مسند الشهاب
احادیث801 سے 1000
558. لَا يَنْتَطِحُ فِيهَا عَنْزَانِ
اس میں دو بکریوں کے سر بھی نہیں ٹکرائیں گے (یعنی اس معاملے میں دو رائے نہیں ہیں)
حدیث نمبر: 858
858 - أنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْأَصْبَهَانِيُّ، نا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ التُّسْتَرِيُّ، وَذُو النُّونِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا نا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَسْكَرِيُّ، نا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، نا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، أنا الْوَاقِدِيُّ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ فَضْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَتْ عَصْمَاءُ بِنْتُ مَرْوَانَ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ، وَكَانَ زَوْجُهَا يَزِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ حِصْنٍ الْخَطْمِيُّ، وَكَانَتْ تُحَرِّضُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَتُؤْذِيهِمْ، وَتَقُولُ الشِّعْرَ، فَجَعَلَ عُمَيْرُ بْنُ عَدِيٍّ نَذْرًا أَنَّهُ لَئِنْ رَدَّ اللَّهُ رَسُولَهُ سَالِمًا مِنْ بَدْرٍ لَيَقْتُلَنَّهَا، قَالَ: فَعَدَا عَلَيْهَا عُمَيْرٌ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ فَقَتَلَهَا، ثُمَّ لَحِقَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى مَعَهُ الصُّبْحَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَصَفَّحُهُمْ إِذَا قَامَ يَدْخُلُ مَنْزِلَهُ، فَقَالَ لِعُمَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ: «قَتَلْتَ عَصْمَاءَ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَلْ عَلَيَّ فِي قَتْلِهَا شَيْءٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَنْتَطِحُ فِيهَا عَنْزَانِ» ، فَهِيَ أَوَّلُ مَا سَمِعْتُ هَذِهِ الْكَلِمَةَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبدالله بن حارث بن فضل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: عصما بنت مروان بنی امیہ بن زید میں سے تھی، یزید بن زید بن حصن خطمی اس کا شوہر تھا، وہ مسلمانوں کے خلاف (لوگوں کو) بھڑ کا یا کرتی تھی انہیں ستاتی اور گستاخانہ شعر کہا کرتی تھی۔ عمیر بن عدی نے نذر مان لی کہ اگر اللہ تعالیٰ ٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ بدر سے صحیح سالم واپس لے آیا تو وہ (عمیر) ضرور اس عورت کو قتل کر دے گا۔ راوی کہتا ہے کہ (جب آپ جنگ بدر سے واپس آگئے تو) عمیر نے (نذر پوری کرتے ہوئے) رات کے اندھیرے میں اس پر حملہ کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آملا، اس نے آپ کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے غور سے دیکھتے رہے جب آپ اٹھ کر اپنے گھر جانے لگے تو آپ نے عمیر بن عدی سے فرمایا: تو نے عصما کو قتل کر دیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ (عمیر کہتے ہیں) میں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اس کے قتل میں مجھ پر کوئی چیز (دیت یا گناہ وغیرہ) ہے؟ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں دو بکریوں کے سر بھی نہیں ٹکرائیں گے۔ یہ کلمہ (محاور ہ) پہلی بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اطہر سے سنا گیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا، وأخرجه المغازى للواقدى ص: 151»
واقدی کذاب ہے۔