صحيح مسلم
کتاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ -- قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور
48. باب بَيَانِ أَنَّ الْقُرْآنَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ وَبَيَانِ مَعْنَاهُ:
باب: قرآن کا سات حرفوں میں اترنے اور اس کے مطلب کا بیان۔
حدیث نمبر: 1904
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ، فَدَخَلَ رَجُلٌ يُصَلِّي فَقَرَأَ قِرَاءَةً، أَنْكَرْتُهَا عَلَيْهِ، ثُمَّ دَخَلَ آخَرُ فَقَرَأَ قِرَاءَةً سِوَى قَرَاءَةِ صَاحِبِهِ، فَلَمَّا قَضَيْنَا الصَّلَاةَ، دَخَلْنَا جَمِيعًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ هَذَا قَرَأَ قِرَاءَةً، أَنْكَرْتُهَا عَلَيْهِ، وَدَخَلَ آخَرُ فَقَرَأَ سِوَى قِرَاءَةِ صَاحِبِهِ، فَأَمَرَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَءَا فَحَسَّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَأْنَهُمَا، فَسَقَطَ فِي نَفْسِي مِنَ التَّكْذِيبِ وَلَا إِذْ كُنْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ غَشِيَنِي، ضَرَبَ فِي صَدْرِي، فَفِضْتُ عَرَقًا وَكَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَرَقًا، فَقَالَ لِي: يَا أُبَيُّ، " أُرْسِلَ إِلَيَّ أَنِ اقْرإِ الْقُرْآنَ عَلَى حَرْفٍ، فَرَدَدْتُ إِلَيْهِ أَنْ هَوِّنْ عَلَى أُمَّتِي، فَرَدَّ إِلَيَّ الثَّانِيَةَ اقْرَأْهُ عَلَى حَرْفَيْنِ، فَرَدَدْتُ إِلَيْهِ أَنْ هَوِّنْ عَلَى أُمَّتِي، فَرَدَّ إِلَيَّ الثَّالِثَةَ اقْرَأْهُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَلَكَ بِكُلِّ رَدَّةٍ رَدَدْتُكَهَا مَسْأَلَةٌ تَسْأَلُنِيهَا، فَقُلْتُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي، وَأَخَّرْتُ الثَّالِثَةَ لِيَوْمٍ يَرْغَبُ إِلَيَّ الْخَلْقُ كُلُّهُمْ حَتَّى إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلامُ ".
عبداللہ بن نمیر نے کہا: اسماعیل بن ابی خالد نے ہمیں حدیث بیان کی، انھوں نے عبداللہ بن عیسیٰ بن عبدالرحمان بن ابی یعلیٰ سے، انھوں نے اپنے دادا (عبدالرحمان) سے اور انھوں نے حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں مسجد میں تھا کہ ایک آدمی داخل ہوا، نماز پڑھنے لگا اور اس نے جس طرح قراءت کی اس کو میں نے اس کے سامنے ناقابل مقبول قرار دے دیا۔پھر ایک اور آدمی آیا، پھر ایک اور آدمی آیا، اس نے ایسی قراءت کی جو اس کے ساتھی (پہلے آدمی) کی قراءت سے مختلف تھی، جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، میں نے عرض کی کہ اس شخص نے ایسی قراءت کی جو میں نے اس کے سامنے رد کردی اور دوسرا آیا تو اس نے اپنے ساتھی سے بھی الگ قراءت کی۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا، ان دونوں نے قراءت کی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے انداز کی تحسین فرمائی تو میرے دل میں آپ کی تکذیب (جھٹلانے) کا داعیہ اس زور سے ڈالا گیا جتنا اس وقت بھی نہ تھا جب میں جاہلیت میں تھا۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر طاری ہونے والی اس کیفیت کو دیکھا تو میرے سینے میں مارا جس سے میں پسینہ پسینہ ہوگیا، جیسے میں ڈر کے عالم میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں، آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "میرے پاس حکم بھیجا گیا کہ میں قرآن ایک حرف (قراءت کی ایک صورت) پر پڑھوں۔تو میں نے جواباً درخواست کی کہ میری امت پر آسانی فرمائیں۔تو میرے پاس دوبارہ جواب بھیجا کہ میں اسے دو حرفوں پر پڑھوں۔میں نے پھر عرض کی کہ میری امت کے لئے آسانی فرمائیں۔تو میرئے پاس تیسری بار جواب بھیجا کہ اسے سات حروف پر پڑھیے، نیز آپ کے لئے ہر جواب کے بدلے جو میں نے دیا ایک دعا ہے جو آپ مجھ سے مانگیں۔میں نے عرض کی: اے میرے اللہ!میری امت کو بخش دے۔اور تیسری دعا میں نے اس دن کے لئے موخر کرلی ہے جس دن تمام مخلوق حتیٰ کہ ابراہیم علیہ السلام بھی میری طرف راغب ہوں گے۔"
حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ میں مسجد میں تھا کہ ایک آدمی آ کر نماز پڑھنے لگا اور اس نے ایسی قراءت کی جو میرے لئے غیر مانوس اور اجنبی تھی۔ پھر ایک اور آدمی آیا، اس نے ایسے انداز سے قراءت کی جو پہلے آدمی سے جدا تھی، جب ہم سب نماز سے فارغ ہوئے تو ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے عرض کیا، اس نے ایسے لہجے اور انداز سے قراءت کی جو میرے لئے غیر مانوس اور اجنبی تھی، اور دوسرا آیا تو اس نے اپنے ساتھی سے الگ انداز میں قراءت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا، ان دونوں نے قراءت کی۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے معاملہ اور حالت کی تحسین فرمائی تو میرے دل میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب (جھٹلانا) کا داعیہ (شک و شبہ کی صورت میں) اس زور سے پیدا ہوا کہ اتنا شدید داعیہ جاہلیت کے دور میں بھی میرے اندر نہ تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری اس کیفیت وحالت کو دیکھا جو مجھ پر طاری تھی، تو میرے سینے پر ہاتھ مارا، جس سے میں پسینہ پسینہ ہوگیا،اور مجھے محسوس ہوا کہ میں ڈر کے ڈر کے مارے گویا اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں، اورآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: مجھے حکم بھیجا گیا، کہ میں قرآن ایک حرف پر پڑھوں۔ تو میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور گزارش کی کہ میری امت کے لئے آسانی فرمائیے۔تو مجھے دوبارہ حکم ملا، اسے دو حروف پر پڑھئے، میں نے پھراس کے سامنے عرض کیا کہ میری امت کے لئے آسانی فرمائیے تو مجھے سہ بارہ حکم ملا کہ اسے سات حروف پر پڑھیے،اور تیرے لئے تیری ہر گذارش پر، جس کا تمہیں جواب ملا ہے، ایک دعا مانگنے کی اجازت ہے تو میں نے عرض کیا: اے میرے اللہ! میری امت کو بخش دے، اے میرے اللہ میری امت کو بخش دے، اور تیسری دعا میں نے اس دن کے لئے موخر کرلی ہے، جس دن تمام مخلوق حتیٰ کہ ابراہیم علیہ السلام بھی میری طرف راغب ہوں گے۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 942  
´قرآن سے متعلق جامع باب۔`
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا تو میرے دل میں کوئی خلش پیدا نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ میں نے ایک آیت پڑھی، اور دوسرے شخص نے اسے میری قرآت کے خلاف پڑھا، تو میں نے کہا: مجھے یہ آیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی ہے، تو دوسرے نے بھی کہا: مجھے بھی یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی پڑھائی ہے، بالآخر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! آپ نے مجھے یہ آیت اس اس طرح پڑھائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور دوسرے شخص نے کہا: کیا آپ نے مجھے ایسے ایسے نہیں پڑھایا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام دونوں میرے پاس آئے، جبرائیل میرے داہنے اور میکائیل میرے بائیں طرف بیٹھے، جبرائیل علیہ السلام نے کہا: آپ قرآن ایک حرف پر پڑھا کریں، تو میکائیل نے کہا: آپ اسے (اللہ سے) زیادہ کرا دیجئیے یہاں تک کہ وہ سات حرفوں تک پہنچے، (اور کہا کہ) ہر حرف شافی و کافی ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 942]
