صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
2. باب لاَ زَكَاةَ عَلَى الْمُسْلِمِ فِي عَبْدِهِ وَفَرَسِهِ:
باب: غلام اور گھوڑے پر زکوٰۃ نہیں۔
حدیث نمبر: 2276
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَهَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، وأحمد بن عيسى ، قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَيْسَ فِي الْعَبْدِ صَدَقَةٌ، إِلَّا صَدَقَةُ الْفِطْرِ ".
مخرمہ نے اپنے والد (بکیر بن عبد اللہ) سے انھوں نے عراک بن مالک سے روایت کی انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے ہو ئے سنا کہ آپ نے فرمایا: " (مالک پر) غلام (کے معاملے) میں صدقہ فطر کے سوا کوئی صدقہ نہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتےہیں کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غلام پر صرف صدقہ الفطر لازم ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 277  
´غلام اور گھوڑے پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے`
«. . . 299- مالك عن عبد الله بن دينار عن سليمان بن يسار عن عراك بن مالك عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ليس على المسلم فى عبده ولا فرسه صدقة. كمل حديث ابن دينار. . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں کوئی صدقہ (زکوٰة) نہیں ہے۔ عبداللہ بن دینار کی بیان کردہ حدیثیں مکمل ہوئیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 277]

تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 982، من حديث مالك به .]
تفقه:
➊ کسی آدمی کے جتنے بھی گھوڑے یا غلام ہوں، ان پر کوئی زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔
➋ گھوڑوں کے سلسلے میں دیکھئے: [الموطأ حديث: 178، 215، والبخاري 2860، 2849، ومسلم 1871/96]
➌ معلوم ہوا کہ زکوٰۃ قت کے حکم سے بعض چیزیں مستثنیٰ ہیں۔
➍ عام کی تخصیص خاص دلیل سے جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 299   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1812  
´گھوڑے اور غلام کی زکاۃ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان پر اس کے گھوڑے اور غلام میں زکاۃ نہیں ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1812]
اردو حاشہ:
فائده:
یہ مسئلہ حدیث: 1790 میں بھی گزر چکا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1812   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 487  
´غلام اور گھوڑے میں زکاۃ نہیں`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان پر نہ اس کے غلام میں زکوٰۃ ہے اور نہ اس کے گھوڑے میں۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 487]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا غلام اور گھوڑے میں زکاۃ نہیں، یعنی جو غلام اپنی خدمت کے لیے اور جو گھوڑا اپنی سواری کے لیے مخصوص ہو ان پر کسی قسم کی زکاۃ نہیں، البتہ اگر برائے تجارت ہوں تو ان پر زکاۃ ہو گی۔
جمہور علماء اور اکثر فقہاء کا یہی موقف ہے۔ گھوڑوں پر زکاۃ کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [سنن ابوداود، الزكاة، باب فى زكاة السائمة، حديث: 1574۔ طبع دارالسلام، لاهور]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 487   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 628  
´گھوڑے اور غلام میں زکاۃ کے نہ ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان پر نہ اس کے گھوڑوں میں زکاۃ ہے اور نہ ہی اس کے غلاموں میں زکاۃ ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 628]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث کے عموم سے ظاہریہ نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ گھوڑے اورغلام میں مطلقاً زکاۃ واجب نہیں گو وہ تجارت ہی کے لیے کیوں نہ ہوں،
لیکن یہ صحیح نہیں ہے،
گھوڑے اور غلام اگر تجارت کے لیے ہوں تو ان میں زکاۃ بالاجماع واجب ہے جیسا کہ ابن منذر وغیرہ نے اسے نقل کیا ہے،
لہذا اجماع اس کے عموم کے لیے مخصص ہو گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 628   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1594  
´غلام اور لونڈی کی زکاۃ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھوڑے اور غلام یا لونڈی میں زکاۃ نہیں، البتہ غلام یا لونڈی میں صدقہ فطر ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1594]
1594. اردو حاشیہ: اگر یہ ذاتی مصرف کےلئے ہوں تو زکواۃ نہیں ہے۔ لیکن اگر تجارت کی غرض سے ہوں تو زکواۃ دینی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1594   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2276  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جمہور علمائے سلف کےنزدیک اپنے گھر کی ضروریات کے لیے رکھے گئے غلام اور گھوڑے پر صدقہ نہیں ہے۔
اگر تجارت کے لیے ہوں تو پھر ظاہریہ کے سوا،
سب کے نزدیک ان کی رقم پر صدقہ ہے،
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک گھوڑوں پر زکاۃ ہے اگر نسل کشی کے لیے نر اور مادہ دونوں ہوں،
تو ہر ایک پر سالانہ ایک دینار 4/1/2 ماشہ سونا)
ہے۔
اور صرف ایک جنس ہو تو قیمت پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکاۃ دے یا ہر ایک پر ایک دینار یا دس درہم زکاۃ دے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2276