صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة -- مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
28. باب اسْتِحْبَابِ إِتْيَانِ الصَّلاَةِ بِوَقَارٍ وَسَكِينَةٍ وَالنَّهْيِ عَنْ إِتْيَانِهَا سَعْيًا:
باب: نماز کے لئے وقار و سکون سے آنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1359
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح، قَالَ: وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ زِيَادٍ ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُيَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، وَأَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح، قَالَ: وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَلَا تَأْتُوهَا تَسْعَوْنَ، وَأْتُوهَا تَمْشُونَ وَعَلَيْكُمُ السَّكِينَةُ، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا ".
‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جب نماز شروع ہو جائے تو دوڑتے ہوئے مت آؤ بلکہ چلتے ہوئے سکون سے آؤ اور جو امام کے ساتھ ملے پڑھ لو اور جو نہ ملے اس کو پورا کر لو۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 572  
´نماز کے لیے دوڑ کر آنے کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب نماز کی تکبیر کہہ دی جائے تو نماز کے لیے دوڑتے ہوئے نہ آؤ، بلکہ اطمینان و سکون کے ساتھ چلتے ہوئے آؤ، تو اب جتنی پاؤ اسے پڑھ لو، اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کر لو۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: زبیدی، ابن ابی ذئب، ابراہیم بن سعد، معمر اور شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے اسی طرح: «وما فاتكم فأتموا» کے الفاظ روایت کئے ہیں، اور ابن عیینہ نے تنہا زہری سے لفظ: «فاقضوا» روایت کی ہے۔ محمد بن عمرو نے ابوسلمہ سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، اور جعفر بن ربیعہ نے اعرج سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے لفظ: «فأتموا» سے روایت کی ہے، اور اسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اور انس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور ان سب نے: «فأتموا» کہا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 572]
572. اردو حاشیہ:
➊ لفظ  «فاتموا»  مکمل کرو سے استدلال یہ ہے کہ «مسبوق» جسے پوری جماعت نہ ملی ہو جہاں سے اپنی نماز شروع کرتا ہے وہ اس کی ابتداء ہوتی ہے۔ اور بعد از جماعت کی نماز اس کا آخر۔ امام ابوداؤد نے دلائل دیئے ہیں۔ کہ اکثر رواۃ  «فاتموا»  کا لفظ بیان کرتے ہیں، مگر کچھ حضرات کہتے ہیں کہ  «فاقضوا»  قضا دو کا مفہوم یہ ہے کہ مسبوق امام کے ساتھ جو پڑھتا ہے۔ وہ اس کی نماز کا آخری حصہ ہوتا ہے۔ جیسے کے امام کی نماز کا لہٰذا اٹھ کر اسے فوت شدہ نماز کی قضا کی نیت کرنی چاہیے۔ لیکن یہ لفظ شاذ ہے، جیسے کہ اس کی بابت شیخ البانی کی صراحت آگے آ رہی ہے۔ اس لئے راحج ہے کہ جہاں سے شروع کرے گا۔ وہ اس کی ابتداء ہو گی اور لفظ  «فاقضوا»  میں قضا ہمیشہ فوت شدہ کے لئے استعمال نہیں ہوتا۔ بلکہ ادا کرنے، پورا کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ مثلاً  «فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ»  جب نماز پوری ہو جائے اور  «فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ»  جب تم اپنے مناسک حج پورے کر لو۔ اسی طرح  «فاتموا»  اور  «فاقضوا»  میں تعارض نہیں رہتا۔  [عون المعبود]
