الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قاضیوں اور قضا کے آداب و احکام اور مسائل
The Book of the Etiquette of Judges
5. بَابُ : النَّهْىِ عَنْ مَسْأَلَةِ الإِمَارَةِ
5. باب: حکومت اور عہدہ منصب کی خواہش منع ہے۔
Chapter: Prohibition of Asking for Governorship
حدیث نمبر: 5387
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن آدم بن سليمان، عن ابن المبارك، عن ابن ابي ذئب، عن المقبري، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إنكم ستحرصون على الإمارة، وإنها ستكون ندامة وحسرة يوم القيامة، فنعمت المرضعة، وبئست الفاطمة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّكُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَى الْإِمَارَةِ، وَإِنَّهَا سَتَكُونُ نَدَامَةً وَحَسْرَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَنِعْمَتِ الْمُرْضِعَةُ، وَبِئْسَتِ الْفَاطِمَةُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تم لوگ منصب کی خواہش کرو گے، لیکن وہ باعث ندامت و حسرت ہو گی پس دودھ پلانے والی کتنی اچھی ہوتی ہے، اور دودھ چھڑانے والی کتنی بری ہوتی ہے، (اس لیے کہ ملتے وقت وہ بھلی لگتی ہے اور جاتے وقت بری لگتی ہے) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4216 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی: حکومت اور منصب والی زندگی تو بھلی لگے گی لیکن اس کے بعد والی زندگی ابتر اور بری ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   صحيح البخاري7148عبد الرحمن بن صخرستحرصون على الإمارة وستكون ندامة يوم القيامة فنعم المرضعة وبئست الفاطمة
   سنن النسائى الصغرى5387عبد الرحمن بن صخرستحرصون على الإمارة وإنها ستكون ندامة وحسرة يوم القيامة فنعمت المرضعة وبئست الفاطمة
   بلوغ المرام1190عبد الرحمن بن صخرإنكم ستحرصون على الإمارة وستكون ندامة يوم القيامة فنعم المرضعة وبئست الفاطمة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5387  
´حکومت اور عہدہ منصب کی خواہش منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تم لوگ منصب کی خواہش کرو گے، لیکن وہ باعث ندامت و حسرت ہو گی پس دودھ پلانے والی کتنی اچھی ہوتی ہے، اور دودھ چھڑانے والی کتنی بری ہوتی ہے، (اس لیے کہ ملتے وقت وہ بھلی لگتی ہے اور جاتے وقت بری لگتی ہے) ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5387]
اردو حاشہ:
اس حدیث میں حکومت کو عورت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ دودھ پلانے والی (عورت) بچے کو اچھی لگتی ہے۔ وہ اس سے محبت کرتا ہے لیکن جب وہی عورت دودھ چھڑا دے تو پھر وہ اس سے نفرت کرنا لگتا ہے۔ لاتیں مارتا ہے اور چیختا چلاتا ہے۔ یہی حالت حکومت اور حاکم کا ہے کہ جب تک وہ برسر اقتدار رہے، وہ حکومت کے نشے میں مست رہتا ہے اور اپنے آپ کو خوش قسمت ترین آدمی سمجھتا ہے۔ بلکہ خوب عیاشیاں کرتا لیکن جب حکومت چھن جاتی ہے تو آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ اقتدار رہ رہ کر یاد آتا ہے۔ پھر وہ آہ و بکا کرتا ہے اور جب اسے پانے دور اقتدار کا حسب دینا پڑتا ہے تو پھر وہ حکومت سے نفرت کرنے لگتا ہے اور اپنے آپ کو بدقسمت ترین انسان سمجھتا ہے۔ اور اگر کوئی صاحب اقتدار اپنی موت تک حکمران رہے تو پھر آخرت میں اس سے برا حال ہوتا ہے۔ إلَّا مَا رحم ربّي۔ حدیث میں بھی اس طرف اشارہ موجود ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے بے مثال عادل حکمران کا قول ہے: کاش میں اپنے دور اقتدار کے حساب سے بغیر کچھ  لیے دیے (ثواب و عذاب) چھوڑ دیا جا ؤں۔ یہ اسی حقیقت کا اظہار رہے ورنہ ان کی خلافت کی تعریف تو خود رسول اللہ ﷺ نے پیش گوئی کی صورت میں فرمائی ہے۔ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَ أَرْضَاهُ
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 5387   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1190  
´(قضاء کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک تم لوگ ضرور حکومت کی حرص و خواہش کرو گے اور وہ قیامت کے روز باعث ندامت ہو گی۔ پس اچھی ہے دودھ پلانے والی ماں اور بری ہے دودھ چھڑانے والی ماں۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1190»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأحكام، باب ما يكره من الحرص علي الإمارة، حديث:7148.»
تشریح:
1. اس حدیث میں امارت اور سرداری سے بچنے اور اجتناب کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کیونکہ دوسری حدیث میں ہے کہ حکومت اور سربراہی دنیا میں ملامت اور اس سے معزولی ندامت و پشیمانی ہے اور آخرت میں باعث عذاب ہے۔
2. جس وقت انسان حکومت کی کرسی پر براجمان ہوتا ہے تو عزت و توقیر ملتی ہے‘ دولت و ثروت ہاتھ آتی ہے‘ عوام ماتحت ہوتے ہیں‘ ان پر حکم چلتا ہے‘ ٹھاٹھ باٹھ جمتے ہیں‘ ایسی صورت میں بڑی اچھی لگتی ہے۔
مگر جب بدعنوانیوں اور بے اعتدالیوں کا احتساب اس دنیا ہی میں شروع ہوتا ہے تو پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا اور آخرت کے حساب و کتاب کی سختی تو ایسی ہوگی جس کا اس دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اسی خوف کے پیش نظر امت مسلمہ کے صلحاء اس سے کوسوں دور رہنے کی کوشش کرتے رہے حتیٰ کہ سزائیں برداشت کیں مگر اس منصب کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
موجودہ دور میں مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے بگاڑ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے سربراہان میں اکثر وبیشتر افراد وہ ہوتے ہیں جو عہدوں کے متلاشی‘ طلبگار اور بھوکے ہوتے ہیں‘ اسی لیے وہ کرسی پر براجمان ہوتے ہی عیش پرستی میں مگن ہو کر خوب مزے اڑاتے ہیں اور عوام کے حقوق بھلا کر اپنا دامن بھرنے میں سرگرم ہوتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں عوام کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ شریعت کے اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا امیر اور سربراہ ایسے شخص کو قطعاً منتخب نہ کریں جو خود سربراہی اور عہدے کا طالب ہو کیونکہ اس سے خیر کی امید نہیں کی جا سکتی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1190   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.