الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book of Hajj
125. بَابُ : بِنَاءِ الْكَعْبَةِ
125. باب: کعبہ کی تعمیر کا بیان۔
Chapter: The Building Of The Kabah
حدیث نمبر: 2904
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا عبدة , وابو معاوية , قالا: حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لولا حداثة عهد قومك بالكفر، لنقضت البيت فبنيته على اساس إبراهيم عليه السلام، وجعلت له خلفا، فإن قريشا لما بنت البيت استقصرت".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدَةُ , وَأَبُو مُعَاوِيَةَ , قَالَا: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْلَا حَدَاثَةُ عَهْدِ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ، لَنَقَضْتُ الْبَيْتَ فَبَنَيْتُهُ عَلَى أَسَاسِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام، وَجَعَلْتُ لَهُ خَلْفًا، فَإِنَّ قُرَيْشًا لَمَّا بَنَتْ الْبَيْتَ اسْتَقْصَرَتْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کو ڈھا دیتا، اور اسے (پھر سے) ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر تعمیر کرتا، اور سامنے کے مقابل میں پیچھے بھی ایک دروازہ کر دیتا، قریش نے جب خانہ کعبہ کی تعمیر کی تو اسے گھٹا دیا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 17093)، مسند احمد (6/57، 180) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري7243عائشة بنت عبد اللهقومك قصرت بهم النفقة قلت فما شأن بابه مرتفعا قال فعل ذاك قومك ليدخلوا من شاءوا ويمنعوا من شاءوا لولا أن قومك حديث عهدهم بالجاهلية فأخاف أن تنكر قلوبهم أن أدخل الجدر في البيت وأن ألصق بابه في الأرض
   صحيح البخاري1585عائشة بنت عبد اللهلولا حداثة قومك بالكفر لنقضت البيت ثم لبنيته على أساس إبراهيم قريشا استقصرت بناءه وجعلت له خلفا
   صحيح البخاري1586عائشة بنت عبد اللهلولا أن قومك حديث عهد بجاهلية لأمرت بالبيت فهدم أدخلت فيه ما أخرج منه وألزقته بالأرض وجعلت له بابين بابا شرقيا وبابا غربيا فبلغت به أساس إبراهيم فذلك الذي حمل ابن الزبير ما على هدمه
   صحيح البخاري1584عائشة بنت عبد اللهقومك قصرت بهم النفقة قلت فما شأن بابه مرتفعا قال فعل ذلك قومك ليدخلوا من شاءوا ويمنعوا من شاءوا لولا أن قومك حديث عهدهم بالجاهلية فأخاف أن تنكر قلوبهم أن أدخل الجدر في البيت وأن ألصق بابه بالأرض
   صحيح البخاري126عائشة بنت عبد اللهلولا قومك حديث عهدهم بكفر لنقضت الكعبة جعلت لها بابين باب يدخل الناس وباب يخرجون
   صحيح مسلم3248عائشة بنت عبد اللهلولا حدثان قومك بالكفر لنقضت البيت حتى أزيد فيه من الحجر إن قومك قصروا في البناء
   صحيح مسلم3249عائشة بنت عبد اللهقومك قصرت بهم النفقة قلت فما شأن بابه مرتفعا قال فعل ذلك قومك ليدخلوا من شاءوا ويمنعوا من شاءوا لولا أن قومك حديث عهدهم في الجاهلية فأخاف أن تنكر قلوبهم لنظرت أن أدخل الجدر في البيت وأن ألزق بابه بالأرض
