صحيح مسلم
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- جنازے کے احکام و مسائل
36. باب اسْتِئْذَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ:
باب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے رب سے اجازت طلب کرنا اپنی والدہ کی قبر دیکھنے کی۔
حدیث نمبر: 2261
ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنْ زُبَيْدٍ الْيَامِيِّ ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَأُرَاهُ، عَنْ أَبِيهِ الشَّكُّ مِنْ أَبِي خَيْثَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، جَمِيعًا، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَاسَانِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّهُمْ بِمَعْنَى حَدِيثِ أَبِي سِنَانٍ.
امام صاحب نے مذکورہ بالا روایت اپنے متعدد اوراساتذہ سے بیان کی ہے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2261  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ مختار مطلق نہیں تھے۔
بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے پابند اور مامور تھے اور کوئی کام اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہیں کرتے تھے۔

ابن سیرین،
ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے زیارت قبور مکروہ سمجھتے تھے لیکن ان کے بعد کے ائمہ کے نزدیک مردوں کے لیے قبروں کی زیارت کرنا بالاتفاق جائزہے۔
عورتوں کے بارے میں اختلاف ہے اکثریت کے نزدیک اگر خلاف شرع امور کا ارتکاب نہ کرے بلکہ موت اور آخرت کی فکر کرنے کے باعث ہو تو جائز ہے۔
اور آپﷺ نے زیارت قبورکا جو مقصد بیان کیا ہے،
اس مقصد کے مرد اور عورت دونوں ہی محتاج ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی والدہ کی قبر پر جانے کی اجازت تو مل گئی،
لیکن استغفار کی اجازت نہیں ملی۔
علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے تو اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ملت اسلام کے سوا کسی اور دین پر مرنے والے کے لیے استغفار کی اجازت نہیں ہے۔
لیکن کچھ علماء کا خیال ہے استغفار تو اس کے لیے ہے جو غیر معصوم ہو یا گناہگار ہو،
اورآپ کی والدہ سے تو کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا۔
اس پر سوال یہ ہے کہ اگر معصوم کے لیے استغفار کی ضرورت نہیں ہے تو پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری سورۃ،
سورہ نصر میں استغفار کا حکم کیوں دیا گیا کیا اس سے یہ وہم نہیں پیدا ہو سکتا کہ شاید آپﷺ نے کوئی گناہ کیا ہو،
جب کہ اصل حقیقت ہے کہ استغفار رفع درجات کا بھی باعث ہے۔
برحال علامہ سیوطی نے جو آپﷺ کے والدین کے بارے میں تین نظریات پیش کیے ہیں۔
وہ محل نظر ہیں۔
لیکن جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں اس مسئلے کو عام مجالس میں موضوع سخن بنانا درست نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2261