942 ۔ اردو حاشیہ: جب بھی کسی مسئلے میں اختلاف ہو جائے تواللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنا چاہیے، یعنی قرآن و سنت سے رہنمائی لینی چاہیے، اپنے اجتہادات اور قیاس آرائیاں نہیں کرنی چاہئیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 942   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1477  
´قرآن مجید کے سات حرف پر نازل ہونے کا بیان۔`
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابی! مجھے قرآن پڑھایا گیا، پھر مجھ سے پوچھا گیا: ایک حرف پر یا دو حرف پر؟ میرے ساتھ جو فرشتہ تھا، اس نے کہا: کہو: دو حرف پر، میں نے کہا: دو حرف پر، پھر مجھ سے پوچھا گیا: دو حرف پر یا تین حرف پر؟ اس فرشتے نے جو میرے ساتھ تھا، کہا: کہو: تین حرف پر، چنانچہ میں نے کہا: تین حرف پر، اسی طرح معاملہ سات حروف تک پہنچا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں سے ہر ایک حرف شافی اور کافی ہے، چا ہے تم «سميعا عليما» کہو یا «عزيزا حكيما» جب تک تم عذاب کی آیت کو رحمت پر اور رحمت کی آیت کو عذاب پر ختم نہ کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1477]
1477. اردو حاشیہ: یہ روایت شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صحیح ہے۔ تاہم اواخر آیات میں صفات الٰہیہ میں تغیر کی رخصت صرف رسول اللہ ﷺ ہی کو حاصل تھی۔ امت میں سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ سے ثابت شدہ متواتر قراءت کا التزام واجب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1477   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1904  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
سُقِطَ فِيْ نَفْسِيْ مِنَ التَّكْذِيْبِ وَلَا إِذْ كُنْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ:
جب آپﷺ نے دونوں آدمیوں کی قراءت کی تحسین فرمائی تو میرے دل میں شیطان نے آپﷺ کی تکذیب کا اس شدت اور زور سے وسوسہ پیدا کیا کہ اتنا شدید وسوسہ جاہلیت کے دور میں بھی میرے دل میں پیدا نہیں ہوا تھا۔
(2)
ضَرَبَ فِيْ صَدْرِيْ:
(جب آپﷺ نے میرے چہرے سے میرے دل کی کیفیت بھانپ لی،
تو میرے دل سے شیطانی وسوسے اور حق کے بارے میں اس کے پیدا کردہ شک و شبہ کو دور کرنے کے لیے)

میرے سینہ پر ہاتھ مارا،
تاکہ مجھے اطمینان اور تسکین حاصل ہو جائے۔
(3)
فَفِضْتُ عَرَقاً:
تو میں اللہ کے ڈر اور خوف سے پسینہ سے شرابور ہو گیا،
اور میری تمام حیرت اور پریشانی ختم ہو گئی اور میرا دل آپﷺ کی حقانیت پر جم گیا۔
(4)
مَسْأَلَةٌ تَسْأَلُنِيْهَا:
اپنی ہر عرض اور ہر درخواست پر ایک ایک دعا مانگ سکتے ہو،
جس کی قبولیت قطعی اور یقینی ہے،
آپﷺ نے تین دفعہ درخواست کی تھی۔
اس لیے دو دفعہ اپنی امت کے لیے مغفرت کی دعا کی اور تیسری عرض کی دعا کو قیامت کے لیے شفاعت کبریٰ کے لیے محفوظ کر لیا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں پہلی دفعہ کو نظرانداز کر دیا گیا ہے کیونکہ اس میں جبریل علیہ السلام آئے تھے اور بعد میں آپﷺ کے سوال کرنے پر،
جا کر پوچھ کر آتے رہے ہیں،
آگے اس دفعہ کو شمار کیا گیا تو چوتھی دفعہ آنے کا تذکرہ کیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1904