   صحيح مسلم3244عائشة بنت عبد اللهلولا أن قومك حديثو عهد بشرك لهدمت الكعبة ألزقتها بالأرض وجعلت لها بابين بابا شرقيا وبابا غربيا وزدت فيها ستة أذرع من الحجر فإن قريشا اقتصرتها حيث بنت الكعبة
   صحيح مسلم3243عائشة بنت عبد اللهلولا أن قومك حديثو عهد بجاهلية لأنفقت كنز الكعبة في سبيل الله لجعلت بابها بالأرض ولأدخلت فيها من الحجر
   صحيح مسلم3242عائشة بنت عبد اللهألم تري أن قومك حين بنوا الكعبة اقتصروا عن قواعد إبراهيم أفلا تردها على قواعد إبراهيم لولا حدثان قومك بالكفر لفعلت
   صحيح مسلم3240عائشة بنت عبد اللهلولا حداثة عهد قومك بالكفر لنقضت الكعبة ولجعلتها على أساس إبراهيم قريشا حين بنت البيت استقصرت ولجعلت لها خلفا
   صحيح مسلم3246عائشة بنت عبد اللهقومك استقصروا من بنيان البيت لولا حداثة عهدهم بالشرك أعدت ما تركوا منه فإن بدا لقومك من بعدي أن يبنوه فهلمي لأريك ما تركوا منه فأراها قريبا من سبعة أذرع هذا
   صحيح مسلم3245عائشة بنت عبد اللهلولا أن الناس حديث عهدهم بكفر وليس عندي من النفقة ما يقوي على بنائه لكنت أدخلت فيه من الحجر خمس أذرع ولجعلت لها بابا يدخل الناس منه وبابا يخرجون منه
   جامع الترمذي876عائشة بنت عبد اللهصلي في الحجر إن أردت دخول البيت فإنما هو قطعة من البيت لكن قومك استقصروه حين بنوا الكعبة فأخرجوه من البيت
   جامع الترمذي875عائشة بنت عبد اللهلولا أن قومك حديثو عهد بالجاهلية لهدمت الكعبة جعلت لها بابين
   سنن أبي داود2028عائشة بنت عبد اللهصلي في الحجر إذا أردت دخول البيت فإنما هو قطعة من البيت لكن قومك اقتصروا حين بنوا الكعبة فأخرجوه من البيت
   سنن النسائى الصغرى2904عائشة بنت عبد اللهلولا حداثة عهد قومك بالكفر لنقضت البيت فبنيته على أساس إبراهيم جعلت له خلفا فإن قريشا لما بنت البيت استقصرت
   سنن النسائى الصغرى2913عائشة بنت عبد اللهلولا أن الناس حديث عهدهم بكفر وليس عندي من النفقة ما يقوي على بنائه لكنت أدخلت فيه من الحجر خمسة أذرع وجعلت له بابا يدخل الناس منه وبابا يخرجون منه
   سنن النسائى الصغرى2906عائشة بنت عبد اللهلولا أن قومك حديث عهد بجاهلية لأمرت بالبيت فهدم أدخلت فيه ما أخرج منه وألزقته بالأرض وجعلت له بابين بابا شرقيا وبابا غربيا فإنهم قد عجزوا عن بنائه فبلغت به أساس إبراهيم
   سنن النسائى الصغرى2915عائشة بنت عبد اللهإذا أردت دخول البيت فصلي ها هنا فإنما هو قطعة من البيت لكن قومك اقتصروا حيث بنوه
   سنن النسائى الصغرى2903عائشة بنت عبد اللهألم تري أن قومك حين بنوا الكعبة اقتصروا عن قواعد إبراهيم ألا تردها على قواعد إبراهيم لولا حدثان قومك بالكفر
   سنن النسائى الصغرى2905عائشة بنت عبد اللهلولا أن قومي حديث عهد بجاهلية لهدمت الكعبة جعلت لها بابين
   سنن ابن ماجه2955عائشة بنت عبد اللهعجزت بهم النفقة قلت فما شأن بابه مرتفعا لا يصعد إليه إلا بسلم قال ذلك فعل قومك ليدخلوه من شاءوا ويمنعوه من شاءوا لولا أن قومك حديث عهد بكفر مخافة أن تنفر قلوبهم لنظرت هل أغيره فأدخل فيه ما انتقص منه وجعلت بابه بالأرض

