صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة -- مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
40. باب اسْتِحْبَابِ التَّبْكِيرِ بِالصُّبْحِ فِي أَوَّلِ وَقْتِهَا وَهُوَ التَّغْلِيسُ وَبَيَانِ قَدْرِ الْقِرَاءَةِ فِيهَا:
باب: صبح کی نماز کے لئے سویرے جانے اور اس کی قرأت کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 1459
وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، وَإِسْحَاق بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَعْنٌ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَمْرَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيُصَلِّي الصُّبْحَ، فَيَنْصَرِفُ النِّسَاءُ، مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ، مَا يُعْرَفْنَ مِنَ الْغَلَسِ "، وَقَالَ الأَنْصَارِيُّ فِي رِوَايَتِهِ: مُتَلَفِّفَاتٍ.
نصر بن علی جہضمی اور اسحاق بن موسیٰ انصاری نے کہا: ہمیں معن نے مالک سے حدیث بیان کی، انھوں نے یحییٰ بن سعید سے، انھوں نے عمرہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایسا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھتے تو عورتیں اپنی چادریں اوڑھے ہوئے گھروں کو لوٹتیں، (اور) اندھیرےکی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ انصاری کی روایت میں (متلفعات کے بجائے) متلففات (چادروں میں لپٹی ہوئی) کے الفاظ ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھتے تو عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی گھروں کو لوٹتیں، اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں، انصاری کی روایت میں مُتَلَفِّعَات کی جگہ مُتَلَفِّفَات ہے، چادروں میں ملفوف۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 546  
´حضر (حالت اقامت) میں فجر اندھیرے میں پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھتے تھے (آپ کے ساتھ نماز پڑھ کر) عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی لوٹتی تھیں، تو وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 546]
546 ۔ اردو حاشیہ:
➊رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز عمومی طور پر اندھیرے میں شروع فرماتے اور اندھیرے ہی میں مکمل فرما لیتے، لہٰذا جب عورتیں پردے میں واپس جاتیں تو اندھیرے کی وجہ سے ان کی چال ڈھال کا اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ انہیں پہچانا جا سکے۔
➋عورتوں کی پہچان عموماً چال ڈھال سے ہوتی ہے کیونکہ وہ ہمیشہ پردے میں رہتی ہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ وہ چادروں کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں، غلط ہے۔ اگر یہ وجہ ہو تو پھر وہ دوپہر کو بھی نہ پہچانی جائیں کیونکہ چادر میں تو اس وقت بھی ہوں گی۔ دراصل وجہ اندھیرا ہی ہے، اس لیے بھی کہ اس روایت میں صراحتاً یہی علت بیان کی گئی ہے۔
➌عورتیں کسی بھی نماز کے لیے مسجد میں آسکتی ہیں۔ بعض حضرات کا رات اور دن کی نمازوں اور بوڑھی اور جوان عورت میں فرق کرنا بے دلیل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 546   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 423  
´فجر کے وقت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز صبح (فجر) ادا فرماتے، پھر عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی واپس لوٹتیں تو اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 423]
423۔ اردو حاشیہ:
➊ ا س حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حد تک اول وقت میں نماز ادا کرتے تھے کہ بعد از نماز بھی اندھیرا باقی ہوتا تھا اور دور سے معلوم نہ ہوتا تھا کہ کوئی عورت آ رہی ہے یا مرد؟ ورنہ پردہ دار خاتون کے پہچانے جانے کے کوئی معنی نہیں۔
➋ خلافت راشدہ کے دور میں بھی اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کا یہ معمول تھا کہ وہ فجر کی نماز غلس یعنی اندھیر ے میں پڑھا کرتے تھے۔
➌ عورتوں کو بھی نماز کے لیے مسجد میں حاضر ہونے کی اجازت ہے اور وہ اندھیرے کے اوقات میں بھی نماز کے لیے آ سکتی ہیں مگر ان پر فرض ہے کہ شرعی آداب کے تحت اجازت لے کر آئیں، باپردہ ہو کر نکلیں، خوشبو لگا کر اور آواز دار زیور پہن کر نہ آئیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 423   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1459  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر اندھیرے میں نماز پڑھتے تھے کہ نماز سے فراغت کے بعد واپس جانے والی عورتوں کا پتہ نہیں چلتا تھا کہ مرد جا رہے ہیں یا عورتیں جا رہی ہیں یا ان میں یہ امتیاز نہیں ہو سکتا تھا کہ کونسی عورت جا رہی ہے حالانکہ روشنی میں عورت کی چال ڈھال اور ہئیت کذائی سے واقف کار اس کی شخصیت کو پہچان لیتے ہیں اس لیے جمہور کے نزدیک جس میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ شامل ہیں اندھیرے میں نماز پڑھنا بہتر ہے اور (اسفروا بالفجر یاأصبحوا بالصبح)
کا معنی یہ ہے کہ قرآءت طویل کرو تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ پہلی رکعت میں شریک ہو سکیں ہاں بعض مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت کے تحت صبح کی نماز دیر سے بھی پڑھی ہے نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پردہ کی پابندی کرتے ہوئے عورتیں مسجد میں باجماعت نماز پڑھ سکتی ہیں۔
(2) (أصبحوا بالصبح)
یہ توضیح (واسفروا بالفجر)
کا لفظ کر رہا ہے کہ صبح اچھی طرح ہو جائے صبح ہونے میں کوئی شک و شبہ نہ رہے یعنی اذان صبح صادق کے بعد کہی جائے صبح کاذب میں نہیں،
اسفار روشنی کو کہتے ہیں صبح روشن اس وقت ہو گی جب اچھی طرح صبح ہو جائے گی اس لیے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح کی نماز میں سورہ بقرہ پڑھ لیتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورہ ہود اور یوسف اور رعد پڑھ لیتے تھے اگر اس کا معنی احناف والا لیا جائے تو اس قدر طویل قرآءت ممکن نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1459