صحيح البخاري
كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ -- کتاب: وحی کے بیان میں
1. بَابُ كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء کیسے ہوئی۔
وَقَوْلُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ: {إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ}:
‏‏‏‏ اور اللہ عزوجل کا یہ فرمان «إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ» کہ ہم نے بلاشبہ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کی طرف وحی کا نزول اسی طرح کیا ہے جس طرح نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے تمام نبیوں کی طرف کیا تھا۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت قبل الحديث صحيح بخاري 1  
اعتراض:
کئی معترضین اس مسئلہ کو بھی تختہ مشق بنانے کی جستجو کرتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ اگر اتنے ہی عاملین حدیث تھے تو انہوں نے صحیح بخاری کا آغاز سنت کے خلاف کیوں کیا؟ نہ اس کے آغاز میں انہوں نے لکھنے سے قبل حمد لکھی اور نہ ہی صلوۃ پر کوئی توجہ دی حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا فرمان موجود ہے۔ «كل كلام لايبدأ فيه بحمد الله فهو اجزم» [سنن ابي داؤد كتاب الادب رقم الحديث 4840] ہر گفتگو جس کی ابتدا اللہ کی حمد سے نہ شروع ہو تو اس میں برکت نہیں ہوتی۔
لہذا امام بخاری رحمہ اللہ نے اتنی عظیم کتاب لکھی مگر اس کی مسنون طریقہ سے ابتدا نہ کی۔
الجواب:
اس اعتراض کا جواب کئی طریقوں سے دیا جا سکتا ہے سب سے پہلی بات تو یہ مدنظر رکھنی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اچھے کام کی ابتدا حمد سے کرنے کا حکم صادر فرمایا تو ابتداء زبان کے لفظوں سے ہو گا نہ کہ اسے لکھا جائے، لکھنا کسی بھی طریقے سے حمد کی شرائط میں داخل نہیں ہے کیوں کہ حمد کی جو تعریف مشہور ہے وہ یہ ہے کہ «هوالثناء باللسان» یعنی زبان سے تعریف ادا کرنا اور ایسی کوئی شرط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں جس میں اس امر پر دلالت ہو کہ لکھنا بھی شرائط میں سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جب معاہدے کیے تو ان معاہدوں میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ ہی لکھنے پر اکتفا فرمایا جیسا کہ صحیح بخاری میں منقول ہے۔ [صحيح البخاري: كتاب الشروط فى الجهاد و المصالحته۔ رقم 4581]

قرآن مجید نے بھی اس مسئلہ کو واضح فرمایا جب سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کو خط لکھا تو اس خط کے ابتدا میں بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہی لکھا۔ [النمل 30/27]
ان دلائل و براہین سے معلوم ہوتا ہے کہ حمد کرنے کا تعلق زبان کے ساتھ ہے اور جب خط یا کسی خاص تحریر کو لکھا جائے گا تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا لکھنا ہی مسنون ہو گا۔

یہی وجہ ہے کہ امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کے ابتدا میں بسم اللہ۔۔۔۔۔ ہی کو لکھا پھر باب کو قائم فرمایا اور اگر غور کیا جائے تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں حمد موجود ہے۔ اللہ جو اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام ہے الرحمٰن اور الرحیم جو اس کی صفات خاصہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور اس کی حمد کی دلیل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابتداء بھی حمد سے کی اور انتہا بھی حمد سے ہی کی بخاری شریف کی آخری حدیث: «سبحان الله وبحمد سبحان الله العظيم» [صحيح بخاري كتاب التوحيد رقم 7124] بھی حمد ہی پر دال ہے، چنانچہ ابتداء بھی حمد سے اور انتہا بھی حمد سے ہی ہوئی۔

اور جہاں تک تعلق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ پڑھنے کا تو امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا۔
«باب كيف كان بدء الوحي الي رسول الله صلى الله عليه وسلم»
تو اس میں بھی صلی اللہ علیہ وسلم کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا لہٰذا درود بھی پڑھنا یہاں ثابت ہو گیا۔ ویسے تو صحیح بخاری و مسلم کی صحت کو مشکوک بنانے کے لیے ہر منکر حدیث ان ہی کتب پر پہلے اپنا ہاتھ صاف کرتا ہے پھر اس کے بعد دیگر کتب احادیث کی طرف التفات کرتا ہے۔ مگر الحمداللہ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے اہل علم کو کھڑا فرمایا، جنہوں نے دفاع حدیث کے عظیم کام کو سر انجام دیا۔ ان بزرگوں میں:
◈ علامہ حافظ زین الدین عراقی (المتوفی806ھ) نے صحیحین کی متکلم فیہ روایات کا علمی جواب تحریر کیا «الاحاديث المخرجة فى الصحيحين التى تكلم فيها بضعف و انقطاع» کے عنوان سے لکھی جس کے بارے میں خود موصوف نے یہ فرمایا: «ففيه فوائد مهمات» [التبصرة و التذكرة ج1 ص71]

