صحيح مسلم
كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا -- مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
13. باب اسْتِحْبَابِ صَلاَةِ الضُّحَى وَأَنَّ أَقَلَّهَا رَكْعَتَانِ وَأَكْمَلَهَا ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَأَوْسَطَهَا أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ أَوْ سِتٌّ وَالْحَثِّ عَلَى الْمُحَافَظَةِ عَلَيْهَا:
باب: نماز چاشت کے استحباب کا بیان کم از کم اس کی دورکعتیں اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعتیں اور درمیانی چار یا چھ ہیں اور ان کو ہمیشہ پڑھنے کی ترغیبیں۔
حدیث نمبر: 1669
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ ، تَقُولُ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ، فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ، وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ بِثَوْبٍ، قَالَتْ: فَسَلَّمْتُ، فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ؟ قُلْتُ: أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ، " قَامَ فَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ "، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ ابْنُ أُمِّي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلًا أَجَرْتُهُ فُلَانُ ابْنُ هُبَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ، قَالَتْ أُمُّ هَانِئٍ: وَذَلِكَ ضُحًى.
ابو نضر سے روایت ہے کہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہاتے ہوئے پایا جبکہ آپ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کو کپڑے سےچھپائے ہوئے تھیں (آگے پردہ کیا ہوا تھا) میں نے سلام عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون ہے؟میں نے کہا: ام ہانی بنت ابی طالب ہوں۔آپ نے فرمایا: "ام ہانی کو خوش آمدید!"جب آپ نہانے سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہوئے اور صرف ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے آٹھ رکعتیں پڑھیں، جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرا ماں جایا بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ چاہتا ہے کہ ایک ایسے آدمی کو قتل کردے جسے میں نے پناہ دے چکی ہوں۔یعنی ہبیرہ کا بیٹا، فلاں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امی ہانی! جس کو تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔"
حضرت ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئی تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو نہاتے ہوئے پایا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپصلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑے سے پردہ کیے ہوئے تھی۔ میں نے جا کر سلام عرض کیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام ہانی کو خوش آمدید تو جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نہانے سے فارغ ہوئے تو اٹھے اور آٹھ رکعات نماز پڑھی۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرا ماں جایا بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ایسے آدمی کو قتل کرنا چاہتا ہے جسے میں پناہ دے چکی ہوں جو فلاں ہے اور ہبیرة کا بیٹا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام ہانی جس کو تو نے پناہ دی ہم نے بھی پناہ دی ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا یہ چاشت کا وقت تھا۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1669  
´پردے کے مقام پر غسل کرنا`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ، تَقُولُ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ، فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ، وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ بِثَوْبٍ، قَالَتْ: فَسَلَّمْتُ، فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ؟ قُلْتُ: أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ . . .»
. . . ‏‏‏‏ ابوطالب کی بیٹی ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہاتے پایا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ایک کپڑے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ کئے ہوئے تھیں۔ پھر میں نے سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون؟ میں نے عرض کیا کہ ابوطالب کی بیٹی ام ھانی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خوش آمدید ام ہانی۔ . . . [صحيح مسلم/كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا/باب اسْتِحْبَابِ صَلاَةِ الضُّحَى وَأَنَّ أَقَلَّهَا رَكْعَتَانِ...: 1669]

تخريج الحديث:
[193۔ البخاري فى: 8 كتاب الصلاة: 4 باب الصلاة فى الثوب الواحد ملتحفا به 280، مسلم 336، ترمذي 2734]
فھم الحدیث: معلوم ہوا کہ کسی پردے کے مقام پر غسل کرنا چاہئیے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کہ عورت کا احترام کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پناہ کو قبول فرمایا ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 193   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1579  
´غلام اور عورت کو امان دینے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان عورت کسی کو پناہ دے سکتی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1579]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بعض روایات میں ہے کہ مسلمانوں کا ادنی آدمی بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے،
اس حدیث اور ام ہانی کے سلسلہ میں آپﷺ کا فرمان:
قد أجرنا من أجرت يا أم هاني سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان عورت بھی کسی کو پناہ دے سکتی ہے،
اور اس کی دی ہوئی پناہ کو کسی مسلمان کے لیے توڑ ناجائز نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1579   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1669  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا با پردہ نہانے والے شخص کو سلام کہنا اور اس سے ضروری گفتگو کرنا جائز ہے۔
جب کہ وہ کپڑا باندھے ہوئے کیونکہ آپﷺ بیٹی کے سامنے برہنہ نہیں ہو سکتے تھے۔
(2)
اگر کسی انسان کو عورت پناہ دے دے تو وہ نافذ العمل ہو گی۔
اس کی پناہ کو توڑنا درست نہیں ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور کا یہی موقف ہے،
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عورت کی دی ہوئی پناہ امام (امیر)
کی صواب دید پر موقوف ہے۔
وہ برقرار رکھے یا توڑ دے اس کی مرضی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1669