الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
The Book of the Times (of Prayer)
36. بَابُ : الرُّخْصَةِ فِي الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ
36. باب: عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان۔
Chapter: Concession Allowing Prayer After Asr
حدیث نمبر: 581
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا وكيع، قال: حدثنا طلحة بن يحيى، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ام سلمة، قالت:" شغل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الركعتين قبل العصر، فصلاهما بعد العصر".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ، قال: حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قالت:" شُغِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْعَصْرِ، فَصَلَّاهُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہم کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے والی دو رکعت نہیں پڑھ سکے، تو انہیں عصر کے بعد پڑھی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 18193)، مسند احمد 6/306 (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   صحيح البخاري4370هند بنت حذيفةأتاني أناس من عبد القيس بالإسلام من قومهم فشغلوني عن الركعتين اللتين بعد الظهر فهما هاتان
   صحيح البخاري1233هند بنت حذيفةأتاني ناس من عبد القيس فشغلوني عن الركعتين اللتين بعد الظهر فهما هاتان
   صحيح مسلم1933هند بنت حذيفةأتاني ناس من عبد القيس بالإسلام من قومهم فشغلوني عن الركعتين اللتين بعد الظهر فهما هاتان
   سنن أبي داود1273هند بنت حذيفةأتاني ناس من عبد القيس بالإسلام من قومهم فشغلوني عن الركعتين اللتين بعد الظهر فهما هاتان
   سنن النسائى الصغرى580هند بنت حذيفةهما ركعتان كنت أصليهما بعد الظهر فشغلت عنهما حتى صليت العصر
   سنن النسائى الصغرى581هند بنت حذيفةشغل رسول الله عن الركعتين قبل العصر فصلاهما بعد العصر
   سنن ابن ماجه1159هند بنت حذيفةشغلني أمر الساعي أن أصليهما بعد الظهر فصليتهما بعد العصر
   بلوغ المرام143هند بنت حذيفةشغلت عن ركعتين بعد الظهر فصليتهما الآن
   مسندالحميدي296هند بنت حذيفةلا إنما يكفيك أن تحثي على رأسك ثلاث حثيات من ماء ثم تفيضي عليك الماء فتطهري

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 143  
´عصر کے بعد ظہر کی رہ جانے والی سنتوں کی قضا`
«. . . صلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم العصر. ثم دخل بيتي فصلى ركعتين. فسالته فقال: ‏‏‏‏شغلت عن ركعتين بعد الظهر فصليتهما الآن . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر پڑھ کر میرے حجرے میں تشریف لائے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ میں نے عرض کیا یہ دو رکعت کیسی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا ظہر کے فرائض کے بعد کی دو سنتیں پڑھ نہیں سکا تھا وہ اب میں نے پڑھی ہیں . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 143]

لغوی تشریح:
«شُغِلْتُ» صیغہ مجہول۔ اس کے معنی ہیں کہ مجھے روک دیا گیا، اس طرف سے توجہ پھیر دی گئی۔ مانع یہ تھا کہ قبیلۂ عبدالقیس کے کچھ لوگ آ گئے تھے یا صدقے کا مال آ گیا تھا۔ مال کی تقسیم یا ان سے گفتگو کرتے رہنے کی وجہ سے ظہر کی دو سنتیں رہ گئی تھیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد پڑھیں۔
«فصليتهما الآن» یعنی میں نے ان دونوں کی اب قضا دی ہے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ ہم بھی چھوٹ جانے کی صورت میں اس وقت قضا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس وقت انہیں قضا ہونے کی صورت میں ادا نہ کرو۔
علامہ یمانی نے کہا ہے کہ اس سے ثابت ہوا نماز عصر کے بعد ان سنتوں کی قضا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے، کسی بھی دوسرے کے لیے یہ جائز نہیں ہے اور ایک دن کے عمل کے بعد آپ کا ہمیشہ انہیں نماز عصر کے بعد ادا کرتے رہنا اس بنا پر تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب ایک عمل ایک مرتبہ کر لیتے تو اسے ہمیشہ انجام دیتے تھے۔ تو گویا یہ بھی آپ کی خصوصیت تھی۔