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 126  
´مصلحتاً کسی مستحب کام کو ترک کرنا`
«. . . قَالَ لِي ابْنُ الزُّبَيْرِ: كَانَتْ عَائِشَةُ تُسِرُّ إِلَيْكَ كَثِيرًا، فَمَا حَدَّثَتْكَ فِي الْكَعْبَةِ، قُلْتُ: قَالَتْ لِي: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَائِشَةُ، لَوْلَا قَوْمُكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ، قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: بِكُفْرٍ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ، فَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ، بَابٌ يَدْخُلُ النَّاسُ وَبَابٌ يَخْرُجُونَ "، فَفَعَلَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ . . .»
. . . مجھ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے بہت باتیں چھپا کر کہتی تھیں، تو کیا تم سے کعبہ کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا، میں نے کہا (ہاں) مجھ سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) ارشاد فرمایا تھا کہ اے عائشہ! اگر تیری قوم (دور جاہلیت کے ساتھ) قریب نہ ہوتی (بلکہ پرانی ہو گئی ہوتی) ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا یعنی زمانہ کفر کے ساتھ (قریب نہ ہوتی) تو میں کعبہ کو توڑ دیتا اور اس کے لیے دو دروازے بنا دیتا۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکلتے، (بعد میں) ابن زبیر نے یہ کام کیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَنْ تَرَكَ بَعْضَ الاِخْتِيَارِ مَخَافَةَ أَنْ يَقْصُرَ فَهْمُ بَعْضِ النَّاسِ عَنْهُ فَيَقَعُوا فِي أَشَدَّ مِنْهُ: 126]

