صحيح مسلم
كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا -- مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
1. باب صَلاَةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا:
باب: مسافر کی نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 1579
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ، قَالَ: فَصَلَّى لَنَا الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَقْبَلَ، وَأَقْبَلْنَا مَعَهُ حَتَّى جَاءَ رَحْلَهُ وَجَلَسَ، وَجَلَسْنَا مَعَهُ، فَحَانَتْ مِنْهُ الْتِفَاتَةٌ نَحْوَ حَيْثُ صَلَّى، فَرَأَى نَاسًا قِيَامًا، فَقَالَ: مَا يَصْنَعُ هَؤُلَاءِ؟ قُلْتُ: يُسَبِّحُونَ، قَالَ: لَوْ كُنْتُ مُسَبِّحًا لَأَتْمَمْتُ صَلَاتِي يَا ابْنَ أَخِي، " إِنِّي صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ، فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ "، وَصَحِبْتُ أَبَا بَكْرٍ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ، وَصَحِبْتُ عُمَرَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ، ثُمَّ صَحِبْتُ عُثْمَانَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ، وَقَدْ قَالَ اللَّهُ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21.
عیسیٰ بن حضص بن عاصم بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے والد (حفص) سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے مکہ کے راستے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ سفر کیا، انھوں نے ہمیں ظہر کی نماز دو رکعتیں پڑھائی، پھر وہ اور ہم آگے بڑھے اور اپنی قیام گاہ پر آئے اور بیٹھ گئے، ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔پھر اچانک ان کی توجہ اس طرف ہوئی جہاں انھوں نے نماز پڑھی تھی، انھوں نے (وہاں) لوگوں کو قیام کی حالت میں دیکھاانھوں نےپوچھا، یہ لوگ کیا کررہے ہیں؟میں نے کہا: سنتیں پڑھ رہے ہیں۔انھوں نے کہا: اگر مجھے سنتیں پڑھنی ہوتیں تو میں نماز (بھی) پوری کرتا (قصر نہ کرتا) بھتیجے!میں سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا آپ نے دو رکعت سے زائد نماز نہ پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا اور میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہمرا ہ رہا انھوں نے بھی دو رکعت سے زائد نماز نہ پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی بلا لیا، اور میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ رہا، انھوں نے بھی دورکعت نما ز سے زائد نہ پڑھی۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی بلا لیا۔پھر میں عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دو سے زائد رکعتیں نہیں پڑھیں، یہا ں تک کہ اللہ نے انھیں بلا لیا اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "بے شک تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے عمل) میں بہترین نمونہ ہے۔"
حفص بن عاصم بیان کرتے ہیں کہ میں نے مکہ کے راستہ میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ سفر کیا۔ انہوں نے ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی، پھر وہ اور ہم اپنی قیام گاہ کی طرف بڑھے اور ہم ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اچانک انہوں نے اس جگہ کی طرف نظر دوڑائی جہاں انہوں نے نماز پڑھائی تھی تو لوگوں کو دیکھا کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے پوچھا: یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا سنتیں پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: اگر مجھے سنتیں پڑھنی ہوتیں تو میں نماز پوری پڑھتا (قصر نہ کرتا) اے میرے بھتیجے! میں سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض کر لی اور میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ رہا تو انہوں نے بھی دو رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قبضہ میں لے لیا اور میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ رہا تو تو انہوں نے دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو وفات دی اور میں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہ پڑھیں یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وفات پا گئے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نمونہ ہیں
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 458  
´نماز کیسے فرض ہوئی؟`
امیہ بن عبداللہ بن خالد بن اسید سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ آپ نماز (بغیر خوف کے) کیسے قصر کرتے ہیں؟ حالانکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: «‏فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم‏» اگر خوف کی وجہ سے تم لوگ نماز قصر کرتے ہو تو تم پر کوئی حرج نہیں (النساء: ۱۰۱) تو ابن عمر رضی اللہ عنہم نے کہا: بھتیجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس وقت آئے جب ہم گمراہ تھے، آپ نے ہمیں تعلیم دی، آپ کی تعلیمات میں سے یہ بھی تھا کہ ہم سفر میں دو رکعت نماز پڑھیں، شعیثی کہتے ہیں کہ زہری اس حدیث کو عبداللہ بن ابوبکر کے طریق سے روایت کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 458]
458 ۔ اردو حاشیہ:
➊اعتراض یہ تھا کہ قرآن مجید میں قصر صلاۃ کے لیے خوف کی قید مذکور ہے جب کہ یہ لوگ بغیر خوف کے قصر کر رہے ہیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اصولی جواب دیا کہ ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اصل ہے۔ قرآن مجید کا مطلب بھی وہی معتبر ہے جو آپ ارشاد فرمائیں کیونکہ قرآن مجید بھی تو آپ ہی لے کر آئے ہیں۔ آپ ہی اس کا صحیح مفہوم جانتے ہیں۔ آپ نے بارہا سفر میں قصر کی، حالانکہ کوئی خوف نہیں تھا، حتیٰ کہ حجۃ الوداع میں بھی قصر کی جب کہ آپ کی حکو مت قائم ہو چکی تھی۔
➋حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس اصولی جواب کے علاوہ بھی جوابات دیے گئے ہیں، مثلاً 1۔ جب قصر کی آیت اتری، اس وقت خوف بھی تھا، لہٰذا آیت میں واقعہ کی مناسبت سے خوف کا ذکر کر دیا گیا ورنہ یہ شرط مقصود نہ تھی، سفر ہی شرط تھا۔ 2۔ قرآن مجید میں صلاۃ خوف ہی کا ذکر ہے۔ صلاۃ سفر کا ذکر صرف احادیث میں ہے۔ قرآن مجید میں سفر کی نماز کا ذکر ہی نہیں۔ 3۔ (ان خفتم۔۔۔ الخ) سے صلاۃ خوف کا ذکر ہے اور اس سے پہلے صلاۃ سفر مذکور ہے، گویا (ان خفتم) کا تعلق ماقبل سے نہیں مابعد سے ہے، دونوں الگ الگ جملے ہیں۔
➌ امرنا سے مراد وجوبی حکم نہیں بلکہ استحبابی حکم مراد ہے جیسا کہ پیچھے گزرا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 458   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1067  
´سفر میں نماز قصر کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس شہر سے باہر نکلتے تو دو رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے یہاں تک کہ آپ یہاں لوٹ آتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1067]
اردو حاشہ:
فائدہ:
مذکورہ حدیث میں قصر نماز کی مسافت کی بابت اجمال ہے جبکہ صحیح مسلم کی روایت میں تفصیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ کا سفر کرتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے۔ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 691)
 حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت فرماتے ہیں کہ مسافت قصر کے بارے میں صحیح ترین اور صریح ترین روایت یہی ہے۔ (فتح الباري، 567/2)
 تاہم اس مسئلہ کی بابت تمام روایات اوراقوال کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نماز قصر کرنے کےلئے مذکورہ حدیث میں جو مسافت بیان ہوئی ہے وہ محض احتیاط کی بنا پر ہے۔
کہ آدمی اگر تین فرسخ یعنی 23، 22 کلومیٹر شہر کی حدود سے باہر جائے تو وہ نماز قصر ادا کرسکتا ہے۔
کیونکہ اس حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے۔
کہ رسول اللہ ﷺ تین میل یا تین فرسخ سے کم سفر کرتے تو اس میں قصر نہ کرتے اور نہ ہی شریعت میں مسافت قصر کی کوئی تحدید کی گئی ہے۔
بلکہ عرف میں اگر دو یا تین میل کی مسافت کو بھی سفر کہا جاتا ہو تو شرعاً اس میں بھی قصر جائز ہوگی۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اسی مسافت قصر کی بابت فرماتے ہیں۔
کہ نماز قصر کی ابتداء کے بارے میں صحیح یہ ہے کہ اس کےلئے کسی مسافت کی قید نہیں بلکہ شہر کی حدود پار کرنے سے ہی سے قصر شروع ہوجاتی ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (فتح الباری 567/2)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1067   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 544  
´سفر میں قصر نماز پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم کے ساتھ سفر کیا، یہ لوگ ظہر اور عصر دو دو رکعت پڑھتے تھے۔ نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھتے اور نہ اس کے بعد۔ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: اگر میں اس سے پہلے یا اس کے بعد (سنت) نماز پڑھتا تو میں انہی (فرائض) کو پوری پڑھتا۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 544]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث 551 پر مؤلف کے یہاں آ رہی ہے،
اور ضعیف و منکر ہے۔

