صحيح مسلم
کتاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ -- قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور
57. باب صَلاَةِ الْخَوْفِ:
باب: نماز خوف کا بیان۔
حدیث نمبر: 1949
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِذَاتِ الرِّقَاعِ، قَالَ: كُنَّا إِذَا أَتَيْنَا عَلَى شَجَرَةٍ ظَلِيلَةٍ تَرَكْنَاهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، وَسَيْفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعَلَّقٌ بِشَجَرَةٍ، فَأَخَذَ سَيْفَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَرَطَهُ، فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَخَافُنِي؟ قَالَ: " لَا "، قَالَ: فَمَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ قَالَ: " اللَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْكَ "، قَالَ: فَتَهَدَّدَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَغْمَدَ السَّيْفَ وَعَلَّقَهُ، قَالَ: فَنُودِيَ بِالصَّلَاةِ فَصَلَّى بِطَائِفَةٍ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ تَأَخَّرُوا وَصَلَّى بِالطَّائِفَةِ الْأُخْرَى رَكْعَتَيْنِ، قَالَ: فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ، وَلِلْقَوْمِ رَكْعَتَانِ.
۔ ابان بن یزید نے کہا: ہم سے یحییٰ ابن کثیر نے ابو سلمہ (بن عبدالرحمان) سے حدیث بیان کی اور انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (جہاد پر) آئے۔حتیٰ کہ جب ہم ذات الرقاع (نامی پہاڑ) تک پہنچے۔کہا: ہماری عادت تھی کہ جب ہم کسی گھنے سائے والے درخت تک پہنچے تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چھوڑ دیتے، کہا: ایک مشرک آیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار درخت پر لٹکی ہوئی تھی، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوارپکڑ لی، اسے میان سے نکالا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا: کیا آپ مجھ سے ڈ رتے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں۔"اس نے کہا: تو پھر آپ کومجھ سے کون بچائے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: " اللہ تعالیٰ مجھے تم سےمحفوظ فرمائے گا۔"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے اسے دھمکایا تو اس نے تلوار میان میں ڈال لی اور اسے لٹکایا۔اس کے بعد نماز کے لئے اذان کہی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ کو دو رکعت نماز پڑھائی، پھر وہ گروہ پیچھے چلا گیااس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں۔کہا اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتیں ہوئیں اور لوگوں کی دو دو رکعتیں۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے حتیٰ کہ جب ہم ذات الرقاع نامی پہاڑ تک پہنچے۔ ہماری عادت تھی کہ جب ہم کسی سایہ دار جگہ پر پہنچتے تو اسے رسول اللہ کے لیے چھوڑ دیتے، ایک مشرک آیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار درخت پر لٹکائی گئی تھی، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار پکڑ لی، اسے میان سے نکال لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا: کیا آپ مجھ سے ڈرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: نہیں۔ اس نے کہا: تو آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: اللہ تعالیٰ مجھے تجھ سےمحفوظ رکھے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے اسے دھمکایا تو اس نے تلوار میان میں ڈال لی اور اسے لٹکایا۔ اس کے بعد نماز کے لئے اذان کہی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ کو دو رکعت نماز پڑھائی، پھر وہ گروہ پیچھے چلا گیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں۔ کہا اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعات اور لوگوں کی دو دو رکعت نماز پڑھی۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1949  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث میں غورث بن حارث نامی مشرک کا واقعہ انتہائی اختصار سے بیان کیا گیا ہے،
پورا واقعہ اس طرح ہے کہ جب آپﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ مجھے بچائے گا۔
تو تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور بقول ابن اسحاق جبریل علیہ السلام نے اس کو دھکا دیا تو تلوار گر گئی آپﷺ نے تلوار پکڑ کر اسے پوچھا اور فرمایا:
اب تمھیں مجھ سے کون بچائے گا؟ اس نے کہا،
آپﷺ اچھے پکڑنے والے بنئیے،
کیونکہ تیرے سوا کوئی نہیں بچا سکتا آپ نے فرمایا:
تم شہادت دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اس نے کہا میں عہد کرتا ہوں کہ میں آپﷺ سے لڑائی نہیں لڑوں گا اور نہ آپﷺ سے لڑنے والوں کا ساتھ دوں گا۔
اس کے بعد آپ نے اپنے ساتھیوں کو آواز دی ساتھی پہنچے انھوں نے دیکھا کہ ایک اعرابی آپﷺ کے پاس بیٹھا ہے،
آپ نے ساتھیوں کو واقعہ سے آگاہ فرمایا،
اس کے بعد اسے چھوڑ دیا،
اس نے واپس جا کر اپنی قوم کو اس واقعہ سے آگاہ کیا اور آپ کی تعریف کی،
بعد میں وہ مسلمان ہو گیا۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ نے ہر گروہ کو الگ الگ دو رکعت نماز پڑھائی اس طرح آپ کا دوسرا دوگانہ نفل تھا لیکن دوسرے گروہ کا فرض تھا تو معلوم ہوا نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
(3)
مصنف نے نماز کی جتنی صورتیں بیان کی ہیں موقع محل کے مطابق سب صورتیں جائز ہیں جس طرح بھی ممکن ہو نماز پڑھی جائے گی اس کو چھوڑا نہیں جائے گا۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث والے طریقہ کو پسند کیا ہے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن جبیر رحمۃ اللہ علیہ کی حڈیث کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والے طریقہ کو یعنی حدیث نمبر 308 کو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1949