تشریح:
قریش چونکہ قریبی زمانہ میں مسلمان ہوئے تھے، اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً کعبہ کی نئی تعمیر کو ملتوی رکھا، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث سن کر کعبے کی دوبارہ تعمیر کی اور ا س میں دو دروازے ایک شرقی اور ایک غربی جانب نکال دئیے، لیکن حجاج نے پھر کعبہ کو توڑ کر اسی شکل پر قائم کر دیا۔ جس پر عہد جاہلیت سے چلا آ رہا تھا۔ اس باب کے تحت حدیث لانے کا حضرت امام کا منشا یہ ہے کہ ایک بڑی مصلحت کی خاطر کعبہ کا توڑنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملتوی فرما دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر فتنہ و فساد پھیل جانے کا یا اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ ہو تو وہاں مصلحتاً کسی مستحب کام کو ترک بھی کیا جا سکتا ہے۔ سنت نبوی کا معاملہ الگ ہے۔ جب لوگ اسے بھول جائیں تو یقیناً اس سنت کے زندہ کرنے والوں کو سو شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ جس طرح ہندوستانی مسلمان ایک مدت سے جہری نمازوں میں آمین بالجہر جیسی سنت نبوی کو بھولے ہوئے تھے کہ اکابر اہل حدیث نے ازسر نو اس سنت نبوی کو زندہ کیا اور کتنے لوگوں نے اس سنت کو رواج دینے میں بہت تکلیف برداشت کی، بہت سے نادانوں نے اس سنت نبوی کا مذاق اڑایا اور اس پر عمل کرنے والوں کے جانی دشمن ہو گئے، مگر ان بندگان مخلصین نے ایسے نادانوں کی باتوں کو نظر انداز کر کے سنت نبوی کو زندہ کیا، جس کے اثرمیں آج اکثر لوگ اس سنت سے واقف ہو چکے ہیں اور اب ہر جگہ اس پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔ پس ایسی سنتوں کا مصلحتاً ترک کرنا مناسب نہیں ہے۔ حدیث میں آیا ہے «من تمسك بسنتي عند فساد امتي فله اجر مائة» شہید جو کوئی فساد کے وقت میری سنت کو لازم پکڑے گا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 126   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2904  
´کعبہ کی تعمیر کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کو ڈھا دیتا، اور اسے (پھر سے) ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر تعمیر کرتا، اور سامنے کے مقابل میں پیچھے بھی ایک دروازہ کر دیتا، قریش نے جب خانہ کعبہ کی تعمیر کی تو اسے گھٹا دیا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2904]
اردو حاشہ:
(1) دروازہ پچھلی جانب تاکہ لوگ ایک دروازے سے داخل ہوں اور دوسری طرف سے نکلتے رہیں اور رش نہ ہو۔ نبیﷺ کی یہ خواہش بھی تھی کہ بیت اللہ کا دروازہ نیچے زمین کے برابر لگا دیا جائے۔ تاکہ سیڑھی کی ضرورت نہ رہے مگر شاید یہ مصلحت کے خلاف تھا کہ عوام الناس بیت اللہ میں داخل ہوں، لہٰذا آپ کی ان خواہشات پر عمل درآمد نہ ہو سکا، ورنہ کعبہ کی بے احترامی اور شور وغل کا شدید خطرہ تھا۔ جو شخص کعبے میں داخل ہونے کا شوق رکھتا ہو، اس کے لیے حطیم والا کھلا حصہ موجود ہے وہاں وہ اپنی خواہش پوری کر سکتا ہے، جبکہ بیت اللہ کے مقفل ہونے کی وجہ سے اس کا رعب واحترام اور دبدبہ قائم ودائم ہے۔ رسول اللہﷺ کی قبر کو مقفل رکھنے کی بھی یہی وجہ ہے کہ اس کا احترام قائم رہے، شور وغل سے بچت رہے۔ علاوہ ازیں عوام، جن کی اکثریت فسادِ عقیدہ میں مبتلا ہے، مشرکانہ اعمال سے بھی محفوظ رہے۔ باقی رہا صلاۃ وسلام کا مسئلہ، اس کے لیے اندر جانا ضروری نہیں، باہر سے بھی ممکن ہے بلکہ دنیا کے بعید ترین گوشے سے بھی سلام وصلاۃ بھیجا جا سکتا ہے کیونکہ اسے پہنچانے کے لیے فرشتے مقرر ہیں اور وہی آپ کو صلاۃ وسلام پہنچاتے ہیں، آپ خود کہیں سے بھی نہیں سنتے، قریب سے، نہ بعید سے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2904   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2955  
´طواف کعبہ حطیم سمیت کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کعبہ ہی کا ایک حصہ ہے میں نے پوچھا: پھر لوگوں (کفار) نے اس کو داخل کیوں نہیں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس خرچ نہیں رہ گیا تھا میں نے کہا: اس کا دروازہ اتنا اونچا کیوں رکھا کہ بغیر سیڑھی کے اس پر چڑھا نہیں جاتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا تمہاری قوم کے لوگوں نے کیا تھا، تاکہ وہ جس کو چاہیں اندر جانے دیں اور جس کو چاہیں روک دیں، اور اگر تمہاری قوم کا زمانہ ابھی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2955]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خانہ کعبہ کی نئے سرے سے تعمیر رسول اللہ ﷺ کے منصب پر فائز ہونے سے پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے۔

