صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
165. بَابُ سُرْعَةِ انْصِرَافِ النِّسَاءِ مِنَ الصُّبْحِ، وَقِلَّةِ مَقَامِهِنَّ فِي الْمَسْجِدِ:
باب: صبح کی نماز پڑھ کر عورتوں کا جلدی سے چلا جانا اور مسجد میں کم ٹھہرنا۔
حدیث نمبر: 872
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا سَعيدُ بْنُ مَنْصًورٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا،" أَنّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الصُّبْحَ بِغَلَسٍ، فَيَنْصَرِفْنَ نِسَاءُ الْمُؤْمِنِينَ، لَا يُعْرَفْنَ مِنَ الْغَلَسِ أَوْ لَا يَعْرِفُ بَعْضُهُنَّ بَعْضًا".
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن منصور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فلیح بن سلیمان نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے بیان کیا، ان سے اس کے باپ (قاسم بن محمد بن ابی بکر) نے ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز منہ اندھیرے پڑھتے تھے۔ مسلمانوں کی عورتیں جب (نماز پڑھ کر) واپس ہوتیں تو اندھیرے کی وجہ سے ان کی پہچان نہ ہوتی یا وہ ایک دوسری کو نہ پہچان سکتیں۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 546  
´حضر (حالت اقامت) میں فجر اندھیرے میں پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھتے تھے (آپ کے ساتھ نماز پڑھ کر) عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی لوٹتی تھیں، تو وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 546]
546 ۔ اردو حاشیہ:
➊رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز عمومی طور پر اندھیرے میں شروع فرماتے اور اندھیرے ہی میں مکمل فرما لیتے، لہٰذا جب عورتیں پردے میں واپس جاتیں تو اندھیرے کی وجہ سے ان کی چال ڈھال کا اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ انہیں پہچانا جا سکے۔
➋عورتوں کی پہچان عموماً چال ڈھال سے ہوتی ہے کیونکہ وہ ہمیشہ پردے میں رہتی ہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ وہ چادروں کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں، غلط ہے۔ اگر یہ وجہ ہو تو پھر وہ دوپہر کو بھی نہ پہچانی جائیں کیونکہ چادر میں تو اس وقت بھی ہوں گی۔ دراصل وجہ اندھیرا ہی ہے، اس لیے بھی کہ اس روایت میں صراحتاً یہی علت بیان کی گئی ہے۔
➌عورتیں کسی بھی نماز کے لیے مسجد میں آسکتی ہیں۔ بعض حضرات کا رات اور دن کی نمازوں اور بوڑھی اور جوان عورت میں فرق کرنا بے دلیل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 546   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 423  
´فجر کے وقت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز صبح (فجر) ادا فرماتے، پھر عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی واپس لوٹتیں تو اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 423]
423۔ اردو حاشیہ:
➊ ا س حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حد تک اول وقت میں نماز ادا کرتے تھے کہ بعد از نماز بھی اندھیرا باقی ہوتا تھا اور دور سے معلوم نہ ہوتا تھا کہ کوئی عورت آ رہی ہے یا مرد؟ ورنہ پردہ دار خاتون کے پہچانے جانے کے کوئی معنی نہیں۔
➋ خلافت راشدہ کے دور میں بھی اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کا یہ معمول تھا کہ وہ فجر کی نماز غلس یعنی اندھیر ے میں پڑھا کرتے تھے۔
➌ عورتوں کو بھی نماز کے لیے مسجد میں حاضر ہونے کی اجازت ہے اور وہ اندھیرے کے اوقات میں بھی نماز کے لیے آ سکتی ہیں مگر ان پر فرض ہے کہ شرعی آداب کے تحت اجازت لے کر آئیں، باپردہ ہو کر نکلیں، خوشبو لگا کر اور آواز دار زیور پہن کر نہ آئیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 423   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 872  
872. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز منہ اندھیرے پڑھتے تھے، چنانچہ مومنوں کی عورتیں جب نماز پڑھ کر واپس جاتیں تو اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں یا وہ خود ایک دوسرے کو نہیں پہچان سکتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:872]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
نماز ختم ہوتے ہی عورتیں واپس ہو جاتی تھیں اس لیے ان کی واپسی کے وقت بھی اتنا اندھیرا رہتا تھا کہ ایک دوسری کو پہچان نہیں سکتی تھی۔
لیکن مرد فجر کے بعد عام طور سے نماز کے بعد مسجد میں کچھ دیر کے لیے ٹھہرتے تھے۔
حضرت اما م بخاری ؒ کو اللہ پاک نے اجتہاد کا درجہ کامل عطا فرمایا تھا۔
اسی بنا پر آپ نے اپنی جامع الصحیح میں ایک ایک حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے حدیث مذکور پیچھے بھی کئی بار مذکورہو چکی ہے۔
حضرت امام ؒ نے اس سے فجر کی نماز اول وقت غلس میں پڑھنے کا اثبات فرمایا ہے۔
اور یہاں عورتوں کا شریک جماعت ہونا اور سلام کے بعد ان کا فوراً مسجد سے چلے جانا وغیرہ مسائل بیان فرمائے ہیں۔
تعجب ہے ان عقل کے دشمنوں پر جو حضرت امام جیسے مجتہد مطلق کی درایت کا انکار کرتے اور آپ کو صرف روایت کا امام تسلیم کرتے ہیں حالانکہ روایت اور درایت ہر دو میں آپ کی مہارت تامہ ثابت ہے اور مزید خوبی یہ کہ آپ کی درایت وتفقہ کی بنیاد محض قرآن وحدیث پر ہے رائے اور قیاس پر نہیں جیسا کہ دوسرے ائمہ مجتہدین میں سے بعض حضرات کا حال ہے جن کے تفقہ کی بنیاد محض رائے اور قیاس پر ہے۔
حضرت امام بخاری ؒ کو اللہ نے جو مقام عطا فرمایا تھا وہ امت میں بہت کم لوگوں کے حصہ میں آیا ہے۔
اللہ نے آپ کو پیدا ہی اس لیے فرمایا تھا کہ شریعت محمدیہ کو قرآن وسنت کی بنیاد پر اس درجہ منضبط فرمائیں کہ قیامت تک کے لیے امت اس سے بے نیاز ہو کے بے دھڑک شریعت پر عمل کرتی رہے۔
آیت شریفہ:
﴿وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلحَقُوابِھِم﴾ (الجمعة: 3)
کے مصداق بے شک وشبہ ان ہی محدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین کی جماعت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 872   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:872  
872. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز منہ اندھیرے پڑھتے تھے، چنانچہ مومنوں کی عورتیں جب نماز پڑھ کر واپس جاتیں تو اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں یا وہ خود ایک دوسرے کو نہیں پہچان سکتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:872]
حدیث حاشیہ:
(1)
صبح کی نماز کے فورا بعد مستورات کی واپسی کا عمل شروع ہو جاتا تھا اور وہ اندھیرے میں مسجد سے چلی جاتی تھیں۔
(2)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں نماز صبح کا بطور خاص ذکر کیا ہے کیونکہ اگر وہ مسجد میں نماز کے بعد ٹھہرتیں تو دن روشن ہو جاتا جو ان کے ستر کے لیے مناسب نہیں تھا۔
عشاء کا معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ اس کے بعد اگر مسجد میں ٹھہر جاتیں تو تاریکی میں مزید اضافہ ہو گا جو ان کے پردے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔
(فتح الباري: 453/2) (3)
عنوان بالا کا مقصد بھی یہی ہے کہ عورتیں نماز کے بعد گھروں کو واپس جانے میں جلدی سے کام لیں کیونکہ ان کا ٹھہرنا مردوں کے لیے تکلیف اور آزمائش کا باعث ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 872