الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند الحميدي کل احادیث 1337 :حدیث نمبر
مسند الحميدي
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر: 28
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
28 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا يحيي بن سعيد، اخبرني محمد بن إبراهيم التيمي انه سمع علقمة بن وقاص الليثي يقول: سمعت عمر بن الخطاب علي المنبر يخبر بذلك عن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول: «إنما الاعمال بالنيات، وإنما لكل امرئ ما نوي، فمن كانت هجرته إلي الله ورسوله، فهجرته إلي الله ورسوله، ومن كانت هجرته إلي دنيا يصيبها او إلي امراة ينكحها، فهجرته إلي ما هاجر إليه» 28 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَلَي الْمِنْبَرِ يُخْبِرُ بِذَلِكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَي، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَي اللَّهِ وَرَسُولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إِلَي اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَي دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَي امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَي مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ»
28- علقمہ بن وقاص لیثی بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کرتے ہوئے سنا: وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشا فرماتے ہوئے سنا ہے: اعمال (کی جزا) کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو وہی جزا ملے گی جو اس نے نیت کی ہوگی، تو جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوگی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف شمار ہوگی اور جس شخص کی ہجرت دنیا کے لیے ہوگی تاکہ وہ اسے حاصل کرلے یا کسی عورت کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے ہوگی، تو اس کی ہجرت اسی طرف شمار ہوگی، جس کی طرف نیت کرکے اس نے ہجرت کی تھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه البخاري 1، 2529، والبيهقي: 341/7، والقضاعي فى مسنده الشهاب: 1172، ومسلم: 1907، وابوداود: 2201»

   صحيح البخاري2529عمر بن الخطابالأعمال بالنية ولامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   صحيح البخاري6689عمر بن الخطابإنما الأعمال بالنية وإنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   صحيح البخاري5070عمر بن الخطابالعمل بالنية وإنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   صحيح البخاري6953عمر بن الخطابالأعمال بالنية وإنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن هاجر إلى دنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   صحيح البخاري54عمر بن الخطابالأعمال بالنية ولكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   صحيح البخاري3898عمر بن الخطابالأعمال بالنية فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه ومن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله
   صحيح البخاري1عمر بن الخطابإنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو إلى امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   صحيح مسلم4927عمر بن الخطابالأعمال بالنية وإنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   جامع الترمذي1647عمر بن الخطابالأعمال بالنية وإنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله وإلى رسوله فهجرته إلى الله وإلى رسوله ومن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   سنن أبي داود2201عمر بن الخطابالأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   سنن النسائى الصغرى3825عمر بن الخطابإنما الأعمال بالنية وإنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   سنن النسائى الصغرى75عمر بن الخطابإنما الأعمال بالنية وإنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله وإلى رسوله فهجرته إلى الله وإلى رسوله ومن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   سنن النسائى الصغرى3467عمر بن الخطابإنما الأعمال بالنية وإنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   سنن ابن ماجه4227عمر بن الخطابإنما الأعمال بالنيات ولكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله وإلى رسوله فهجرته إلى الله وإلى رسوله ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   مشكوة المصابيح1عمر بن الخطابإنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو إلى امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   مسندالحميدي28عمر بن الخطابإنما الأعمال بالنيات، وإنما لكل امرئ ما نوى، فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله، فهجرته إلى الله ورسوله، ومن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو إلى امرأة ينكحها، فهجرته إلى ما هاجر إليه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:28  
28- علقمہ بن وقاص لیثی بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کرتے ہوئے سنا: وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشا فرماتے ہوئے سنا ہے: اعمال (کی جزا) کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو وہی جزا ملے گی جو اس نے نیت کی ہوگی، تو جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوگی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف شمار ہوگی اور جس شخص کی ہجرت دنیا کے لیے ہوگی تاکہ وہ اسے حاصل کرلے یا کسی عورت کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے ہوگی، تو اس کی ہجرت اسی طرف شمار ہوگ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:28]
فائدہ:
اس مبارک حدیث کی شرح ہم نے اپنی شرح صحیح مسلم اور شرح صحیح البخاری میں کر دی ہے۔ یہاں شرح صحیح البخاری سے کچھ فوائد نقل کر رہے ہیں۔
امام ابن عساکر نے اس حدیث کو اہمیت دیتے ہوئے اپنی کتاب اربعین میں اس باب کے تحت نقل کیا ہے: «البلد الاول مكة اولا التعريف بالبلد مكة حرسها الله تعالٰى وهى البلد الامين ثانيا الحديث راويــــه» ‏‏‏‏ (ص: 28) ابن عساکر نے اپنے شیخ عبداللہ بن محمد بن اسماعیل المکی سے یہ حدیث مکہ میں بیت اللہ کے سامنے باب ابراہیم خلیل کی طرف بیٹھ کر سنی اور پھر اسی سند میں ہے کہ کریمہ بنت احمد نے یہ حدیث مکہ میں ہی بیان کی۔ علامہ بغدادی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ ابو سلیمان بن اشعث نے کہا کہ فقہ کا دارو مدار ہے ان میں ایک «انما الاعمال بالنيات» بھی ہے۔ (الجامع لاخلاق الراوى: ج 5 ص 174)
امام ابن المنذ راس حدیث پر بحث کرتے ہوۓ لکھتے ہیں: «لايجزى التيمم ولا اداء شيء من الفرائض الا بنية» (الاوسط، ج 2، ص: 155) خطيب بغدادی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا: فقہ کے ستر ابواب میں یہ حدیث داخل ہوتی ہے۔ (الـجـامع لاخلاق الراوي، ج 5، ص 175)
نیت کی اہمیت: ابن مبارک کے شیخ جعفر بن حیان نے کہا: «مـلاك هـذه الاعمال النيات فان الرجل يبلغ بنيته مالا يبلغ بعمله» (الزهد للمروزي:ص63)
