صحيح البخاري
كِتَاب صَلَاةِ الْخَوْفِ -- کتاب: نماز خوف کا بیان
1. بَابُ صَلاَةِ الْخَوْفِ:
باب: خوف کی نماز کا بیان۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُبِينًا {101} وَإِذَا كُنْتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِنْ وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَى لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُمْ مَيْلَةً وَاحِدَةً وَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ كَانَ بِكُمْ أَذًى مِنْ مَطَرٍ أَوْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَنْ تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ وَخُذُوا حِذْرَكُمْ إِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا {102} سورة النساء آية 101-102.
‏‏‏‏ اور اللہ پاک نے (سورۃ نساء) میں فرمایا اور جب تم مسافر ہو تو تم پر گناہ نہیں اگر تم نماز کم کر دو۔ فرمان الٰہی «عذابا مهينا‏» تک۔
حدیث نمبر: 942
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُهُ، هَلْ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي صَلَاةَ الْخَوْفِ؟ قَالَ:أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ:" غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ نَجْدٍ فَوَازَيْنَا الْعَدُوَّ فَصَافَفْنَا لَهُمْ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي لَنَا فَقَامَتْ طَائِفَةٌ مَعَهُ تُصَلِّي وَأَقْبَلَتْ طَائِفَةٌ عَلَى الْعَدُوِّ وَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْ مَعَهُ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفُوا مَكَانَ الطَّائِفَةِ الَّتِي لَمْ تُصَلِّ فَجَاءُوا فَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِمْ رَكْعَةً وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، فَقَامَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فَرَكَعَ لِنَفْسِهِ رَكْعَةً وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے زہری سے پوچھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوۃ خوف پڑھی تھی؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ ہمیں سالم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بتلایا کہ میں نجد کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ (ذات الرقاع) میں شریک تھا۔ دشمن سے مقابلہ کے وقت ہم نے صفیں باندھیں۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خوف کی نماز پڑھائی (تو ہم میں سے) ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے میں شریک ہو گئی اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلہ میں کھڑا رہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اقتداء میں نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے۔ پھر یہ لوگ لوٹ کر اس جماعت کی جگہ آ گئے جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی تھی۔ اب دوسری جماعت آئی۔ ان کے ساتھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکوع اور دو سجدے کئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا۔ اس گروہ میں سے ہر شخص کھڑا ہوا اور اس نے اکیلے اکیلے ایک رکوع اور دو سجدے ادا کئے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1258  
´ڈر کی حالت میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خوف کی (کیفیت) کے بارے میں فرمایا: امام اپنے ساتھ مجاہدین کی ایک جماعت کو نماز پڑھائے، اور وہ ایک رکعت ادا کریں، اور دوسری جماعت ان کے اور دشمن کے درمیان متعین رہے، پھر جس گروہ نے ایک رکعت اپنے امام کے ساتھ پڑھی وہ ہٹ کر اس جماعت کی جگہ چلی جائے جس نے نماز نہیں پڑھی، اور جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے وہ آئیں، اور اپنے امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں، اب امام تو اپنی نماز سے فارغ ہو جائے گا، اور دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک اپنی ایک ایک رکعت پڑھیں، اگر خوف و دہشت اس سے بھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1258]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز اتنی اہم عبادت ہے۔
کہ حالت جنگ میں بھی معاف نہیں البتہ اس صورت میں اس کا طریقہ بدل جاتا ہے۔
اور بہت سے احکام میں نرمی آ جاتی ہے۔

(2)
نماز خوف کی متعدد صورتیں ہیں۔
