صحيح البخاري
كِتَاب صَلَاةِ الْخَوْفِ -- کتاب: نماز خوف کا بیان
2. بَابُ صَلاَةِ الْخَوْفِ رِجَالاً وَرُكْبَانًا:
باب: خوف کی نماز پیدل اور سوار رہ کر پڑھنا قرآن شریف میں «رجالا» ، «راجل» کی جمع ہے (یعنی پاپیادہ)۔
حدیث نمبر: 943
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، نَحْوًا مِنْ قَوْلِ مُجَاهِدٍ إِذَا اخْتَلَطُوا قِيَامًا، وَزَادَ ابْنُ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" وَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَلْيُصَلُّوا قِيَامًا وَرُكْبَانًا".
ہم سے سعید بن یحییٰ بن سعید قرشی نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے میرے باپ یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجاہد کے قول کی طرح بیان کیا کہ جب جنگ میں لوگ ایک دوسرے سے گٹھ جائیں تو کھڑے کھڑے نماز پڑھ لیں اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی روایت میں اضافہ اور کیا ہے کہ اگر کافر بہت سارے ہوں کہ مسلمانوں کو دم نہ لینے دیں تو کھڑے کھڑے اور سوار رہ کر (جس طور ممکن ہو) اشاروں سے ہی سہی مگر نماز پڑھ لیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 943  
943. حضرت نافع سے روایت ہے، وہ حضرت ابن عمر ؓ سے مجاہد کے قول کی طرح بیان کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں کی دشمن سے مڈبھیڑ ہو جائے تو کھڑے کھڑے ہی نماز پڑھ لیں۔ البتہ حضرت ابن عمر ؓ نے نبی ﷺ سے یہ اضافہ بیان کیا ہے: اگر دشمن زیادہ ہوں تو مسلمان کھڑے کھڑے یا سوار ہو کر، یعنی جس طرح بھی ممکن ہو سکے نماز پڑھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:943]
حدیث حاشیہ:
علامہ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
قیل مقصودہ إن الصلوة لا تسقط عند العجز عن النزول عن العرابة ولا تؤخر عن وقتھا بل تصلى علی أي وجه حصلت القدرة علیه بدلیل الآیة۔
(فتح الباري)
یعنی مقصود یہ ہے کہ نماز اس وقت بھی ساقط نہیں ہوتی جب کہ نمازی سواری سے اترنے سے عاجز ہو اور نہ وہ وقت سے مؤخر کی جا سکتی ہے بلکہ ہر حالت میں اپنی قدرت کے مطابق اسے پڑھنا ہی ہوگا جیسا کہ آیت بالا اس پر دال ہے۔
زمانہ حاضرہ میں ریلوں، موٹروں، ہوائی جہازوں میں بہت سے ایسے ہی مواقع آجاتے ہیں کہ ان سے اترنا نا ممکن ہو جاتا ہے بہر حال نماز جس طور بھی ممکن ہو وقت مقررہ پر پڑھ ہی لینی چاہیے۔
ایسی ہی دشواریوں کے پیش نظر شارع ؑ نے دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کر کے ادا کرنا جائز قرار دیا ہے اور سفر میں قصر اور بوقت جہاد اور بھی مزید رعایت دی گئی مگر نماز کو معاف نہیں کیا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 943   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:943  
943. حضرت نافع سے روایت ہے، وہ حضرت ابن عمر ؓ سے مجاہد کے قول کی طرح بیان کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں کی دشمن سے مڈبھیڑ ہو جائے تو کھڑے کھڑے ہی نماز پڑھ لیں۔ البتہ حضرت ابن عمر ؓ نے نبی ﷺ سے یہ اضافہ بیان کیا ہے: اگر دشمن زیادہ ہوں تو مسلمان کھڑے کھڑے یا سوار ہو کر، یعنی جس طرح بھی ممکن ہو سکے نماز پڑھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:943]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت نافع ایک دوسرے مقام پر وضاحت کرتے ہیں کہ جب حضرت ابن عمر ؓ سے نماز خوف کے متعلق سوال کیا جاتا تو آپ نماز خوف کے طریقے سے آگاہ فرماتے، نیز کہتے کہ اگر حالات زیادہ سنگین ہوں تو لوگ پا پیادہ کھڑے کھڑے نماز پڑھیں گے اور اگر سوار ہوں تو اپنی سواریوں پر اسے ادا کریں گے، خواہ اس وقت قبلے کی جانب منہ ہو سکے یا نہ ہو سکے۔
حضرت نافع نے کہا مجھے اطمینان ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ ہی سے استفادہ کر کے بیان کی ہو گی۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4535) (2)
امام بخاری ؒ نے اس مقام پر مجاہد کے حوالے سے اس روایت کو بیان کیا ہے لیکن مجاہد کی بات کو کسی جگہ پر بیان نہیں کیا، اس لیے موجودہ عبارت کے مفہوم میں اختلاف پیدا ہوا، البتہ علامہ اسماعیلی نے مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ جب دشمن سے مڈبھیڑ (مقابلہ)
ہو جائے تو سر کے اشارے سے بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
اسی طرح حضرت ابن عمر ؓ کا قول بھی مجاہد کی طرح بیان ہوا ہے کہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو جائے تو زبان سے ذکر اور سر کے اشارے سے نماز ادا کی جائے، جیسا کہ ابن عمر ؓ سے منقول ہے، البتہ ان دونوں کے اقوال میں فرق یہ ہے کہ حضرت مجاہد نے اپنی رائے کی بنیاد پر یہ موقف اختیار کیا ہے جبکہ حضرت ابن عمر ؓ کا موقف، رسول اللہ ﷺ سے مروی حدیث کی بنا پر ہے۔
امام بخاری ؒ کی بیان کردہ روایت کی تشریح امام ابن بطال نے صحیح طور پر کی ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔
(عمدة القاري: 140/5) (3)
حافظ ابن حجرؒ نے إذا اختلطوا قياما میں لفظ قياما کو تصحیف قرار دیا ہے، وہ فرماتے ہیں دراصل یہ لفظ إنما ہے، کیونکہ روایات میں (إذا اختلطوا فإنما هو الإشارة بالرأس)
ہے۔
(فتح الباري: 556/2)
لیکن ہمارے نزدیک اسے تصحیف قرار دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ امام بخاری ؒ نے رجالاً کے معنی قياماً سے کیے ہیں۔
یہ معنی اس وقت درست ہو سکتے ہیں جب روایت میں قياماً کے لفظ کو صحیح تسلیم کیا جائے، بصورت دیگر امام بخاری ؒ کا عنوان بلا دلیل رہے گا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 943