الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
فتنے اور علامات قیامت
4. باب إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا:
4. باب: دو مسلمانوں کی تلواروں کے ساتھ باہم لڑائی کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 7252
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني ابو كامل فضيل بن حسين الجحدري ، حدثنا حماد بن زيد ، عن ايوب ، ويونس ، عن الحسن ، عن الاحنف بن قيس ، قال: خرجت وانا اريد هذا الرجل فلقيني ابو بكرة ، فقال: اين تريد يا احنف؟ قال: قلت: اريد نصر ابن عم رسول الله صلى الله عليه وسلم يعني عليا، قال: فقال لي: يا احنف ارجع، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إذا تواجه المسلمان بسيفيهما، فالقاتل والمقتول في النار "، قال: فقلت: او قيل: يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول؟، قال: " إنه قد اراد قتل صاحبه ".حَدَّثَنِي أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، وَيُونُسَ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: خَرَجْتُ وَأَنَا أُرِيدُ هَذَا الرَّجُلَ فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرَةَ ، فَقَالَ: أَيْنَ تُرِيدُ يَا أَحْنَفُ؟ قَالَ: قُلْتُ: أُرِيدُ نَصْرَ ابْنِ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي عَلِيًّا، قَالَ: فَقَالَ لِي: يَا أَحْنَفُ ارْجِعْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ "، قَالَ: فَقُلْتُ: أَوْ قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟، قَالَ: " إِنَّهُ قَدْ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ ".
ابو کامل فضیل بن حسین جحدری نے مجھے حدیث بیان کی کہا: ہمیں حماد بن زید نے ایوب اور یونس سے حدیث بیان کی انھوں نے احنف بن قیس سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں (گھر سے) اس شخص (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل ہونے) کے ارادے سے نکلا تو مجھے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ملے۔انھوں نے پوچھا: احنف! کہاں کاارداہ ہے؟کہا: میں نے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عم زادیعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نصرت کرنا چاہتا ہوں۔کہا تو انھوں نے مجھ سے کہا: احنف!لوٹ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناتھا آپ فرمارہے تھے "جب دومسلمان اپنی اپنی تلواروں کے ساتھ آمنے سامنے آجائیں تو قاتل اور مقتول دونوں (جہنم کی) آگ میں ہوں گے۔"کہا: تو میں نے عرض کی۔ یا کہاگیا۔اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ تو قاتل ہوا (لیکن) مقتول کا یہ حال کیوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس نے (بھی) اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا ارداہ کر لیاتھا۔
احنف بن قیس رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں اس آدمی (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی مدد کے لیے نکلا تو مجھے حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے کہنے لگے کہاں کا ارادہ ہے اے احنف؟میں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدد کرنا چاہتا ہوں تو انھوں نے مجھے کہا، اے احنف!واپس لوٹ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا،"جب دو مسلمان تلواریں سونت کر ایک دوسرے کے مقابلہ میں آ جاتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی بنتے ہیں میں نے پوچھا یاپوچھا گیا، اے اللہ کے رسول اللہ!یہ قاتل ہے(اس کا جہنمی ہونا تو ٹھیک ہے) تو مقتول کی یہ حالت کیوں؟آپ نے فرمایا:"وہ بھی تو اپنےساتھی کو قتل کرنا چاہتا تھا۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2888

   صحيح البخاري7083نفيع بن الحارثإذا تواجه المسلمان بسيفيهما فكلاهما من أهل النار قيل فهذا القاتل فما بال المقتول قال إنه أراد قتل صاحبه
   صحيح البخاري30نفيع بن الحارثإذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار فقلت يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه كان حريصا على قتل صاحبه
   صحيح البخاري6875نفيع بن الحارثإذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار قلت يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه كان حريصا على قتل صاحبه
   صحيح مسلم7253نفيع بن الحارثإذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار
   صحيح مسلم7252نفيع بن الحارثإذا تواجه المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار قال فقلت أو قيل يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه قد أراد قتل صاحبه
   صحيح مسلم7255نفيع بن الحارثالمسلمان حمل أحدهما على أخيه السلاح فهما على جرف جهنم فإذا قتل أحدهما صاحبه دخلاها جميعا
   سنن أبي داود4268نفيع بن الحارثإذا تواجه المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار قال يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه أراد قتل صاحبه
   سنن النسائى الصغرى4128نفيع بن الحارثإذا التقى المسلمان بسيفيهما فقتل أحدهما صاحبه فالقاتل والمقتول في النار
   سنن النسائى الصغرى4127نفيع بن الحارثإذا تواجه المسلمان بسيفيهما فقتل أحدهما صاحبه فالقاتل والمقتول في النار قالوا يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه أراد قتل صاحبه
   سنن النسائى الصغرى4126نفيع بن الحارثإذا التقى المسلمان بسيفيهما فقتل أحدهما صاحبه فالقاتل والمقتول في النار
   سنن النسائى الصغرى4125نفيع بن الحارثإذا تواجه المسلمان بسيفيهما كل واحد منهما يريد قتل صاحبه فهما في النار قيل له يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه كان حريصا على قتل صاحبه
   سنن النسائى الصغرى4121نفيع بن الحارثالمسلم على أخيه المسلم بالسلاح فهما على جرف جهنم فإذا قتله خرا جميعا فيها
   سنن ابن ماجه3965نفيع بن الحارثالمسلمان حمل أحدهما على أخيه السلاح فهما على جرف جهنم فإذا قتل أحدهما صاحبه دخلاها جميعا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 30  
´حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرتے وقت اس کا موقع محل بھی ضروری مدنظر رکھنا چاہئیے`
«. . . سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الْقَاتِلُ، فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ: إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! قاتل تو خیر (ضرور دوزخی ہونا چاہیے) مقتول کیوں؟ فرمایا وہ بھی اپنے ساتھی کو مار ڈالنے کی حرص رکھتا تھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 30]