حالات کے مطابق ان میں سے کوئی سی صورت اختیار کی جا سکتی ہے۔

(3)
اس حدیث میں مذکور صورت پر اس وقت عمل ہوتا ہے جب دشمن قبلے کی طرف نہ ہو۔
اس صورت میں فوج کے دو حصے کیے جائیں گے۔
پہلا گروہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ کرچلا جائے گا۔
اس اثناء میں دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں کھڑا رہے گا۔
جب پہلا گروہ دشمن کے سامنے پہنچ جائے گا۔
تو دوسرا گروہ امام کے ساتھ آ کر ایک رکعت پڑھ لے گا۔
اور دوسری رکعت اکیلے اکیلے ادا کی جائے گی۔
جیسے مقتدی کی ایک رکعت رہ گئی ہو تو وہ بعد میں ادا کرلیتا ہے۔
پہلے گروہ کے افراد اپنے اپنے مقام پر ایک ایک رکعت پڑھ لیں گے۔
اگر معروف طریقے سے ادا کرنا ممکن نہ ہو۔
تو اشارے سے رکوع سجدہ کر لیا جائے۔
اگرچہ قبلے کی طرف منہ نہ ہو۔

(4)
زیادہ سخت حالات میں جب اس قدر بھی جماعت کا اہتمام ممکن نہ ہو تو لڑائی کے دوران میں چلتے پھرتے ہی اشارے سے نماز پڑھ لی جائے۔
اگر قبلہ رو ہونا ممکن نہ ہو تو بغیرقبلے کی طرف منہ کئے پڑھ لی جائے۔

(5)
نماز خوف کے دوسرے طریقے بھی مختلف احادیث میں وارد ہیں۔
جن میں کچھ اگلی احادیث میں بیان کئے گئے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1258   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 380  
´نماز خوف کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نجد کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کسی غزوہ میں گیا۔ ہم دشمن کے بالکل مقابل صف بستہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہمیں نماز پڑھائی۔ ایک جماعت نماز ادا کرنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور ایک جماعت دشمن کے سامنے صفیں باندھ کر کھڑی ہو گئی۔ جو جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک تھی اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے اور اس گروہ کی جگہ واپس چلی گئی جس نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی تھی۔ اس جماعت کے افراد آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی دو سجدوں کے ساتھ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا تو دونوں گروہوں نے اٹھ کر الگ الگ پوری کی۔ (بخاری و مسلم) متن حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 380»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الخوف، باب صلاة الخوف، حديث:942، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الخوف، حديث:839.»
تشریح:
1. مصنف نے نماز خوف کی پانچ صورتیں بیان کی ہیں۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے چودہ ‘ ابن العربی اور امام نووی رحمہما اللہ نے سولہ اور شیخ ابوالفضل نے ترمذی کی شرح میں سترہ صورتیں ذکر کی ہیں۔
سنن ابی داود میں آٹھ صورتیں ہیں۔
2. امام احمد رحمہ اللہ کے بقول نماز خوف کے سلسلے میں چھ یا سات صحیح احادیث ثابت ہیں‘ ان میں سے جس کے مطابق نماز پڑھی جائے جائز ہے، کوئی مخصوص طریقہ نہیں۔
حالات کے مطابق جس طور پر پڑھنا ممکن ہو پڑھ لی جائے۔
3.اس نماز کے مسنون و مشروع ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں اور صاحب زاد المعاد نے بھی اس نماز کی یہی چھ کیفیتیں بیان کی ہیں اور جن حضرات نے اس سے زیادہ ذکر کی ہیں انھوں نے جہاں کہیں بیان واقعہ میں اختلاف دیکھا اسے الگ شمار کر لیا‘ حقیقت میں وہ الگ نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو قابل اعتماد قرار دیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 380   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 564  
´نماز خوف کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو گروہوں میں سے ایک گروہ کو صلاۃ خوف ایک رکعت پڑھائی اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا رہا، پھر یہ لوگ پلٹے، اور ان لوگوں کی جگہ پر جو دشمن کے مقابل میں تھے جا کر کھڑے ہو گئے اور جو لوگ دشمن کے مقابل میں تھے وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوسری رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر یہ لوگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی ایک رکعت پوری کی۔ اور (جو ایک رکعت پڑھ کر دشمن کے سامنے چلے گئے تھے) وہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی اپنی ایک رکعت پوری کی۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 564]
اردو حاشہ: 1؎:
