کی پیداوار فلاں مد میں صرف ہو گی،
جمہور فقہاء کے نزدیک یہ چیز ہمیشہ کے لیے وقت ہو جائے گی،
اور اس حدیث کے مطابق،
واقف کا رجوع،
یا اس کو بیچنا یا ہبہ کرنا یا وراثت کا جاری ہونا جائز نہیں ہو گا،
ائمہ ثلاثہ اور صاحبین کا یہی موقف ہے،
لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک بعض صورتوں میں مثلا یہ کہے کہ میری اس زمین کی پیداوار فلاں مد کے لیے ہے،
تو واقف کا رجوع اور اس کا بیچنا،
ہبہ کرنا،
وراثت کا جاری ہونا جائز ہو گا،
لیکن اگر قاضی اس وقف کو وقف لازم قرار دے دے،
تو وقف لازم ہو جائے گا،
یا یوں کہے،
یہ میری زندگی میں وقف ہے،
اور میری موت کے بعد صدقہ ہے،
تو پھر وقف لازم ہو گا،
لیکن جمہور کے نزدیک وقف ہر صورت میں لازم اور ابدی ہو گا،
اور ان شروط و مصارف کی پابندی کی جائے گی،
جو واقف نے طے کی ہیں اور اکثر حنفی علماء جمہور کے قول کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں۔
(تکملہ،
ج 2،
ص 124)
(5)
وقف کا متولی یا منتظم وقف کی آمدنی سے دستور کے مطابق اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہے،
اور گھر میں آنے والے دوست و احباب کو بھی اس سے کھلا سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4224   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.