تشریح:
اس بات کا مقصد خوارج اور معتزلہ کی تردید ہے جو کبیرہ گناہ کے مرتکب کو کافر قرار دیتے ہیں۔ احنف بن قیس جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مددگاروں میں تھے۔ جب ابوبکرہ نے ان کو یہ حدیث سنائی تو وہ لوٹ گئے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابوبکرہ نے اس حدیث کو مطلق رکھا۔ حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب بلاوجہ شرعی دو مسلمان ناحق لڑیں اور حق پر لڑنے کی قرآن میں خود اجازت ہے۔ جیسا کہ آیت «فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى» [الحجرات: 9] سے ظاہر ہے اس لیے احنف اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے اور انہوں نے ابوبکرہ کی رائے پر عمل نہیں کیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرتے وقت اس کا موقع محل بھی ضروری مدنظر رکھنا چاہئیے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 30   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3965  
´جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم بھڑ جائیں تو ان کے حکم کا بیان۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو مسلمان ایک دوسرے پر ہتھیار اٹھاتے ہیں تو وہ جہنم کے کنارے پر ہوتے ہیں، پھر جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں ایک ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3965]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جہنم کے کنارے پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس غلطی کی وجہ سے ان دونوں کے جہنمی ہونے کا خطرہ ہوتا ہے لیکن ان کے لیے جہنم سے بچنے کا موقع باقی ہوتا ہے کہ لڑائی سے باز آجائیں۔

(2)
مومن کا قتل جہنم میں پہنچانے والا عمل ہے البتہ توبہ یا قصاص سے یہ گناہ معاف ہوسکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3965   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4268  
´فتنہ و فساد کے دنوں میں لڑائی کرنا منع ہے۔`
احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں لڑائی کے ارادہ سے نکلا (تاکہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑوں) تو مجھے (راستہ میں) ابوبکرہ رضی اللہ عنہ مل گئے، انہوں نے کہا: تم لوٹ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جب دو مسلمان اپنی تلوار لے کر ایک دوسرے کو مارنے اٹھیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قاتل (کا جہنم میں جانا) تو سمجھ میں آتا ہے لیکن کا حال ایسا کیوں ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہا تھا۔‏‏‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الفتن والملاحم /حدیث: 4268]
فوائد ومسائل:
1) جب معاملہ کوئی واضح اور صریح نہ ہو اور دونوں جانب حق کا ایک پہلو موجود ہو تو ایسی صورت می الگ تھلگ رہنا مفید تر ہو تا ہے۔

2) اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔
جب دو شخص برسرِ پیکار ہوں معاملے اور نیتوں میں واضح فرق نہ ہو تو مقتول بھی قاتل کی طرح کہا گیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ایک کا داؤ چل گیا اور دوسرا گھائل ہو گیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4268   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7252  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
اگر دو آدمی بلاضرورت ایک دوسرے کے قتل کے درپے ہیں تو دونوں ہی اگر اللہ نے انہیں معاف نہ فرمایا تو سزا بھگتنے کے لیے دوزخ میں جائیں گے،
لیکن اگر ان میں سے ایک محض اپنے دفعہ کے لیے تلوار اٹھاتا ہے،
دوسرے کو قتل کرنا مقصود نہیں ہے تو پھر وہ معذور ہوگا،
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ چونکہ حضرت علی اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی باہمی جنگ،
جنگ جمل کو خانہ جنگی اور نقصان کا باعث سمجھتے تھے،
اس لیے انہوں نے احنف کو کسی ایک کا ساتھ دینے سے روکا،
لیکن احنف چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حق پر خیال کرتے تھے،
اس لیے وہ بعد میں ان کے ساتھ شریک ہو گئے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 7252   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.