وحدثني يحيي بن ايوب ، وعمرو الناقد ، وزهير بن حرب جميعا، عن ابن علية ، واللفظ لعمرو، قال: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ايوب ، عن محمد ، عن انس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يوم النحر من كان ذبح قبل الصلاة فليعد "، فقام رجل، فقال: يا رسول الله، هذا يوم يشتهى فيه اللحم، وذكر هنة من جيرانه كان رسول الله صلى الله عليه وسلم صدقه، قال: وعندي جذعة هي احب إلي من شاتي لحم افاذبحها؟، قال: فرخص له، فقال: لا ادري ابلغت رخصته من سواه ام لا، قال: " وانكفا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى كبشين، فذبحهما فقام الناس إلى غنيمة، فتوزعوها او قال فتجزعوها ".وحَدَّثَنِي يَحْيَي بْنُ أَيُّوبَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جَمِيعًا، عَنِ ابْنِ عُلَيَّةَ ، وَاللَّفْظُ لِعَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَوْمَ النَّحْرِ مَنْ كَانَ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَلْيُعِدْ "، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا يَوْمٌ يُشْتَهَى فِيهِ اللَّحْمُ، وَذَكَرَ هَنَةً مِنْ جِيرَانِهِ كَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَّقَهُ، قَالَ: وَعِنْدِي جَذَعَةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ أَفَأَذْبَحُهَا؟، قَالَ: فَرَخَّصَ لَهُ، فَقَالَ: لَا أَدْرِي أَبَلَغَتْ رُخْصَتُهُ مَنْ سِوَاهُ أَمْ لَا، قَالَ: " وَانْكَفَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى كَبْشَيْنِ، فَذَبَحَهُمَا فَقَامَ النَّاسُ إِلَى غُنَيْمَةٍ، فَتَوَزَّعُوهَا أَوَ قَالَ فَتَجَزَّعُوهَا ".
اسماعیل بن ابرا ہیم (ابن علیہ) نے ایوب سے، انھوں نے محمد (بن سیرین) سے انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن فرمایا: " جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی کر لی ہے وہ پھر اسے کرے۔" تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ ایسا دن ہے کہ اس میں گوشت کی خواہش ہو تی ہے۔ اس نے اپنے ہمسایوں کی ضرورت مندی کا بھی ذکر کیا۔ (ایسا لگا) جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تصدیق کی ہو۔ اس نے (مزید) کہا: اور میرے پاس ایک سالہ بکری ہے وہ مجھے گو شت والی دوبکریوں سے زیادہ پسند ہے کیا میں اسے ذبح کردوں؟کہا: آپ نے اسے اس کی اجازت دے دی۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: مجھے معلوم نہیں کہ آپ کی دی ہو ئی رخصت اس (شخص) کے علاوہ دوسروں کے لیے بھی ہے یا نہیں؟پھر) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھوں کا رخ کیا اور ان کو ذبحفرمایا۔لوگ کھڑے ہو کر بکریوں کے ایک چھوٹے سے ریوڑ کی طرف متوجہ ہو ئے اور اس کو آپس میں تقسیم کرلیا۔۔۔یا کہا: اس کے حصے کر لیے۔۔۔۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن فرمایا: ”جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر دی ہے، وہ دوبارہ قربانی کرے۔“ تو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا، اے اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے، (جس کے آغاز میں) گوشت کی طلب و خواہش ہوتی ہے اور اس نے پڑوسیوں کی ضرورت کا تذکرہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سچا مان لیا، اس نے کہا، میرے پاس ایک جَذَعة
من ذبح قبل الصلاة فليعد فقال رجل هذا يوم يشتهى فيه اللحم وذكر هنة من جيرانه فكأن النبي عذره وعندي جذعة خير من شاتين فرخص له النبي فلا أدري بلغت الرخصة أم لا ثم انكفأ إلى كبشين يعني فذبحهما ثم انكفأ الناس إلى غنيمة فذب
من ذبح قبل الصلاة فليعد فقام رجل فقال هذا يوم يشتهى فيه اللحم وذكر من جيرانه فكأن النبي صدقه قال وعندي جذعة أحب إلي من شاتي لحم فرخص له النبي فلا أدري أبلغت الرخصة من سواه أم لا
من كان ذبح قبل الصلاة فليعد فقام رجل فقال يا رسول الله إن هذا يوم يشتهى فيه اللحم وذكر جيرانه وعندي جذعة خير من شاتي لحم فرخص له في ذلك فلا أدري بلغت الرخصة من سواه أم لا ثم انكفأ النبي إلى كبشين فذبحهما وقام الناس إلى غنيمة فتوزعوها أو
من كان ذبح قبل الصلاة فليعد فقام رجل فقال يا رسول الله هذا يوم يشتهى فيه اللحم وذكر هنة من جيرانه كأن رسول الله صدقه قال وعندي جذعة هي أحب إلي من شاتي لحم أفأذبحها قال فرخص له فقال لا أدري أبلغت رخصته من سواه أم لا قال وانكفأ رسول الله
من كان ذبح قبل الصلاة فليعد فقام رجل فقال يا رسول الله هذا يوم يشتهى فيه اللحم فذكر هنة من جيرانه كأن رسول الله صدقه قال عندي جذعة هي أحب إلي من شاتي لحم فرخص له فلا أدري أبلغت رخصته من سواه أم لا ثم انكفأ إلى كبشين فذبحهما
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3151
´نماز عید سے پہلے قربانی کی ممانعت۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے قربانی کے دن قربانی کر لی یعنی نماز عید سے پہلے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3151]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نماز سے مراد عید کی نماز ہے۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہےانھوں نے فرمایا: عیدالاضحی کے دن نبیﷺ باہر (عید گاہ میں) تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز عید ادا فرمائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اس دن ہماری پہلی عبادت یہ ہے کہ پہلے نمازپڑھیں پھر (عیدگاہ سے) واپس جاکر جانور ذبح کریں۔ (صحیح البخاری، العیدین، باب استقبال الإمام الناس فی خطبة العید، حدیث: 976)
(2) عید کی نماز سے پہلے کی گئی قربانی کی حیثیت عام گوشت کی ہے۔ ایسے شخص کو قربانی کا ثواب نہیں ملے گا۔
(3) ثواب کا دارومدار عمل کے سنت کے مطابق ہونے پر ہے۔
(4) کوئی شخص غلطی سے نماز سے پہلے قربانی کرلے تو دوسرا جانور میسر ہونے کی صورت میں اسے نماز عید کے بعد دوسرا جانور قربان کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3151
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5079
1
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: تَوَزَّعُوا يا تَجَزَّعُوا: دونوں ہم معنی لفظ ہیں، مقصد یہ ہےکہ انہوں نے ریوڑ کی بکریاں آپس میں بانٹ کر ذبح کرلیں۔ فوائد ومسائل: ائمہ اربعہ کے نزدیک بالاتفاق، جَذَعه بکری کی قربانی حضرت ابوبردہ کے لیے خاص تھی اور کوئی انسان جَذَعه بکری قربانی کی صورت میں ذبح نہیں کر سکتا۔