تنبیہ: یہ حدیث صرف سیدنا عمر رضي الله عنه سے مروی ہے۔ عبدالمجید بن عبدالعزیز بن ابی رواد نے غلطی کرتے ہوئے اس کو ابوسعید خدری سے بیان کر دیا ہے۔ (الارشـاد لـلـخـليلي: ج 1 ص 133 - 167، اعـلام الـحديث للخطابی: ج 1ص: 111، حلية الاولياء، ج 6 ص 342) اور یہ بات باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں۔ جیسا کہ ابوحاتم (عـلـل الحديث ح: 362) نے اس کو باطل کہا ہے اور دیگر محدثین کے تبصرے پڑھنے کے لیے (الارشادات في تقوية الاحاديث بالشواهد والمتابعات ص 209) کا مطالعہ کریں۔
تنبیہ: تمام طرق میں مرکزی راوی یحییٰ بن سعید ہے لیکن سہل بن صقیر نے اس کو، دراوردی، ابن عیینہ اور انس بن عیاض کے واسطے سے محمد بن عمر و بن علقمہ عن محمد بن ابراہیم سے روایت کیا ہے حالانکہ مذکورہ تینوں راوی اس حدیث کو یحییٰ بن سعید سے ہی بیان کرتے ہیں یہ سہل بن صقیر کی فاش غلطی ہے۔(علل الدار قطنی، ج 2، ص 192)
فقہ السنہ:
① محمد بن ابراہیم تیمی ثقہ مشہور راوی ہے اس کے باوجود امام احمد نے ان کے متعلق کہا: یروی احادیث منكرة، حالانکہ یہ انما الاعمال بالنیات کا مرکزی راوی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے امام احمد تفرد پر بھی منکر کا اطلاق کر دیتے ہیں یعنی یہ راوی حدیث بیان کرنے میں اکیلا ہے۔ فـافهـم (الـرفـع والتـكـميل، ص 13)
② يحيى بن سعيد الانصاری سے بے شمار راوی اس حدیث کو بیان کرتے ہیں، مثلاً: ابن عیینہ، یزید بن ہارون، ما لک، سفیان ثوری، حماد بن زید، عبدالوہاب، لیث بن سعد، ابوخالد الاحمر حفص بن غیاث، عبداللہ بن مبارک (المسند الجامع المعلل، ج: 33، ص: 45) سفیان ثوری، حماد بن سلمہ،شعبہ، یحییٰ بن سعید القطان، ایک مخلوق جن کا شمار ناممکن ہے، محمد بن علی الخشاب نے کہا: اس حدیث کویحییٰ بن سعید الانصاری سے دوسو پچاس راوی بیان کرتے ہیں۔ امام ابوعبداللہ انصاری کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث کی بن سعید الانصاری کے سات سو شاگردوں سے بھی ہے۔ (البـدر الـمـنـيـر لابـن الـمـلقن، 654/1، 655) اس پر حافظ ابن حجر تبصرہ کرتے ہیں کہ میں اس کو صحیح نہیں سمجھتا اور فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے حدیث کو طلب کر نا شروع کیا ہے اس وقت سے لے کر اب تک میں جمع کرتا رہا ہوں میں سو بھی مکمل نہیں کر سکا۔ (فتـح الباری: 11/1) ابن الملقن نے اس کی بہت عمدہ شرح بھی کی ہے۔ (البدر المنير لابن الملقن: 654/1، 665) (3) سید نا عمر سے صرف علقمہ بیان کرتے ہیں اور علاقمہ سے صرف محمد بن ابراہیم اوران سے صرف یحیی بن سعید الانصاری بیان کرتے ہیں۔ ان سے آگے بے شمار لوگ بیان کرتے ہیں۔ اس کو بالجزم بیان کیا ہے ترمذی، نسائی، بزار، ابن سکن، اور الکنانی نے۔ (فتح الباری: 11/1) علامہ خطابی نے کہا ہے حدیث صرف اسی سند سے ہی پہچانی جاتی ہے اس کے علاوہ اس کی کوئی سند نہیں ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ بات اسی طرح ہے جس طرح انھوں نے کہی ہے مگر دو قیود کے ساتھ پہلی قید: صحیح ہونا کیونکہ یہ حدیث کئی معلول طرق سے بھی مروی ہے جن کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاۓ گا۔ دوسری قید: سیاق کے اعتبار سے اس کے معنی میں بے شمار روایات موجود ہیں جو مطلق کے متعلق ہیں مثلاًً: «مـن قـاتـل لتكون كلمة الله هي العليا فهو فى سبيل الله» ۔ اس طرح نیت کے متعلق بے شمار روایات صحیح ثابت ہیں۔ لیکن «انما الاعمال بالنيات» کے سیاق سے صرف ایک ہی ہے۔ (فتح الباری: 11/1) ابن مندہ نے اس حدیث کو کئی ایک صحابہ کرام رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمْ سے روایت ہونے کا دعوی کیا ہے۔ (الـمـعـرفة لابن منده بحواله البدر المنير لابن الملقن: 656/1) جو کہ درست نہیں۔ اسی طرح انھوں نے متابعات بھی ذکر کیے ہیں جو کہ ثابت نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ابن مندہ کی سی تحقیق معتبر محدثین کے خلاف ہے۔ راجح بات یہی ہے کہ یحییٰ بن سعید الانصاری تک یہ سند منفرد ہی ہے اور «انما الاعمال بالنيات» کے سیاق سے صرف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے۔ علامہ فاکہانی لکھتے ہیں: «قد روى مـن حـديـث ابي سعيد الخدري وابي هريرة وابن عباس وابن عمر و معاوية وقالوا: لا يصح مسندا الا من حديث عمر بن الخطاب» (رياض الاحكام شرح عمدة الاحكام: 15/1) تحقیق یہ حدیث سیدنا ابوسعید الخدری، سیدنا ابو ہریرہ، سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن عمر اور سیدنا معاویہ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمْ سے روایت کی گئی ہے اور محدثین نے کہا ہے کہ مسند صرف سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی سے صحيح ثابت نہیں
اصول حدیث: اس حدیث سے ثابت ہونے والے اصول:
SG پہلا اصول ...... EG EG ابواسحاق الا بناس (المتوفى: 802) کہتے ہیں کہ امام ترمذی کے نزدیک حسن یہ ہے کہ وہ روایت کسی دوسری سند سے بھی مروی ہے، یہ شرط صیح حدیث میں نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو حدیث صحيح ہوگی امام تر مذی رحمہ اللہ کے نزدیک وہ حسن نہیں ہوگی جیسے «انما الاعمال بالنيات» ہے۔ یہ بیج ہے اس کی دوسری سند نہیں ہے اس لیے امام ترمذی کے نزدیک یہ حسن نہیں ہو گی۔ (الشذ الفياح من مقدمه ابن الصلاح: 126/1)
SG دوسرا اصول ... EG صحیح حدیث کے لیے دو سندوں کا ہونا شرط لگانا درست نہیں ہے بلکہ ایک سند بھی ہو لیکن وہ صحیح ہو تو اس حدیث کا قبول کرنا فرض ہے۔
SG تیسرا اصول ... EG خبر واحد جو صحيح ثابت ہو وہ یقین کا فائدہ دیتی ہے نہ کہ ظن کا جس طرح بعض نے باور کروایا ہے۔ یاد رہے جو بھی حدیث صحیح ثابت ہو جاۓ وہ یقین کا فائدہ دیتی ہے خصوصاً صحیح بخاری و صحيح مسلم کی احادیث صحیح ہیں اور علم یقین کا فائدہ دیتی ہیں۔ تفصیل کے لیے (احادیث الصحیحین بین الظن والیقین لحافظ ثناءاللہ الزاہدی)
SG چوتھا اصول: ... EG امام ترمذی جس حدیث کو حسن صحیح کہیں اس کا مطلب راجح قول کے مطابق یہ بیان کیا جا تا ہے کہ اس حدیث کی دو سندیں ہیں ایک صحیح ہے اور دوسری حسن یا اس کو بعض محدثین نے صحیح کہا ہے اور بعض نے حسن۔ لیکن حدیث «انما الاعمال بالنيات» کوبھی امام ترمذی رَحِمَهُ ٱللَّٰهُ نے حسن صیح کہا ہے اور یہ خود قرار بھی کیا ہے کہ لانعرفه الا من حديث يحيى بن سعيد الانصاری۔ (سنن الترمذی: 1647) راقم کی نظر میں اس کو کسی بھی محدث نے حسن نہیں کہا اور اس کی سند بھی ایک ہے اس کے باوجود امام ترمذی صاحب اس کوحسن صحيح فرما رہے ہیں!!! تو کہنا پڑے گا کہ یہ امام ترمذی کی اپنی خاص اصطلاح ہے۔
اس حدیث کا ذکر صیح بخاری پر لکھے ہوۓ مستدرکات میں نہیں ملا۔ BH فائدہ BE:امام بخاری نے یہ حدیث اپنے شیخ امام حمیدی سے بیان کی اور امام حمیدی اس حدیث کو اپنی مسند (28) میں لائے ہیں۔ یادر ہے کہ مسند حمیدی میں «فـمـن كـانـت هـجـرته الى الله ورسوله فهجرته الى الله ورسوله» الفاظ موجود ہیں لیکن امام بخاری رحمہ اللہ ان کو نہیں لائے۔ اور امام بخاری نے اس حدیث کو امام حمیدی رحمہ اللہ ہی کی سند سے بیان کیا ہے۔ علامہ خطابی کہتے ہیں امام حمیدی رحمہ اللہ کے بعض اثبات شاگردوں نے اس زیادتی کو بیان کیا ہے، ابو یحی بن ابی میسرہ اور بشر بن موسیٰ۔ دیکھیے (اعلام الحدیث فی شرح صحيح البخاري للخطابي: 109/1) اور بطور فائدہ عرض ہے کہ چونکہ امام بخاری رَحِمَهُ ٱللَّٰهُ اختصار کے قائل تھے اس لیے انھوں نے اختصار سے کام لیتے ہوئے امام حمیدی رَحِمَهُ ٱللَّٰهُ سے یہ لفظ چھوڑ دیے ہیں اور اپنے استاد عبداللہ بن مسلمہ سے جب یہ روایت بیان کی ہے تب یہ الفاظ بھی بیان کر دیے ہیں۔ دیکھیے (صحیح البخاری: 54)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث\صفحہ نمبر: 28   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.