(2)
قریش میں زمانہ جاہلیت میں بھی حلال اور حرام کی تمیز موجود تھی لیکن عملی طور پر اس کا خیال بہت کم رکھا جاتا تھا۔
خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے لیے قریش نے حلال مال خرچ کرنے کی شرط لگائی تھی لیکن حلال مال مکمل خانہ کعبہ کی تعمیر کے لیے کافی نہ ہوا تو انھوں نے حطیم والا حصہ تعمیر کے بغیر چھوڑدیا۔

(3)
مسجد کی تعمیر میں حلال کمائی سے حاصل کیا ہوا مال ہی خرچ کرنا چاہیے۔

(4)
حطیم چونکہ کعبہ کا حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہیےاگر کوئی شخص غلطی سے اس کے اندر سے گزرجائے تو وہ چکر شمار نہ کرے ورنہ طواف ناقص رہے گا۔

(5)
خانہ کعبہ کی عمارت کے بارے میں مولانا صفی الرحمن مبارک پوری ؒ نے جو تفصیلات بیان کی ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  خانہ کعبہ کی موجودہ بلندی پندرہ میٹر ہے۔
حجر اسود والی دیوار اور اس کے سامنے کی دیوار یعنی جنوبی اور شمالی دیواریں دس دس میٹر لمبی ہیں۔
حجر اسود مطاف کی زمین سے ڈیڑھ میٹر کی بلندی پر ہے۔
دروازہ زمین سے دو میٹر بلند ہے۔
چاروں طرف دیواروں کے ساتھ ساتھ ایک بڑھے ہوئے کرسی نما ضلعے کا گھیرا ہے۔
اسے شاذ ردان کہتے ہیں۔
اس کی اونچائی 35 سینٹی میٹر اور اوسط چوڑائی 30 سنٹی میٹر ہے۔
یہ بھی بیت اللہ کا حصہ ہے جسے قریش نے چھوڑدیا تھا۔ (الرحيق المختوم ص: 93)

(6)
بعض اوقات مصلحت کا خیال کرتے ہوئے افضل کام چھوڑ کر غیر افضل جائز کام کرلینا بہتر ہے۔
جب یہ خطرہ ہو کہ جائز کام کرنے سے کچھ نا مطلوب نتائج سامنے آئینگے جن کی تلافی مشکل ہوگی تو افضل کو ترک کیا جاسکتا ہے۔

(7)
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں کعبہ شریف کی تعمیر اس انداز سے کردی تھی جو رسول اللہﷺ کی خواہش تھی لیکن ان کی شہادت کے بعد کعبہ شریف کو دوبارہ پہلے انداز سے بنادیا گیا۔

(8)
۔
اگر کوئی شخص کعبہ کے اندر نماز پڑھنا چاہے تو اسے چاہیے کہ حطیم میں نماز پڑھ لے کیونکہ یہ خانہ کعبہ کا ایک حصہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2955   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 876  
´حطیم میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: میں چاہتی تھی کہ بیت اللہ میں داخل ہو کر اس میں نماز پڑھوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم ۱؎ کے اندر کر دیا اور فرمایا: اگر تم بیت اللہ کے اندر داخل ہونا چاہتی ہو تو حطیم میں نماز پڑھ لو، یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے، لیکن تمہاری قوم کے لوگوں نے کعبہ کی تعمیر کے وقت اسے چھوٹا کر دیا، اور اتنے حصہ کو بیت اللہ سے خارج کر دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 876]
اردو حاشہ:
1؎:
حطیم کعبہ کے شمالی جانب ایک طرف کا چھوٹا ہوا حصہ ہے جو گول دائرے میں دیوار سے گھیر دیا گیا ہے،
یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہئے،
اگر کوئی طواف میں حطیم کو چھوڑ دے اور اُس کے اندر سے آئے تو طواف درست نہ ہو گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 876   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2028  
´حطیم میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میری خواہش تھی کہ میں بیت اللہ میں داخل ہو کر اس میں نماز پڑھوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم میں داخل کر دیا، اور فرمایا: جب تم بیت اللہ میں داخل ہونا چاہو تو حطیم کے اندر نماز پڑھ لیا کرو کیونکہ یہ بھی بیت اللہ ہی کا ایک ٹکڑا ہے، تمہاری قوم کے لوگوں نے جب کعبہ تعمیر کیا تو اسی پر اکتفا کیا تو لوگوں نے اسے بیت اللہ سے خارج ہی کر دیا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 2028]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک کا پینتیسواں سال تھا کہ قریش نے بیت اللہ کی خستہ عمارت کو از سر نو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور عہد کیا کہ اس میں صرف حلال رقم ہی صرف کریں گے۔
رنڈی کی اجرت۔
سود کی دولت۔
اور کسی کا ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
مگر حلال مال کی کمی پڑ گئی۔
تو انھوں نے شمال کی طرف سے کعبہ کی لمبائی تقریباً چھ ہاتھ کم کردی۔
یہی ٹکڑا حجر اور حطیم کہلاتا ہے۔
(الرحیق المختوم)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2028   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.