◈ علامہ الفقیہ محمد بن الحسن الحجوی الثعالبی الفاسی (المتوفی 1376ھ) نے «الدفاع عن الصحيحين دفاع الاسلام» کے نام سے کتاب تحریر فرمائی ہے جس میں آپ نے واضح طور پر لکھا ہے کہ کسی مسلم کے لیے بخاری و مسلم کی روایت پر طعن کرنا درست نہیں ہے

◈ علامہ عراقی کے صاحبزادے حافظ ولی الدین ابوزرعتہ احمد بن عبدالرحیم (المتوفی 826ھ) نے بھی «البيان والتوضيح لمن خرج له فى الصحيح و قدمس بضرب من التجريح» کے نام سے ایک مستقل رسالہ تحریر فرمایا۔

◈ اسی طرح حافظ ابوالحسین رشید الدین یحییٰ بن یحییٰ القرشی العطار (المتوفی662ھ) نے «غررالفوائد المجموعة فى بيان ماوقع فى صحيح مسلم من الاحاديث المقطوعة» کے نام سے رسالہ لکھا۔

◈ حافظ ابن حجر (المتوفی852ھ) نے فتح باری کے مقدمہ میں جو کہ مکمل جلد پر مبنی ہے بنام «هدي الساري» میں بھی صحیحیں کے دفاع پر کئی صفحات پر لکھا ہے اور امام دارقطنی کے بھی کئی اعتراضات کے جوابات دیئے ہیں۔

◈ اسی طرح سے امام نووی رحمہ اللہ نے بھی شرح مسلم میں کئی صحیح مسلم کی احادیث کا دفاع کیا ہے۔

◈ اسی طرح سے علامہ محمد بن اسماعیل ابن خلفون رحمہ اللہ نے بھی «رفع التماري فى من تكم فيه من رجال البخاري» کے نام سے ایک مستقل رسالہ تحریر فرمایا ہے۔

◈ الامام القصیمی نے بھی ایک مستقل رسالہ «حل المشكلات احاديث النبوية» کے نام سے تحریر فرمایا ہے۔

◈ اسی موضوع پر علامہ ابوالولید باجی کی «التعديل و التجريح لمن خرج عنه البخاري فى الصحيح» بھی اہل علم میں معروف ہے۔

◈ علامہ ابراہیم ابن السبط رحمہ اللہ (المتوفی 884ھ) نے «التوضيح للاوهام الواقعه فى الصحيح» کے نام سے تحریر فرمایا۔

◈ علامہ جلال الدین عبدالرحمٰن بن عمر البلقینی رحمہ اللہ (المتوفی 828ھ) نے «الافهام بمادقع فى البخاري من الابهام» کے نام سے کتاب لکھی۔

◈ علامہ القاضی محمد بن احمد علوی الاسماعیلی نے «توضيح طرق الرشاد لحسم مادة الالحاد» صحیحین کے دفاع پر رسالہ لکھا۔

◈ شیخ ربیع بن ھادی حفظہ اللہ نے امام دار قطنی کے اعتراضات کے جوابات بنام «الاستدراك والتتبع» لکھا۔

◈ مولانا ابوالقاسم بنارسی رحمہ اللہ نے ڈاکٹر عمر کریم کے رسالوں کا مختلف انداز میں جواب دیئے بنام «حل مشكلات البخاري» «الكوثر الجاري فى جواب الجرع على البخاري» کے نام سے دیا۔

◈ الشیخ حافظ ثناءاللہ الذٰھدی حفظہ اللہ نے بھی اس موضوع پر ایک رسالہ تحریر کیا بنام «احاديث الصحيحين» الشیخ شمس الحق محدث ڈیانوی رحمہ اللہ نے بھی امام دار قطنی کے اعتراضات کے جوابات «الاستددراك» پر حاشیہ لکھا ہے۔

◈ مولانا ارشاد الحق اثری حفظ اللہ نے بھی بخاری و مسلم کے دفاع پر حبیب الرحمن صدیق کاندھلوی کی کتاب مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت کا جواب لکھا۔ ان کے علاوہ بھی کئی اہل علم ہیں جنہوں نے بھرپور انداز سے احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خصوصاً صحیحین کی احادیث کے دفاع کا فریضہ انجام دیا۔ «جزاهم الله خيراً»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 88