جوآگے آرہی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 564   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1243  
´ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ امام ہر ٹکڑی کو ایک رکعت پڑھائے پھر وہ سلام پھیر دے اس کے بعد ہر صف کے لوگ کھڑے ہوں اور خود سے اپنی اپنی ایک رکعت ادا کریں۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھائی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے رہی پھر یہ جماعت جا کر پہلی جماعت کی جگہ کھڑی ہو گئی اور وہ جماعت (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے) آ گئی تو آپ نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر یہ لوگ کھڑے ہوئے اور اپنی رکعت پوری کی اور وہ لوگ بھی (جو دشمن کے سامنے چلے گئے تھے) کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی رکعت پوری کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح یہ حدیث نافع اور خالد بن معدان نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ابن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ اور یہی قول مسروق اور یوسف بن مہران ہے جسے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، اسی طرح یونس نے حسن سے اور انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1243]
1243۔ اردو حاشیہ:
اس صورت میں گویا امام اپنے مجاہد مقتدیوں کا محافظ بنا کہ وہ اپنی نماز مکمل کر لیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1243   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 942  
942. امام زہری ؓ سے (راوی حدیث) شعیب نے پوچھا: کیا نبی ﷺ نے نماز خوف پڑھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: مجھے سالم نے خبر دی کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: میں ایک دفعہ نبی ﷺ کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کے لیے گیا۔ جب ہم دشمن کے سامنے صف آراء ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ ایک گروہ تو آپ کے ساتھ کھڑا ہوا اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں ڈٹا رہا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہمراہ گروہ کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کیے۔ اس کے بعد یہ لوگ اس گروہ کی جگہ چلے گئے جس نے نماز نہیں پڑھی تھی۔ جب وہ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ بھی ایک رکوع اور دو سجدے ادا کیے اور سلام پھیر دیا۔ پھر ان میں سے ہر آدمی کھڑا ہوا اور ایک رکوع اور دو سجدے اپنے اپنے طور پر کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:942]
حدیث حاشیہ:
نجد لغت میں بلندی کو کہتے ہیں اور عرب میں یہ علاقہ وہ ہے جو تہامہ اور یمن سے لے کر عراق اور شام تک پھیلا ہوا ہے۔
جہاد مذکورہ 7 ھ میں بنی غطفان کے کافروں سے ہوا تھا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فوج کے دوحصے کئے گئے اور ہر حصہ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ایک رکعت باری باری ادا کی پھر دوسری رکعت انہوں نے اکیلے اکیلے ادا کی۔
بعض روایتوں میں یوں ہے کہ ہر حصہ ایک رکعت پڑھ کر چلا گیا اور جب دوسرا گروہ پوری نماز پڑھ گیا تو یہ گروہ دوبارہ آیا اور ایک رکعت اکیلے اکیلے پڑھ کر سلام پھیرا۔
فٹ پٹ ہو جائیں، یعنی بھڑجائیں صف باندھنے کا موقع نہ ملے تو جو جہاں کھڑاہو وہیں نماز پڑھ لے۔
بعضوں نے کہا قیاماً کا لفظ یہاں (راوی کی طرف سے)
غلط ہے صحیح قائماً ہے اور پوری عبارت یوں ہے:
إذا اختلطو قائما فانما ھو الذکر والإشارۃ بالرأس۔
یعنی جب کافر اور مسلمان لڑائی میں خلط ملط ہو جائیں توصرف زبان سے قرات اور رکوع سجدے کے بدل سر سے اشارہ کرنا کافی ہے۔
(شرح وحیدی)
قال ابن قدامة یجوز أن یصلی صلوة الخوف علی کل صفة صلاھا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال أحمد کل حدیث یروی في أبواب صلوة الخوف فالعمل به جائز وقال ستة أوجه أوسبعة یروی فیھا کلھا جائز۔
(مرعاۃ المصابیح، ج: 2ص: 319)
یعنی ابن قدامہ نے کہا کہ جن جن طریقوں سے خوف کی نماز آنحضرت ﷺ سے نقل ہوئی ہے ان سب کے مطابق جیسا موقع ہو خوف کی نماز ادا کرنا جائز ہے۔
امام احمد نے بھی ایسا ہی کہا ہے اور فرمایاہے کہ یہ نماز چھ ساتھ طریقوں سے جائز ہے۔
جو مختلف احادیث میں مروی ہیں:
قال ابن عباس والحسن البصري وعطاء وطاؤس ومجاھد والحکم بن عتبة وقتادة وإسحاق والضحاك والثوري أنھا رکعة عند شدة القتال یومي إیماء۔
