الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
ابواب: جن چیزوں سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور جن سے نہیں ہوتا
Mention When Ghusal (A Purifying Bath) Is Obligatory And When It Is Not
134. بَابُ : ذِكْرِ الاِغْتِسَالِ مِنَ الْحَيْضِ
134. باب: حیض سے غسل کرنے کا بیان۔
Chapter: Mention Of Ghusl After Menstruation
حدیث نمبر: 201
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمران بن يزيد، قال: حدثنا إسماعيل بن عبد الله العدوي، قال: حدثنا الاوزاعي، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: حدثني هشام بن عروة، عن عروة، عن فاطمة بنت قيس من بني اسد قريش، انها اتت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت انها تستحاض، فزعمت انه، قال لها:" إنما ذلك عرق، فإذا اقبلت الحيضة فدعي الصلاة، وإذا ادبرت فاغسلي عنك الدم ثم صلى".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ يَزِيدَ، قال: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَدَوِيُّ، قال: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ مِنْ بَنِي أَسَدِ قُرَيْشٍ، أَنَّهَا أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ أَنَّهَا تُسْتَحَاضُ، فَزَعَمَتْ أَنَّهُ، قَالَ لَهَا:" إِنَّمَا ذَلِكَ عِرْقٌ، فَإِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلَاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ ثُمَّ صَلَّى".
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا جو قریش کے قبیلہ بنو اسد کی خاتون ہیں کہتی ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور عرض کیا کہ انہیں استحاضہ کا خون آتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ تو ایک رگ (کا خون) ہے، جب حیض کا خون آئے تو نماز ترک کر دو، اور جب ختم ہو جائے تو خون دھو لو پھر (غسل کر کے) نماز پڑھ لو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطھارة 108 (280، 281) و 110 (286)، سنن ابن ماجہ/فیہ 115 (620)، (تحفة الأشراف: 18019)، مسند احمد 6/420، 463، وأعادہ المؤلف بأرقام: 212، 350، 358، 362، 3583 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   سنن النسائى الصغرى201فاطمة بنت قيسذلك عرق فإذا أقبلت الحيضة فدعي الصلاة وإذا أدبرت فاغسلي عنك الدم ثم صلى
   سنن النسائى الصغرى212فاطمة بنت قيسذلك عرق فانظري إذا أتاك قرؤك فلا تصل فإذا مر قرؤك فتطهري ثم صلي ما بين القرء إلى القرء هذا الدليل على أن الأقراء حيض
   سنن النسائى الصغرى216فاطمة بنت قيسإذا كان دم الحيض فإنه دم أسود يعرف فأمسكي عن الصلاة فإذا كان الآخر فتوضئي فإنما هو عرق
   سنن النسائى الصغرى350فاطمة بنت قيسذلك عرق فإذا أقبلت الحيضة فدعي الصلاة وإذا أدبرت فاغتسلي واغسلي عنك الدم ثم صلي
   سنن النسائى الصغرى358فاطمة بنت قيسذلك عرق فانظري إذا أتاك قرؤك فلا تصلي وإذا مر قرؤك فلتطهري ثم صلي ما بين القرء إلى القرء
   سنن النسائى الصغرى362فاطمة بنت قيسإذا كان دم الحيض فإنه دم أسود يعرف فأمسكي عن الصلاة وإذا كان الآخر فتوضئي فإنما هو عرق
   سنن أبي داود280فاطمة بنت قيسذلك عرق فانظري إذا أتى قرؤك فلا تصلي فإذا مر قرؤك فتطهري ثم صلي ما بين القرء إلى القرء
   سنن ابن ماجه620فاطمة بنت قيسذلك عرق فانظري إذا أتى قرؤك فلا تصلي فإذا مر القرء فتطهري ثم صلي ما بين القرء إلى القرء
   المعجم الصغير للطبراني101فاطمة بنت قيسذلك عرق فإذا أقبلت الحيضة فدعي الصلاة فإذا أدبرت فاغتسلي واغسلي عنك الدم ثم صلي
   سنن النسائى الصغرى3583فاطمة بنت قيسذلك عرق فانظري إذا أتاك قرؤك فلا تصلي فإذا مر قرؤك فلتطهري قال ثم صلي ما بين القرء إلى القرء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 280  
´عورت کے مستحاضہ ہونے کا بیان اور ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ مستحاضہ اپنے حیض کے ایام کے بقدر نماز چھوڑ دے۔`
