الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
قتل کی ذمہ داری کے تعین کے لیے اجتماعی قسموں، لوٹ مار کرنے والوں (کی سزا)، قصاص اور دیت کے مسائل
حدیث نمبر: 4349
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني إسحاق بن منصور ، اخبرنا بشر بن عمر قال: سمعت مالك بن انس ، يقول: حدثني ابو ليلى عبد الله بن عبد الرحمن بن سهل ، عن سهل بن ابي حثمة ، " انه اخبره عن رجال من كبراء قومه، ان عبد الله بن سهل، ومحيصة خرجا إلى خيبر من جهد اصابهم، فاتى محيصة فاخبر ان عبد الله بن سهل قد قتل وطرح في عين او فقير، فاتى يهود فقال: انتم والله قتلتموه، قالوا: والله ما قتلناه، ثم اقبل حتى قدم على قومه، فذكر لهم ذلك ثم اقبل هو واخوه حويصة وهو اكبر منه وعبد الرحمن بن سهل، فذهب محيصة ليتكلم وهو الذي كان بخيبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمحيصة: كبر كبر يريد السن، فتكلم حويصة ثم تكلم محيصة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إما ان يدوا صاحبكم وإما ان يؤذنوا بحرب، فكتب رسول الله صلى الله عليه وسلم إليهم في ذلك، فكتبوا إنا والله ما قتلناه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لحويصة، ومحيصة، وعبد الرحمن: اتحلفون وتستحقون دم صاحبكم؟، قالوا: لا، قال: فتحلف لكم يهود، قالوا: ليسوا بمسلمين، فواداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده، فبعث إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم مائة ناقة حتى ادخلت عليهم الدار، فقال سهل: " فلقد ركضتني منها ناقة حمراء ".حَدَّثَنِي إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو لَيْلَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَهْلٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ ، " أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ رِجَالٍ مِنْ كُبَرَاءِ قَوْمِهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمْ، فَأَتَى مُحَيِّصَةُ فَأَخْبَرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَدْ قُتِلَ وَطُرِحَ فِي عَيْنٍ أَوْ فَقِيرٍ، فَأَتَى يَهُودَ فَقَالَ: أَنْتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى قَوْمِهِ، فَذَكَرَ لَهُمْ ذَلِكَ ثُمَّ أَقْبَلَ هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، فَذَهَبَ مُحَيِّصَةُ لِيَتَكَلَّمَ وَهُوَ الَّذِي كَانَ بِخَيْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُحَيِّصَةَ: كَبِّرْ كَبِّرْ يُرِيدُ السِّنَّ، فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ وَإِمَّا أَنْ يُؤْذِنُوا بِحَرْبٍ، فَكَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فِي ذَلِكَ، فَكَتَبُوا إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُوَيِّصَةَ، وَمُحَيِّصَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَتَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ؟، قَالُوا: لَا، قَالَ: فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ، قَالُوا: لَيْسُوا بِمُسْلِمِينَ، فَوَادَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةَ نَاقَةٍ حَتَّى أُدْخِلَتْ عَلَيْهِمُ الدَّارَ، فَقَالَ سَهْلٌ: " فَلَقَدْ رَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَاءُ ".