➋ سورہ جمعہ کی آیت کریمہ بظاہر اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ کر آنے کا حکم ہے۔ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ»  اور حدیث مذکورہ بالا میں سعی (دوڑنا) منع ہے تو اس میں تعارض کا حل یہ ہے کہ دراصل آیت کریمہ میں حکم یہ ہے کہ اپنے مشاغل دنیوی یا غفلت اور کسل مندی و سستی کو ترک کر کے جمعہ کے لئے جلدی کرو۔ گویا آیت میں سعیٰ دوڑ کر آنے کا مطلب فوراً دنیوی مشاغل ترک کر کے مسجد میں پہنچنا ہے۔ اور حدیث میں مسجد کی طرف آنے کا ادب بتایا گیا ہے کہ دوڑنے کی بجائے، باوقار چال سے چل کر آؤ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 572   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 862  
´نماز کے لیے دوڑ کر جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نماز کے لیے آؤ تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ، بلکہ چلتے ہوئے آؤ، اور تم پر (وقار) سکینت طاری ہو، نماز جتنی پاؤ اسے پڑھ لو، اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کر لو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 862]
862 ۔ اردو حاشیہ:
➊ نماز کی طرف دوڑ کر آنا سنجیدگی کے خلاف ہے، بے ادبی ہے، مسجد کی حرمت کے خلاف ہے۔ رب العالمین کے حضور حاضری معمولی بات نہیں۔ اس میں کامل سکون اور وقار چاہیے۔ عام معاملات میں بھی جلدبازی نامناسب ہے۔ اس کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے کیونکہ اس میں عام طور پر جانی اور مالی نقصان ہو جاتا ہے۔ عزت کا نقصان تو ہے ہی۔
➋ جو نماز امام کے ساتھ مل جائے، وہ اتبدائے نماز ہے یا امام والی؟ اس میں اختلاف ہے، یعنی مقتدی کی وہ کون سی رکعتیں شمار ہوں گی؟ پہلی شمار ہوں گی تو وہ بقیہ رکعتیں آخری رکعتوں کی طرح پڑھے گا اور اگر امام کی ترتیب کے حساب سے شمار ہوں گی تو بقیہ رکعتیں وہ ابتدائی رکعتوں کی طرح پڑھے گا۔ شوافع پہلی اور احناف دوسری بات کے قائل ہیں۔ دونوں طرف دلائل ہیں۔ اس حدیث کے آخری لفظ «فَاقْضُوا» امام شافعی رحمہ اللہ کے مؤید ہیں اور یہی راجح ہے۔ واللہ أعلم۔ نیز اکثر روایات میں «فأتِمُّوا» کے الفاظ وارد ہیں جس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ مقتدی جہاں سے آغاز کرے گا، وہی اس کی ابتدائے نماز ہو گی۔ جو رہ چکی ہو گی، بعد میں اس کی تکمیل کرے گا، لہٰذا بعض احادیث میں منقول الفاظ «فَاقْضُوا» کے معنیٰ بھی یہی ہوں گے، یعنی جو نماز رہ چکی ہو، اسے بعد میں ادا کر لیا جائے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرة العقبٰی، شرح سنن النسائي: 10؍355]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 862   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث775  
´نماز کے لیے چل کر مسجد جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ، بلکہ اطمینان سے چل کر آؤ، امام کے ساتھ جتنی نماز ملے پڑھ لو، اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کر لو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 775]
اردو حاشہ:
(1)
نماز باجماعت بہت ثواب والا عمل ہے اس کے حصول کی کوشش کرنا اچھی بات ہے لیکن اس مقصد کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ گھر سے بروقت روانہ ہوں۔
گھر سے روانہ ہوتے وقت دیر کردینا اور پھر نماز میں ملنے کے لیے بھاگنا درست نہیں۔

(2)
اطمینان سے چلنے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی اس قدر آہستہ چلے گویا اسے نماز باجماعت کی کوئی پرواہ نہیں۔
مقصد یہ ہے کہ وقار کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضر ہو۔

(3)
بھاگ کر جماعت سے ملنے کے ممنوع ہونے میں یہ حکمت ہو سکتی ہے کہ نماز میں ملنے تک سانس نہ پھول جائے کیونکہ اس صورت میں نماز خشوع خضوع اور توجہ سے نہیں ادا کی جاسکے گی۔
واللہ اعلم
(4)
جو شخص نماز باجماعت میں اس وقت ملتا ہے جب امام ایک یا زیادہ رکعت ادا کرچکا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے بلکہ نماز پوری کرنے کے بعد سلام پھیرے۔
