صحيح البخاري
كِتَاب الْإِيمَانِ -- کتاب: ایمان کے بیان میں
1. بَابُ الإِيمَانِ وَقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔
وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي [سورة البقرة آية 260]، وَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: اجْلِسْ بِنَا نُؤْمِنْ سَاعَةً، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: الْيَقِينُ الْإِيمَانُ كُلُّهُ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: لَا يَبْلُغُ الْعَبْدُ حَقِيقَةَ التَّقْوَى حَتَّى يَدَعَ مَا حَاكَ فِي الصَّدْرِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ، أَوْصَيْنَاكَ يَا مُحَمَّدُ وَإِيَّاهُ دِينًا وَاحِدًا، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا سَبِيلًا وَسُنَّةً.
‏‏‏‏ اور ابراہیم علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں وارد ہوا ہے کہ لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسلی ہو جائے۔ اور معاذ رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ایک صحابی (اسود بن بلال نامی) سے کہا تھا کہ ہمارے پاس بیٹھو تاکہ ایک گھڑی ہم ایمان کی باتیں کر لیں۔ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ یقین پورا ایمان ہے (اور صبر آدھا ایمان ہے۔ رواہ الطبرانی) اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ بندہ تقویٰ کی اصل حقیقت یعنی کہنہ کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ جو بات دل میں کھٹکتی ہو اسے بالکل چھوڑ نہ دے۔ اور مجاہد رحمہ اللہ نے آیت کریمہ «شرع لکم من الدين» الخ کی تفسیر میں فرمایا کہ (اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ ٹھہرایا جو نوح علیہ السلام کے لیے ٹھہرایا تھا) اس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد! ہم نے تم کو اور نوح کو ایک ہی دین کے لیے وصیت کی ہے اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کریمہ «شرعة ومنهاجا‏» کے متعلق فرمایا کہ اس سے «سبيل» (سیدھا راستہ) اور سنت (نیک طریقہ) مراد ہے۔