ابولیلیٰ بن عبداللہ بن عبدالرحمان بن سہل (بن زید انصاری) نے سہل بن ابی حثمہ (انصاری) سے حدیث بیان کی، انہوں نے انہیں ان کی قوم کے بڑی عمر کے لوگوں سے خبر دی کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ اپنی تنگدستی کی بنا پر جو انہیں لاحق ہو گئی تھی، (تجارت وغیرہ کے لیے) خیبر کی طرف نکلے، بعد ازاں محیصہ آئے اور بتایا کہ عبداللہ بن سہل قتل کر دیے گئے ہیں اور انہیں کسی چشمے یا پانی کے کچے کنویں (فقیر) میں پھینک دیا گیا، چنانچہ وہ یہود کے پاس آئے اور کہا: اللہ کی قسم! تم لوگوں نے ہی انہیں قتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا، پھر وہ آئے حتی کہ اپنی قوم کے پاس پہنچے اور ان کو یہ بات بتائی، پھر وہ خود، ان کے بھائی حویصہ، اور وہ ان سے بڑے تھے، اور عبدالرحمان بن سہل (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) آئے، محیصہ نے گفتگو شروع کی اور وہی خیبر میں موجود تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محیصہ سے فرمایا: "بڑے کو بات کرنے دو، بڑے کو موقع دو" آپ کی مراد عمر (میں بڑے) سے تھی، تو حویصہ نے بات کی، اس کے بعد محیصہ نے بات کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یا وہ تمہارے ساتھی کی دیت دیں یا پھر جنگ کا اعلان کریں۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں ان کی طرف خط لکھا، تو انہوں نے (جوابا) لکھا: اللہ کی قسم! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمان سے فرمایا: "کیا تم قسم کھا کر اپنے ساتھی کے خون (کا بدلہ لینے) کے حقدار بنو گے؟" انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: "تو تمہارے سامنے یہود قسمیں کھائیں؟" انہوں نے جواب دیا: وہ مسلمان نہیں ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے اس کی دیت ادا کر دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سو اونٹنیاں ان کی طرف روانہ کیں حتی کہ ان کے گھر (باڑے) پہنچا دی گئیں۔ سہل نے کہا: ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی
حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنی قوم کے بزرگوں سے نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی اللہ تعالی عنہما دونوں خیبر گئے، کیونکہ وہ مشقت و تنگی معاش میں گرفتار تھے، محیصہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آ کر بتایا، کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ تعالی عنہ قتل کر کے ایک چشمہ یا گڑھا میں پھینک دئیے گئے ہیں، (اس سے پہلے) وہ یہود کے پاس آ کر یہ کہہ چکے تھے کہ تم نے اللہ کی قسم! اسے قتل کیا ہے، (کیونکہ ان کے علاقہ میں قتل ہوئے تھے) انہوں نے کہا، اللہ کی قسم! ہم نے اسے قتل نہیں کیا ہے، پھر محیصہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنی قوم کے پاس آئے اور انہیں واقعہ بتایا، پھر وہ اور اس کا بھائی حویصہ جو اس سے بڑا تھا، اور عبدالرحمٰن بن سہل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، محیصہ رضی اللہ تعالی عنہ بات کرنے لگا، کیونکہ وہی خیبر میں تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا تو وہ تمہارے ساتھی کی دیت ادا کریں اور یا وہ جنگ کے لیے اعلان سن لیں۔ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خط لکھا تو انہوں نے جواب لکھا، ہم نے، اللہ کی قسم! اسے قتل نہیں کیا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن سے کہا، کیا تم قسمیں اٹھا کر، اپنے فرد کے خون کے حقدار بننا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا، ہم قسموں کے لیے تیار نہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تمہارے سامنے یہود قسمیں اٹھائیں۔ انہوں نے کہا، وہ تو مسلمان نہیں ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت اپنے پاس سے ادا کر دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس سو (100) اونٹنیاں بھیجیں، جو ان کے احاطہ میں داخل کر دی گئیں، حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1669