علمائے کرام کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ جو رکعتیں امام کے سلام پھیرنے کے بعد پڑھی جائیں گی وہ نمازی کی آخری رکعتیں ہوں گی یا ابتدائی رکعتیں؟ اس حدیث میں مذکور الفاظ سے یہ سمجھا جا سکتا ہےکہ امام کے ساتھ پڑھی ہوئی رکعتیں مقتدی کی ابتدائی رکعتیں ہیں صحیح بخاری میں بھی (صحيح البخاري، الأذان باب لا يسعي إلي الصلاة وَلْيَأْتِهَا بالسكينة والوقار، حديث: 636)
صحیح مسلم میں بھی زیادہ روایات اسی طرح کی ہے البتہ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
(وَاقْضِ مَا سَبَقَكَ) (صحيح مسلم، المساجد، باب استحباب إِتيان الصلاة بوقار و سكينة۔
۔
۔
۔
۔
، حديث: 602)

اس سے یہ دلیل لی گئی ہے کہ بعد میں پڑھی جانے والی رکعتیں اصل میں پہلی رکعتیں ہیں یعنی چھوٹی ہوئی رکعتوں کی قضاء ہے۔
علامہ محمد فواد عبد الباقی رحمہ اللہ  نے اس حدیث کے حاشہ میں فرمایا ہے:
یہاں قضاء سے مراد صرف فعل (ایک کام کو انجام دینا)
ہے وہ قضاء مراد نہیں جو فقہاء کی اصطلاح ہے جیسے کہ اس آیت مبارکہ میں ہے کہ (فَقَضٰهُنَّ سَبعَ سَمٰوٰت) (حم السجدة: 12) (الله تعالی نے انھیں سات آسمان بنا دیا)
اور اس آیت میں:
(فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ) (البقرة: 200)
 (جب تم اپنے اعمال حج پورے کرلو۔
۔
۔
۔)

اور اس آیت میں (فَإِذَاقُضِيَتِ الصَّلٰوةُ) (الجمعه: 10)
 (جب نماز پوری ہوجائے۔)
اور جیسے کہا جاتا ہے قَضَيْتُ حَقَّ فَلَانٍ میں نے فلاں کا حق ادا کردیا ان تمام مقامات پر قضاء سے مراد کوئی کام کرنا اور اسے انجام دینا ہے۔
حدیث کی مشہور کتاب بلوغ المرام کی شرح سبل السلام میں امام امیر صنعانی ؒ نے فرمایا:
اس مسئلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ بعد میں آنے والاامام کے ساتھ جو نماز پڑھتا ہے وہ اس کی پہلی رکعتیں ہوتی ہیں یا آخری؟ صحیح بات یہ ہے کہ وہ پہلی ہی ہوتی ہیں۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 775   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 335  
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم نماز کی اقامت سنو تو نماز کی طرف اطمینان و سکون اور وقار کے ساتھ چل کر آؤ۔ جلدی اور عجلت مت کرو۔ جتنی نماز جماعت کے ساتھ پا لو اتنی پڑھ لو اور جو باقی رہ جائے اسے (بعد میں) پورا کر لو۔ (بخاری و مسلم) متن حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 335»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب لا يسعي إلي الصلاة....، حديث:636، ومسلم، المساجد، باب استحباب إتيان الصلاة بوقار سكينة، حديث:602.»
تشریح:
اس حدیث کی رو سے نمازی جب مسجد میں نماز باجماعت کے لیے آئے تو بڑے آرام و سکون اور وقار و عزت کے ساتھ آئے۔
دوڑتا ہوا نہ آئے۔
چلتے ہوئے نگاہیں نیچی رکھے۔
بولنے کی ضرورت ہو تو دھیمی اور پست آواز سے بولے۔
یوں اطمینان سے آنے کے بعد امام کو جس حالت میں پائے، نماز میں شریک ہو جائے اور باقی نماز کو بعد میں کھڑا ہو کر پورا کر لے۔
ایسی صورت میں مقتدی نے جو نماز امام کے ساتھ پڑھی وہ اس نمازی کی پہلی رکعتیں شمار ہوں گی یا پچھلی؟ اس میں ائمہ کا اختلاف ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس مقتدی کی پچھلی رکعتیں شمار ہوں گی جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مقتدی کی یہ پہلی رکعتیں شمار ہوں گی۔
یہی بات حدیث کے الفاظ فَأَتِمُّوا کے موافق ہے‘ نیز یہ مسئلہ بھی مختلف فیہ ہے کہ رکوع میں شامل ہونے والے کی یہ رکعت شمار ہوگی یا نہیں؟ محتاط ترین اور قرین صواب بات یہ ہے کہ رکعت نہیں ہوگی کیونکہ رکوع میں شامل ہونے کی صورت میں سورۂ فاتحہ اور قیام کی ادائیگی نہیں ہو پاتی‘ یہ دونوں رکن نماز ہیں۔
ان کے فقدان سے نماز کیسے ہوگی؟
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 335