فائدہ:
حدیث مذکور سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر کے بعد ظہر کی رہ جانے والی سنتوں کی قضا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ اور امتیاز تھا جیسا کہ امام طحاوی اور علامہ یمانی رحمہما اللہ نے کہا ہے مگر امام بیہقی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہما اللہ نے کہا ہے کہ اس روایت کا آخری حصہ «أَفَنَقُضِيهِمَا إذَا فَتَتَا؟ قال: لا» جب یہ رہ جائیں تو کیا ہم ان کی قضا دیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ ضعیف اور غیر محفوظ ہے۔ صحیح یہ ہے کہ عصر کے بعد قضا نماز فرض ہو یا سنت، ادا ہو سکتی ہے۔ اس کی تفصیل أعلام أھل العصر میں شارح ابوداود شیخ شمس الحق محدیث ڈیانوی نے خوب بیان کی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 143   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 581  
´عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہم کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے والی دو رکعت نہیں پڑھ سکے، تو انہیں عصر کے بعد پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 581]
581 ۔ اردو حاشیہ: عصر کے بعد نوافل پڑھنا جائز ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہو جیسا کہ پیچھے تفصیل گزر چکی ہے۔ دیکھیے، حدیث: 574 اور 579 کے فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 581   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1159  
´جس کی ظہر کے بعد کی دو رکعت سنت چھوٹ جائے اس کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک شخص بھیجا، قاصد کے ساتھ میں بھی گیا، اس نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا، تو انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں نماز ظہر کے لیے وضو کر رہے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ وصول کرنے والا ایک شخص روانہ کیا تھا، آپ کے پاس مہاجرین کی بھیڑ تھی، اور ان کی بدحالی نے آپ کو فکر میں مبتلا کر رکھا تھا کہ اتنے میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، آپ باہر نکلے، ظہر پڑھائی پھر بیٹھے، اور صدقہ وصول کرنے و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1159]
اردو حاشہ:
فائدہ:

(1)
مذکور روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
اورشیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے منکر قرار دیا ہے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ سے عصر کے بعد دورکعتیں پڑھنے کا ثبوت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات سے ملتا ہے۔
اسی لئے بعض محققین نے اس روایت کی سند کو تو ضعیف قراردیا ہے۔
لیکن فی نفسہ مسئلہ یعنی عصر کے بعد دورکعت پڑھنے کو صحیح قرار دیا ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة، مسند الإمام أحمد بن حنبل: 257، 256، 210، 209/44 وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشارعواد، حدیث: 115)

(2)
ظہر کی پچھلی دو سنتیں مؤکدہ سنتوں میں سے ہیں۔
اور ان کا پڑھنا مستحب ہے۔

(3)
ممنوع وقت میں کسی مشروع سبب سے نماز پڑھنا جائز ہے۔

(4)
عصر کے بعد ان رکعات کی ہمیشگی نبی اکرمﷺ کی خصوصیت تھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1159   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1273  
´عصر کے بعد نفل پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس، عبدالرحمٰن بن ازہر رضی اللہ عنہ اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ تینوں نے انہیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا اور کہا: ان سے ہم سب کا سلام کہنا اور عصر کے بعد دو رکعت نفل کے بارے میں پوچھنا اور کہنا: ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ یہ دو رکعتیں پڑھتی ہیں، حالانکہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع فرمایا ہے، چنانچہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور انہیں ان لوگوں کا پیغام پہنچا دیا، آپ نے کہا: ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھو! میں ان لوگوں کے پاس آیا اور ان کی بات انہیں بتا دی، تو ان سب نے مجھے ام المؤمنین ام سلمہ کے پاس اسی پیغام کے ساتھ بھیجا، جس کے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا تھا، تو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے منع کرتے ہوئے سنا، پھر دیکھا کہ آپ انہیں پڑھ رہے ہیں، ایک روز آپ نے عصر پڑھی پھر میرے پاس آئے، اس وقت میرے پاس انصار کے قبیلہ بنی حرام کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں، آپ نے یہ دونوں رکعتیں پڑھنا شروع کیں تو میں نے ایک لڑکی کو آپ کے پاس بھیجا اور اس سے کہا کہ تو جا کر آپ کے بغل میں کھڑی ہو جا اور آپ سے کہہ: اللہ کے رسول! ام سلمہ کہہ رہی ہیں: میں نے تو آپ کو ان دونوں رکعتوں کو پڑھنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے اور اب آپ ہی انہیں پڑھ رہے ہیں، اگر آپ ہاتھ سے اشارہ کریں تو پیچھے ہٹ جانا، اس لڑکی نے ایسا ہی کیا، آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا، تو وہ پیچھے ہٹ گئی، جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا: اے ابوامیہ کی بیٹی! تم نے مجھ سے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کے بارے میں پوچھا ہے، دراصل میرے پاس عبدالقیس کے چند لوگ اپنی قوم کے اسلام کی خبر لے کر آئے تو ان لوگوں نے مجھے باتوں میں مشغول کر لیا اور میں ظہر کے بعد یہ دونوں رکعتیں نہیں پڑھ سکا، یہ وہی دونوں رکعتیں ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1273]
1273۔ اردو حاشیہ:
➊ ظہر کی پچھلی سنتیں مؤکدہ سنتوں میں سے ہیں اور ان کا پڑھنا مستحب ہے۔
➋ ممنوع وقت میں کسی مشروع سبب سے نماز پڑھنا جائز ہے۔
➌ عصر کے بعد ان رکعات کی ہمیشگی نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی خصوصیت تھی۔
➍ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مسئلے کی تحقیق میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف تحویل کرنا، ان آداب میں سے ہے کہ اعلم اور اہل فضل کی طرف مراجعت کی جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1273   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.