   صحيح البخاري6898سهل بن عبد اللهالكبر الكبر تأتون بالبينة على من قتله قالوا ما لنا بينة قال فيحلفون قالوا لا نرضى بأيمان اليهود فكره رسول الله أن يبطل دمه فوداه مائة من إبل الصدقة
   صحيح البخاري3173سهل بن عبد اللهتحلفون وتستحقون قاتلكم أو صاحبكم قالوا وكيف نحلف ولم نشهد ولم نر قال فتبريكم يهود بخمسين فقالوا كيف نأخذ أيمان قوم كفار فعقله النبي من عنده
   صحيح البخاري7192سهل بن عبد اللهتحلفون وتستحقون دم صاحبكم قالوا لا قال أفتحلف لكم يهود قالوا ليسوا بمسلمين فوداه رسول
   صحيح مسلم4346سهل بن عبد اللهتحلفون خمسين يمينا وتستحقون قاتلكم أو صاحبكم قالوا يا رسول الله ما شهدنا ولا حضرنا فزعم أنه قال فتبرئكم يهود بخمسين
   صحيح مسلم4349سهل بن عبد اللهتحلفون وتستحقون دم صاحبكم قالوا لا قال فتحلف لكم يهود قالوا ليسوا بمسلمين فواداه رسول الله من عنده فبعث إليهم رسول الله مائة ناقة حتى أدخلت عليهم الدار
   سنن أبي داود1638سهل بن عبد اللهوداه بمائة من إبل الصدقة
   سنن أبي داود4521سهل بن عبد اللهتحلفون وتستحقون دم صاحبكم قالوا لا قال فتحلف لكم يهود قالوا ليسوا مسلمين فوداه رسول الله من عنده فبعث إليهم مائة ناقة حتى أدخلت عليهم الدار
   سنن أبي داود4523سهل بن عبد اللهتأتوني بالبينة على من قتل هذا قالوا ما لنا بينة قال فيحلفون لكم قالوا لا نرضى بأيمان اليهود فكره نبي الله أن يبطل دمه فوداه مائة من إبل الصدقة
   سنن النسائى الصغرى4721سهل بن عبد اللهتقسمون خمسين يمينا أن اليهود قتلته قالوا وكيف نقسم على ما لم نر قال فتبرئكم اليهود بخمسين أنهم لم يقتلوه قالوا وكيف نرضى بأيمانهم وهم مشركون فوداه رسول الله من عنده
   سنن النسائى الصغرى4723سهل بن عبد اللهيحلفون لكم قالوا لا نرضى بأيمان اليهود وكره رسول الله أن يبطل دمه فوداه مائة من إبل الصدقة
   سنن النسائى الصغرى4714سهل بن عبد اللهتحلفون وتستحقون دم صاحبكم قالوا لا قال فتحلف لكم يهود قالوا ليسوا مسلمين فوداه رسول الله من عنده فبعث إليهم بمائة ناقة حتى أدخلت عليهم الدار
   سنن النسائى الصغرى4719سهل بن عبد اللهتحلفون بخمسين يمينا منكم وتستحقون قاتلكم أو صاحبكم فقالوا يا رسول الله كيف نحلف ولم نشهد ولم نر فقال أتبرئكم يهود بخمسين فقالوا يا رسول الله كيف نأخذ أيمان قوم كفار فعقله رسول الله من عنده
   سنن النسائى الصغرى4715سهل بن عبد اللهتحلفون وتستحقون دم صاحبكم قالوا لا قال فتحلف لكم يهود قالوا ليسوا بمسلمين فوداه رسول الله من عنده فبعث إليهم بمائة ناقة حتى أدخلت عليهم الدار
   سنن النسائى الصغرى4718سهل بن عبد اللهتحلفون بخمسين يمينا منكم فتستحقون دم صاحبكم أو قاتلكم قالوا يا رسول الله كيف نحلف ولم نشهد ولم نر قال تبرئكم يهود بخمسين يمينا قالوا يا رسول الله كيف نأخذ أيمان قوم كفار فعقله رسول الله من عنده
   سنن النسائى الصغرى4720سهل بن عبد اللهتحلفون خمسين يمينا فتستحقون قاتلكم قالوا كيف نحلف ولم نشهد ولم نحضر فقال رسول الله فتبرئكم يهود بخمسين يمينا قالوا يا رسول الله كيف نقبل أيمان قوم كفار قال فوداه
   سنن ابن ماجه2677سهل بن عبد اللهوداه رسول الله من عنده فبعث إليهم رسول الله مائة ناقة حتى أدخلت عليهم الدار
   بلوغ المرام1020سهل بن عبد الله‏‏‏‏اتحلفون وتستحقون دم صاحبكم؟ قالوا: لا قال: فيحلف لكم يهود؟ قالوا: ليسوا مسلمين
   مسندالحميدي407سهل بن عبد اللهالكبر الكبر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2677  
´قسامہ کا بیان۔`