(حوالہ مذکور)
یعنی مذکورہ جملہ اکابر اسلام کہتے ہیں کہ شدت قتال کے وقت ایک رکعت بلکہ محض اشاروں سے بھی ادا کر لینا جائز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 942   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:942  
942. امام زہری ؓ سے (راوی حدیث) شعیب نے پوچھا: کیا نبی ﷺ نے نماز خوف پڑھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: مجھے سالم نے خبر دی کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: میں ایک دفعہ نبی ﷺ کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کے لیے گیا۔ جب ہم دشمن کے سامنے صف آراء ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ ایک گروہ تو آپ کے ساتھ کھڑا ہوا اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں ڈٹا رہا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہمراہ گروہ کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کیے۔ اس کے بعد یہ لوگ اس گروہ کی جگہ چلے گئے جس نے نماز نہیں پڑھی تھی۔ جب وہ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ بھی ایک رکوع اور دو سجدے ادا کیے اور سلام پھیر دیا۔ پھر ان میں سے ہر آدمی کھڑا ہوا اور ایک رکوع اور دو سجدے اپنے اپنے طور پر کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:942]
حدیث حاشیہ:
(1)
مختلف احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نماز خوف ادا کرنے کے سترہ (17)
طریقے ہیں۔
لیکن امام ابن قیم ؒ نے جملہ احادیث کا تجزیہ کر کے بنیادی طور پر اس کی ادائیگی کے چھ (6)
طریقے منتخب کیے ہیں، حالات و ظروف کے پیش نظر جو طریقہ مناسب ہو اسے اختیار کر لیا جائے۔
پیش کردہ حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ پہلا گروہ سلام پھیرے بغیر ایک رکعت ادا کر کے دوسرے گروہ کی جگہ چلا جائے گا۔
(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4535)
اس حدیث میں دوسری رکعت ادا کرنے کے متعلق مکمل تفصیل نہیں ہے کہ دونوں گروہ اپنی باقی ماندہ رکعت کیسے ادا کریں گے۔
اس کی وضاحت حدیث ابن مسعود میں ہے کہ جب امام دو رکعت مکمل کر کے سلام پھیرے گا تو دوسرا گروہ اپنی باقی ماندہ ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے گا، پھر وہ اس گروہ کی جگہ چلے جائیں گے جنہوں نے سلام کے بغیر پہلی رکعت باجماعت پڑھی تھی، وہ مقام جماعت پر آ کر اپنی اپنی ایک رکعت ادا کر کے نماز مکمل کریں گے۔
(سنن أبي داود، صلاة السفر، حدیث: 1244)
دونوں گروہ باری باری اپنی باقی ماندہ رکعت ادا کریں گے کیونکہ اگر اکٹھے ادا کریں گے تو اس سے دشمن سے حفاظت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
(2)
فوج کو دو گروہوں میں تقسیم کر کے نماز پڑھانے کا ایک اور طریقہ بھی ہے جسے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا ہے، فرماتے ہیں:
ایک گروہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
رسول اللہ ﷺ نے تکبیر تحریمہ کہی تو جو گروہ آپ کے ساتھ تھا اور جو دشمن کے بالمقابل تھا سب نے تکبیر تحریمہ کہی، پھر آپ نے رکوع کیا تو آپ کے ساتھ موجود گروہ نے بھی رکوع کیا اور اسی طرح سجدہ بھی کیا لیکن اس دوران میں دوسرا گروہ دشمن کے سامنے ڈٹا رہا۔
پھر رسول اللہ ﷺ جب دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ سے قریبی صف والے بھی کھڑے ہوئے اور دشمن کے سامنے چلے گئے جبکہ وہ گروہ جو دشمن کے سامنے تھا، رسول اللہ ﷺ کے پیچھے آ گیا اور آ کر رکوع اور دو سجدے کیے۔
اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کھڑے رہے، جب وہ پہلی رکعت مکمل کر کے کھڑے ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے رکوع کیا اور انہوں نے بھی آپ کے ساتھ دوسری رکعت کا رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا تو انہوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا، پھر وہ گروہ جو دشمن کے مقابلے میں تھا آیا اور انہوں نے رکوع کیا اور دو سجدے کیے لیکن اس دوران میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے قریبی صف والے بیٹھے رہے، پھر آپ نے سلام پھیرا تو ان سب نے اکٹھے سلام پھیر دیا، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی بھی دو رکعتیں ہوئیں اور ہر گروہ کی بھی دو رکعتیں ہو گئیں۔
(سنن أبي داود، صلاة السفر، حدیث: 1240)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 942