2؎:
یہ صحیح بخاری کی روایت ہے،
اور بیہقی کی روایت ہے کہ انہوں نے سبب یہ بیان کیا کہ پوری پڑھنی میرے لیے شاق نہیں ہے،
گویا سفر میں قصر رخصت ہے اور اتمام جائز ہے،
اور یہی راجح قول ہے۔
رخصت کے اختیار میں سنت پرعمل اور اللہ کی رضا حاصل ہوتے ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 544   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1579  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نماز کے ساتھ سفر میں سنن مؤکدہ نہیں پڑھتے تھے لیکن صبح کی سنتیں پڑھتے تھے۔
اسی طرح وتر بھی پڑھتےتھے۔
اور عام نوافل بھی سواری پر بیٹھے بیٹھے پڑھتے تھے۔
اس لیے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سنن مؤکدہ کا حکم نوافل والا ہو گا۔
ان کو نفل کی حیثیت سے پڑھ لیا جائے گا۔
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی سفر میں فرض نماز سے پہلے اور بعد میں نفل پڑھا کرتے تھے۔
(زاد المعاد،
طبع احیاء التراث الاسلامی:
ج،
ص: 456)


حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ منیٰ کے سوا تمام مقامات پر سفر میں نماز قصر پڑھتے تھے۔
اس لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سفر میں آخر عمر تک دو رکعت سے زائد فرض نہیں پڑھے۔

احناف کے نزدیک مسافر اثنائے سفر میں سنت مؤکدہ نہ پڑھے اور حالت قیام میں پڑھ لے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1579