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (استحاضہ کے) خون آنے کی شکایت کی اور مسئلہ پوچھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ تو صرف ایک رگ ہے، پس تم دیکھتی رہو، جب تمہیں حیض آ جائے تو نماز نہ پڑھو، پھر جب حیض ختم ہو جائے تو غسل کرو، پھر دوسرا حیض آنے تک نماز پڑھتی رہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 280]
280۔ اردو حاشیہ:
معلوم ہوا کہ اگر پہلے سے ایام و تواریخ معلوم و متعین ہوں تو انہی ایام کو ایام حیض شمار کیا جائے اور اگر معلوم نہ ہوں تو خون کی رنگت سے اندازہ لگایا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 280   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 362  
´حیض اور استحاضہ کے خون میں فرق کا بیان۔`
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہیں استحاضہ آتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جب حیض کا خون ہو تو وہ سیاہ خون ہوتا ہے پہچان لیا جاتا ہے، تو تم نماز سے رک جاؤ، اور جب دوسرا ہو تو وضو کرو، کیونکہ یہ رگ (کا خون) ہے۔‏‏‏‏ محمد بن مثنی کا کہنا ہے کہ ہم سے یہ حدیث ابن ابی عدی نے اپنی کتاب سے بیان کی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 362]
362۔ اردو حاشیہ: دونوں روایات کی سند میں کچھ فرق ہے۔ کتاب والی روایت میں عروہ براہ راست حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا سے بیان فرماتے ہیں جبکہ حفظ والی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا واسطہ ہے۔ حضرت عروہ نے دونوں سے روایت سنی ہے۔ حضرت فاطمہ سے بھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی، کیونکہ ان کی دونوں سے ملاقات ثابت ہے۔ بعض محدثین نے اسے ابن ابی عدی کی غلطی قرار دے کر پہلی روایت کو منقطع قرار دیا ہے، لیکن پہلی بات درست ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید دیکھیے، حدیث: 216 اور اس کے فوائد و مسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 362   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 201  
´حیض سے غسل کرنے کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا جو قریش کے قبیلہ بنو اسد کی خاتون ہیں کہتی ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور عرض کیا کہ انہیں استحاضہ کا خون آتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ تو ایک رگ (کا خون) ہے، جب حیض کا خون آئے تو نماز ترک کر دو، اور جب ختم ہو جائے تو خون دھو لو پھر (غسل کر کے) نماز پڑھ لو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 201]
201۔ اردو حاشیہ:
حیض وہ خون ہے جو ہر جوان عورت کو رحم سے ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ چند دن آتا ہے۔ یہ عورت کی صحت کی علامت ہے۔ اس خون کی بندش یا بےقاعدگی عورت کے مریض ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ یہ خون آ رہا ہو تو جماع، نماز اور روزے کی ممانعت ہے۔ حیض ختم ہو جائے، یعنی یہ خون آنا بند ہو جائے، تو غسل فرض ہو جاتا ہے۔ غسل کرنے کے بعد یہ تمام کام جائز ہو جاتے ہیں۔
استحاضہ اس خون کو کہتے ہیں جو ان معینہ دنوں کے علاوہ رحم سے آئے، چونکہ وہ بیماری ہے، لہٰذا اس میں مندرجہ بالا کام جائز رہتے ہیں اور اس سے غسل بھی واجب نہیں ہوتا۔
«عِرْقٌ» کے معنیرگ ہیں جو رحم کے قریب ہوتی ہے، اس سے یہ خون آتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 201   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 212  
´قرء کا بیان۔`
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور آپ سے خون آنے کی شکایت کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ ایک رگ (کا خون) ہے، تو دیکھتی رہو جب حیض (کا دن) آ جائے تو نماز چھوڑ دو، پھر جب تمہارے حیض (کے دن) گزر جائیں، اور تم پاک ہو جاؤ، تو پھر دونوں حیض کے درمیان نماز پڑھو ۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن کہتے ہیں: یہ حدیث ہشام بن عروہ نے عروہ سے روایت کی ہے ۲؎ انہوں نے اس چیز کا ذکر نہیں کیا جس کا ذکر منذر نے کیا ہے ۳؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 212]
212۔ اردو حاشیہ:
امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ یہ حدیث عر وہ نے براہ راست حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا سے نہیں سنی جیسا کہ منذر کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے بلکہ انہوں نے یہ حدیث دراصل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہے جیسا کہ آئندہ حدیث: [213] سے سمجھ میں آ رہا ہے۔ گویا منذر کی روایت منقطع ہے، نیز ہمارے فاضل محقق نے منذر کو مجہول الحال قرار دیا ہے، اس لیے مذکورہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، تاہم معناً صحیح ہے کیونکہ اگلی صحیح روایت اسی کے ہم معنی ہے، نیز شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، دیکھیے: [صحيح سنن النسائي، للألباني، رقم: 221]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 212   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 216  
´حیض اور استحاضہ کے خون میں فرق کا بیان۔`
فاطمہ بنت ابوحبیش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہیں استحاضہ آتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جب حیض کا خون ہو تو نماز سے رک جاؤ کیونکہ وہ سیاہ خون ہوتا ہے، پہچان لیا جاتا ہے، اور جب دوسرا ہو تو وضو کر لو، کیونکہ وہ ایک رگ (کا خون) ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 216]
216۔ اردو حاشیہ:
➊ حیض کا خون ابتدا میں زیادہ سیاہی مائل ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ رنگ ہلکا ہوتا جاتا ہے۔ آخر میں سرخ ہو جاتا ہے۔
➋ استحاضہ والی عورت ہر نماز کے لیے نیا وضو کرے گی، تاہم جمع صوری اور جمع حقیقی میں ایک غسل اور ایک وضو سے دو نمازیں پڑھ سکتی ہے۔ ہر نماز کے لیے وضو کرنے کا حکم اس صورت میں ہے جب دو نمازیں اپنے اول وقت میں پڑھی جائیں۔ «والله أعلم»
ہر نماز کے لیے وضو کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ حقیقتاً خون جاری ہونے کی وجہ سے اس کا وضو نہیں ہوتا، مگر شریعت نے مجبوری کی بنا پر نماز کی ادائیگی کے لیے اسے باوضو فرض کیا ہے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد چونکہ ضرورت نہ رہی، لہٰذا اصل حکم لوٹ آیا، یعنی عدم طہارت۔
➌ ہر وہ شخص جس کا وضو قائم نہ رہتا ہو، مثلاً: ہر وقت پیشاب کے قطرے گرتے رہیں یا ہوا خارج ہوتی رہے وغیرہ تو اس کے لیے حکم یہی ہے کہ ایک وضو سے ایک نماز پڑھے، پھر نیا وضو کرے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 216   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 358  
´قرء کا بیان۔`
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے استحاضہ کے خون کی شکایت کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ تو بس ایک رگ ہے، تو تم دیکھتی رہو جب تمہارا حیض آئے تو نماز نہ پڑھو، اور جب تمہارا حیض گزر جائے تو پاکی حاصل کرو (یعنی غسل کرو) پھر اس حیض سے دوسرے حیض کے بیچ نماز پڑھو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 358]
358۔ اردو حاشیہ: ہشام بن عروہ کی روایت اس کے بعد والی ہے۔ ان دونوں روایتوں میں دو فرق ہیں: ایک یہ کہ ہشام بن عروہ کی روایت میں یہ صراحت نہیں کہ حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے حضرت عروہ کو یہ روایت بالمشافہ بیان کی ہے۔ دوسرا اس میں «ما بين القرء الي القرء» کے الفاظ مذکور نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 358   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث620  
´مستحاضہ جس کے حیض کی مدت استحاضہ والے خون سے پہلے متعین ہو اس کے حکم کا بیان۔`
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور آپ سے (کثرت) خون کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ رگ کا خون ہے، تم دیکھتی رہو جب مدت حیض آئے تو نماز نہ پڑھو، اور جب حیض گزر جائے تو غسل کرو، پھر دوسرے حیض کے آنے تک نماز پڑھتی رہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 620]
اردو حاشہ:
یہ روایت ہمارے محقق کے نزدیک سنداً ضعیف ہے جبکہ متناً معناً درست ہے جیسا کہ اگلی روایت میں یہی مسئلہ بیان ہوا ہے۔
غالباً اسی وجہ سے دوسرے محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 620   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.