صحيح مسلم
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- جنازے کے احکام و مسائل
32. باب النَّهْيِ عَنْ تَجْصِيصِ الْقَبْرِ وَالْبِنَاءِ عَلَيْهِ:
باب: قبر کو پختہ کرنے اور اس پر عمارت بنانے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 2247
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: " نُهِيَ عَنْ تَقْصِيصِ الْقُبُورِ ".
ایوب نے ابو زبیر سے اور انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: قبروں کوچونا لگانے سے منع کیا گیا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ قبر کو پختہ بنانے سے منع کیا گیا ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1562  
´قبروں پر عمارت بنانے، ان کو پختہ کرنے اور ان پر کتبہ لگانے کی ممانعت۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1562]
اردو حاشہ:
فائده:
چونا گچ کرنا گزشتہ زمانے میں عمارت میں پختگی پیدا کرنے کاطریقہ تھا آج کل اس مقصد کےلئے سیمنٹ استعمال کیا جاتا ہے۔
قبر پر صرف قبر کے گڑھے سے نکلی ہوئی مٹی ڈالنا کافی ہے۔
مزید مٹی ڈالنا یا قبر کو پختہ کرنا منع ہے۔
اس لحاظ سے اس پر کمرہ قبے وغیرہ تعمیر کرنا بالاولیٰ منع ہوگا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1562   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1052  
´قبریں پختہ کرنے اور ان پر لکھنے کی ممانعت۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قبریں پختہ کی جائیں ۱؎، ان پر لکھا جائے ۲؎ اور ان پر عمارت بنائی جائے ۳؎ اور انہیں روندا جائے ۴؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1052]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس ممانعت کی وجہ ایک تویہ ہے کہ اس میں فضول خرچی ہے کیونکہ اس سے مردے کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا دوسرے اس میں مردوں کی ایسی تعظیم ہے جو انسان کو شرک تک پہنچادیتی ہے۔

2؎:
یہ نہی مطلقاً ہے اس میں میت کا نام اس کی تاریخ وفات اورتبرک کے لیے قرآن کی آیتیں اوراسماء حسنیٰ وغیرہ لکھنا سبھی داخل ہیں۔

3؎:
مثلاً قبّہ وغیرہ۔

4؎:
یہ ممانعت میت کی توقیروتکریم کی وجہ سے ہے اس سے میت کی تذلیل وتوہین ہوتی ہے اس لیے اس سے منع کیا گیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1052   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3225  
´قبر پر عمارت بنانا۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر پر بیٹھنے ۱؎، اسے پختہ بنانے، اور اس پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرماتے سنا ہے ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3225]
فوائد ومسائل:
قبر کے عین اوپر بیٹھنا یا اظہار غم میں اس کا مجاور بن جانا حرام ہے۔
ایسے ہی اسے پختہ کرنا یا اس پر قبہ وغیرہ بنانا حرام ہے۔
کسی ضرورت کے تحت قبر کے پاس بیٹھ جانے میں کوئی حرج نہیں۔
(دیکھئے حدیث 3212)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3225   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2247  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

علامہ تورپشتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔
کہ قبر کو پختہ بنانا یا اس پر خیمہ گاڑنا دونوں منع ہیں،
کیونکہ ان کا فائدہ نہیں ہے اور یہ اہل جاہلیت کا وطیرہ اور عمل ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی قبر پر خیمہ لگا دیکھا تو فرمایا،
اےغلام! اس کو اکھاڑ دو،
میت کا عمل ہی اس کے لیے سایہ فراہم کرتا ہے اور بعض احناف نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ مال کا ضیاع ہے۔
اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں،
میں نے مکہ کے ائمہ کو دیکھا وہ عمارت کو گرانے کا حکم دیتے تھے۔
اس لیے یہ کہنا:
شروع سے لے کر اب تک امت کے صالحین اور علماء بزرگان دین کے مزارات پر گنبد بناتے چلے آئے ہیں،
اس لیے (امت کے اجماع عملی سے گنبد بنانے کا جواز ثابت ہے)
خلاف واقعہ ہے۔
اور دعویٰ اجماع غلط ہے۔
نیز وہ اجماع جو خلاف نص ہو قابل قبول نہیں ہے اور نہ ہی نص کے خلاف اجماع ممکن ہے۔
اسی طرح ابن عابدین نے قبر پر لکھنے کے جواز پر اجماع عملی کا دعویٰ کیا ہے۔
حالانکہ امام ابی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے ائمۃ المسلمین نے جواز کا فتویٰ نہیں دیا اور نہ ہی انہوں نے اپنی قبروں پر لکھنے کی وصیت کی ہے۔
بلکہ ان کی اکثریت نے اس کے ناجائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے اور اپنی تصانیف میں بھی یہی لکھا ہے۔
(فتح المہلم 2/ 507)
لہٰذا یہ لوگوں کا غلط عمل ہے اس کو اجماع کا نام نہیں دیا جا سکتا۔
کیا اب ساری دنیا کے مسلمانوں میں سود کا چال چلن ہے تو یہ جائز ہو جائے گا۔
نیز ان حضرات نے یہ دعویٰ علماء اور صلحاء کی قبروں کے لیے کیا تھا،
اب یہ وبا عام ہو گئی ہے۔
تو کیا اس کو اجماع عملی کا نام دے کر اس کے جواز کا فتویٰ دیا جائے گا۔
حالانکہ اصل حقیقت حال یہ ہے کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں ائمہ المسلمین میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں اور اب بھی ہیں جو ان غلط کاموں سے روکتے رہتے ہیں۔
یہی حال ان مزارات پر چادریں یا پھول چڑھانے کا ہے،
اب لوگ قبروں والوں کو پکار کر اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے نذر مانتے یا نیاز چڑھاتے ہیں۔
اور یہ کام بالاجماع باطل ہے۔
(شرح صحیح مسلم سعیدی 2/ 817)
تو کیا اب اس عمل کو جائز قرار دیا جائےگا۔
کیونکہ سب لوگ کر رہے ہیں۔

جس طرح قبر کو پختہ بنانا اور اس پر عمارت تعمیر کرنا ناجائز ہے۔
اسی طرح اس پر مجاور بن کر بیٹھنا درست نہیں ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے قبر پختہ بنانا،
اس پر عمارت بنانا اور بیٹھنا منع ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2247