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے بزرگوں سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی اللہ عنہما دونوں محتاجی کی وجہ سے جو ان کو لاحق تھی (روزگار کی تلاش میں) اس یہودی بستی خیبر کی طرف نکلے، محیصہ رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ قتل کر دئیے گئے ہیں، اور انہیں خیبر کے ایک گڑھے یا چشمے میں ڈال دیا گیا ہے، وہ یہودیوں کے پاس گئے، اور کہا: اللہ کی قسم، تم لوگوں نے ہی ان (عبداللہ بن سہل) کو قتل کیا ہے، وہ قسم کھا کر کہنے لگے کہ ہم نے ان کا قتل نہیں کیا ہے، اس کے بعد محیصہ رضی اللہ عنہ خیبر سے واپس اپنی قوم کے پاس پہنچے، اور ان سے اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2677]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
جب کوئی شخص قتل ہوجائے اور اس کے قاتلوں کا پتہ نہ چلے تو مدعی قبیلے کے پچاس آدمی مشکوک افراد کے بارے میں قسم کھائیں کہ یہ ہمارے قاتل ہیں۔
اگر وہ قسم کھالیں تو مدعا علیہم سے دیت دلوائی جائے گی۔
اگر یہ لوگ قسم نہ کھائیں تو مدعا علیہم میں سے پچاس آدمی یہ قسم کھائیں گے کہ ہم نے اسے قتل نہیں کیا، نہ ہم قاتل کو جانتے ہیں۔
اگر وہ قسم کھانے سے انکار کریں تو ان پر ضروری ہوگا کہ قاتل کو پیش کریں اور اگر وہ قسم کھا لیں تو وہ بری ہوجائیں گے اور ان سے دیت وصول نہیں کی جائے گی۔
اس صورت میں دیت بیت المال سے ادا کی جائے گی۔

(2)
قسم کھانےوالوں میں کوئی بچہ، عورت، غلام یا مجنون شامل نہیں ہونا چاہیے۔
اگر پچاس افراد کی تعداد مکمل نہ ہوسکے تو جتنے افراد موجود ہیں وہی پچاس قسموں کی تعداد پوری کریں۔ (حاشیة سنن ابن ماجة از محمد فؤاد عبدالباقی)

(3)
اہم معاملات میں بزرگوں کوبات کرنی چاہیے، نیز بزرگوں کو موجودگی میں نوجوانوں کو بات کرنے میں پہل نہیں کرنی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2677   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1020  
´دعویٰ خون اور قسامت`
سیدنا سہل بن ابی حثمہ نے اپنی قوم کے بڑے بزرگوں سے روایت بیان کی ہے کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اپنی تنگ دستی کی وجہ سے خیبر کی طرف نکلے۔ پس محیصہ نے آ کر اطلاع دی کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اور اسے ایک چشمہ میں پھینک دیا گیا ہے۔ محیصہ رضی اللہ عنہ یہود کے پاس آئے اور کہا کہ خدا کی قسم تم لوگوں نے اسے قتل کیا ہے۔ وہ بولے اللہ کی قسم ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ پھر محیصہ اور اس کا بھائی حویصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہم تینوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پہنچے اور محیصہ نے گفتگو کرنی چاہی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑے کو بات کرنے دو بڑے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد تھی جو تم میں عمر میں بڑا ہے (اسے بات کرنی چاہیئے) چنانچہ حویصہ رضی اللہ عنہ نے بیان دیا پھر محیصہ بولا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ یا تو تمہارے صاحب و ساتھی کی دیت ادا کریں گے یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔ پھر اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خط تحریر فرمایا جس کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ اللہ کی قسم ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل (رضی اللہ عنہم) سے فرمایا کیا تم لوگ قسم کھا کر اپنے صاحب کے خون کے حقدار بنو گے؟ انہوں نے جواب دیا۔ نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم کو یہودی قسم دیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ تو مسلمان نہیں ہیں (اس لئے ان کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں) پس پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت اپنے پاس (بیت المال) سے دی اور ان کو سو اونٹنیاں بھیج دیں۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ان میں سے ایک سرخ رنگ کی اونٹنی نے مجھے لات ماری۔ (بخاری و مسلم)۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1020»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأحكام، باب كتاب الحاكم إلي عماله والقاضي إلي أمنائه، حديث:7192، ومسلم، القسامة والمحاربين....، باب القسامة، حديث:1669.»
