صحيح البخاري
كِتَاب الْجُمُعَةِ -- کتاب: جمعہ کے بیان میں
2. بَابُ فَضْلِ الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَهَلْ عَلَى الصَّبِيِّ شُهُودُ يَوْمِ الْجُمُعَةِ أَوْ عَلَى النِّسَاءِ:
باب: جمعہ کے دن نہانے کی فضیلت اور اس بارے میں بچوں اور عورتوں پر جمعہ کی نماز کے لیے آنا فرض ہے یا نہیں؟
حدیث نمبر: 877
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمُ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی اور ان کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی شخص جمعہ کی نماز کے لیے آنا چا ہے تو اسے غسل کر لینا چاہیے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 212  
´جمعہ کی نماز کے لئے غسل کرنا مستحب ہے`
«. . . وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا جاء احدكم الجمعة فليغتسل. . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ (کی نماز) کے لئے آئے تو وہ غسل کرے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 212]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 877، من حديث مالك و مسلم 844، من حديث نافع به]
تفقہ:
➊ اس حدیث اور دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا ضروری (واجب) ہے لیکن بعض احادیث سے ثابت ہے کہ یہ غسل ضروری نہیں بلکہ سنت و مستحب ہے۔
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من توضأ فبھا ونعمت ومن اغتسل فذلك أفضل۔» جس نے وضو کیا تو اچھا کیا اور جس نے غسل کیا تو یہ افضل ہے۔ [صحيح ابن خزيمه: 1757، وسنده حسن، سنن ابي داؤد: 354، والحسن البصري صرح بالسماع عند الطّوسي فى مختصر الاحكام 3/10 ح467/334 وسنده حسن]
◈ حسن بصری کی سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کتاب سے روایت کی وجہ سے حسن ہوتی ہے چاہے سماع کی تصریح ہو یا نہ ہو اور اس روایت میں تو انہوں نے سماع کی تصریح کردی ہے۔ «والحمدلله»
➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: غسل جنابت کی طرح جمعہ کے دن غسل کرنا بھی ہر نوجوان پر واجب ہے۔ [الموطأ 1/101 ح224، وسنده صحيح]
◈ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جمعہ کے دن غسل سنت میں سے ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/96 ح5020 وسنده صحيح، البزار فى كشف الاستار: 627]
◈ امام شعبی نے فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن وضو کرے تو اچھا ہے اور جو غسل کرے تو افضل ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/96، 97 ح5023 وسنده صحيح]
➌ مجاہد تابعی نے فرمایا: جمعہ کے دن جو شخص طلوع فجر کے بعد غسل کرے تو یہ اس کے لئے غسل جمعہ کی طرف سے کافی ہے۔ [ابن ابي شيبه 2/99 ح5041 وسنده صحيح]
➍ نظافت کی ترغیب اور اجتماعات میں شرکت کے وقت نظافت کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 204   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 492  
´جمعہ کے دن کے غسل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو جمعہ کی نماز کے لیے آئے اسے چاہیئے کہ (پہلے) غسل کر لے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 492]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے جمعہ کے دن کے غسل کو واجب قرار دیا ہے،
اور جو وجوب کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں امر تاکید کے لیے ہے اس سے مراد وجوب اختیاری (استحباب) ہے جیسے آدمی اپنے ساتھی سے کہے تیرا حق مجھ پر واجب ہے یعنی مؤکد ہے،
نہ کہ ایسا وجوب جس کے ترک پر سزا اورعقوبت ہو۔
(اس تاویل کی وجہ حدیث رقم 497 ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 492   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:877  
877. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز جمعہ کے لیے آئے تو اسے چاہئے کہ غسل کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:877]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کے اس عنوان سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا ضروری نہیں بلکہ مستحب و افضل ہے۔
جیسا کہ علماء کے ایک گروہ کی یہی رائے ہے۔
ان کا استدلال ان روایات سے ہے جن میں اس سبب کی وضاحت کی گئی ہے جس کی وجہ سے جمعہ کے دن غسل کا حکم دیا گیا تھا، چنانچہ روایت میں ہے کہ لوگ اس وقت محنت مزدوری کرتے تھے۔
جب جمعے کا وقت ہوتا تو اسی حالت میں جمعہ کے لیے چلے آتے اور ان کے کپڑوں سے پسینے وغیرہ کی ناگوار بو آتی تھی جس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی تھی۔
اس بات کی شکایت جب رسول اللہ ﷺ سے کی گئی تو آپ نے فرمایا:
جو تم میں سے جمعہ کے لیے آئے اسے چاہیے کہ غسل کرے۔
(فتح الباري: 481/7٫2)
صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ حضرت عمرو نے ایک دن حضرت عائشہ ؓ سے جمعہ کے دن غسل کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:
لوگ گزر اوقات کے لیے محنت مزدوری کرتے تھے، جب جمعہ کے لیے آتے تو اسی حالت میں چلے آتے۔
انہیں کہا گیا:
بہتر ہے کہ تم غسل کر کے آؤ۔
(صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 903)
ایک روایت میں ہے کہ ان کے کپڑوں سے ناگوار بو آنے کی وجہ سے انہیں غسل کا حکم دیا گیا، (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2071)
تاہم دوسرے علماء وجوب غسل کے قائل ہیں جس کی تفصیل آگے آئے گی۔
(2)
بعض حضرات نے امام بخاری ؒ پر اعتراض کیا ہے کہ مذکورہ حدیث کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ عنوان تھا کہ آیا عورتیں اور بچے جمعہ کے لیے حاضر ہوں؟ جبکہ اس حدیث میں ان کے حاضر ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
اس کا بایں طور جواب دیا گیا ہے کہ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ عورتوں اور بچوں کو جمعہ کے لیے حاضر ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ آئندہ حدیث (879)
میں ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا بالغ افراد کے لیے ہے جبکہ بچے اس حکم سے مستثنیٰ ہیں تو انہیں جمعہ میں شریک ہونا بھی ضروری نہیں بلکہ انہوں نے اس طریقے سے ایک حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں اس امر کی وضاحت ہے کہ عورتوں اور بچوں پر جمعہ میں حاضر ہونا ضروری نہیں۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1067)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 877