تشریح:
1. اس حدیث سے قسامت کا ثبوت ملتا ہے۔
2.قسامت یہ ہے کہ قاتل کا کسی طرح پتہ نہ چلنے کی وجہ سے مشتبہ اشخاص سے قسم لی جائے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا اور انھیں اس کے قاتل کا علم بھی نہیں۔
3. یہ طریقہ دور جاہلیت میں بھی تھا‘ اسلام نے اسے جائز رکھا۔
4. اس میں پچاس آدمیوں کی قسمیہ شہادت ہوتی ہے کہ ہم نے یا ہمارے قبیلے نے یا ہمارے گاؤں کے لوگوں نے اسے قتل نہیں کیا۔
5. معلوم رہے کہ یہ قسم صرف خون کے مقدمے میں ہوتی ہے‘ باقی حدود کے مقدمات میں ایسی قسمیہ شہادت قبول نہیں ہوتی۔
6. قسامت میں اگر مقتول کے اولیاء و ورثاء ثبوت پیش کردیں یا عدم ثبوت کی صورت میں قسم دے دیں کہ ہمارے مقتول کے قاتل یہی ہیں تو مدعا علیہ پر دیت لازم ہو جاتی ہے۔
اگر مدعی ان دونوں باتوں سے قاصر ہوں اور مدعا علیہ یا مدعا علیہم پچاس قسمیں دے دیں تو وہ بری ہو جاتے ہیں۔
7.قسمیں ان حضرات کی تسلیم ہوں گی جن کو مدعی منتخب کرے۔
8. اس حدیث سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ اجتماعی معاملات کی بابت عمررسیدہ کو بات پہلے کرنی چاہیے۔
9. قسامت والے معاملے میں پہلے قسم مقتول کے اولیاء کے ذمے ہوگی‘ اگر وہ گریز اور اعراض کریں تو پھر جن پر دعویٰ دائر کیا گیا ہے وہ قسم کھا لیں گے اور بری ہو جائیں گے اور ان پر کسی قسم کی کوئی چیز عائد نہیں ہوگی اور اگر قسمیں نہیں کھائیں گے تو ان پر دیت لازم ہو گی۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ عبداللہ بن سہل بن زید بن کعب بن عامر انصاری حارثی۔
خیبر میں قتل کیے گئے اور ایک چشمہ میں پائے گئے کہ ان کی گردن توڑ دی گئی تھی۔
«حضرت مُحَیِّصہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابوسعید محیصہ بن مسعود بن کعب حارثی انصاری مدنی۔
عبداللہ بن سہل مقتول کے چچا زاد بھائی تھے۔
مشہور و معروف صحابی ہیں۔
ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا۔
احد و خندق کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فدک کی طرف بھیجا تھا تاکہ اہل فدک کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔
«حضرت حُوَیِّصَہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ محیصہ کے سگے بڑے بھائی ہیں۔
۳ ہجری میں اسلام قبول کیا۔
اُحد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔
«حضرت عبدالرحمن بن سہل رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ یہ عبداللہ بن سہل کے بھائی تھے۔
ان کی والدہ کا نام لیلیٰ بنت نافع بن عامر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ بدر و احد اور باقی تمام غزوات میں شریک رہے۔
یہ وہ صاحب تھے جنھیں سانپ نے ڈس لیا تھا۔
حضرت عُمارہ بن حزم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق انھیں جھاڑ پھونک کی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اصابہ میں اس کی بابت تردد کا اظہار کیا ہے اور اسے بعید تصور کیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1020   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1638  
´ایک شخص کو کتنی زکاۃ دی جائے؟`
بشیر بن یسار کہتے ہیں کہ انصار کے ایک آدمی نے انہیں خبر دی جس کا نام سہل بن ابی حثمہ تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقے کے اونٹوں میں سے سو اونٹ ان کو دیت کے دیئے یعنی اس انصاری کی دیت جو خیبر میں قتل کیا گیا تھا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1638]
1638. اردو حاشیہ: اس کی تفصیل آگے (باب القسامۃ) میں آئے گی۔کہ عبد اللہ بن سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ خیبر میں قتل کردیئے گئے تھے۔تورسول اللہ ﷺ نے ان کی دیت ادافرمائی تھی۔اس سے استدلال یہ ہے کہ امیر یا صاحب صدقہ کو رخصت ہے کہ مستحقین کو صدقہ کے مال سے اتنا وے سکتے ہیں کہ حقدار کا حق پوراادا ہوجائے اور محتاج غنی ہوجائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1638   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.