صحيح البخاري
كِتَاب صَلَاةِ الْخَوْفِ -- کتاب: نماز خوف کا بیان
4. بَابُ الصَّلاَةِ عِنْدَ مُنَاهَضَةِ الْحُصُونِ وَلِقَاءِ الْعَدُوِّ:
باب: اس بارے میں کہ اس وقت (جب دشمن کے) قلعوں کی فتح کے امکانات روشن ہوں اور جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو رہی ہو تو اس وقت نماز پڑھنے کا حکم۔
وَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: إِنْ كَانَ تَهَيَّأَ الْفَتْحُ وَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَى الصَّلَاةِ صَلَّوْا إِيمَاءً كُلُّ امْرِئٍ لِنَفْسِهِ، فَإِنْ لَمْ يَقْدِرُوا عَلَى الْإِيمَاءِ أَخَّرُوا الصَّلَاةَ حَتَّى يَنْكَشِفَ الْقِتَالُ أَوْ يَأْمَنُوا فَيُصَلُّوا رَكْعَتَيْنِ، فَإِنْ لَمْ يَقْدِرُوا صَلَّوْا رَكْعَةً وَسَجْدَتَيْنِ، فَإِنْ لَمْ يَقْدِرُوا لَا يُجْزِئُهُمُ التَّكْبِيرُ وَيُؤَخِّرُوهَا حَتَّى يَأْمَنُوا وَبِهِ، قَالَ مَكْحُولٌ:
اور امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا کہ جب فتح سامنے ہو اور نماز پڑھنی ممکن نہ رہے تو اشارہ سے نماز پڑھ لیں۔ ہر شخص اکیلے اکیلے اگر اشارہ بھی نہ کر سکیں تو لڑائی کے ختم ہونے تک یا امن ہونے تک نماز موقوف رکھیں، اس کے بعد دو رکعتیں پڑھ لیں۔ اگر دو رکعت نہ پڑھ سکیں تو ایک ہی رکوع اور دو سجدے کر لیں اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو صرف تکبیر تحریمہ کافی نہیں ہے، امن ہونے تک نماز میں دیر کریں۔ مکحول تابعی کا یہ قول ہے۔
وَقَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: حَضَرْتُ عِنْدَ مُنَاهَضَةِ حِصْنِ تُسْتَرَ عِنْدَ إِضَاءَةِ الْفَجْرِ وَاشْتَدَّ اشْتِعَالُ الْقِتَالِ فَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَى الصَّلَاةِ فَلَمْ نُصَلِّ إِلَّا بَعْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ فَصَلَّيْنَاهَا وَنَحْنُ مَعَ أَبِي مُوسَى فَفُتِحَ لَنَا، وَقَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: وَمَا يَسُرُّنِي بِتِلْكَ الصَّلَاةِ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا.
اور انس بن مالک نے کہا کہ صبح روشنی میں تستر کے قلعہ پر جب چڑھائی ہو رہی تھی اس وقت میں موجود تھا۔ لڑائی کی آگ خوب بھڑک رہی تھی تو لوگ نماز نہ پڑھ سکے۔ جب دن چڑھ گیا اس وقت صبح کی نماز پڑھی گئی۔ ابوموسیٰ اشعری بھی ساتھ تھے پھر قلعہ فتح ہو گیا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس دن جو نماز ہم نے پڑھی (گو وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھی) اس سے اتنی خوشی ہوئی کہ ساری دنیا ملنے سے اتنی خوشی نہ ہو گی۔
حدیث نمبر: 945
حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُبَارَكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَ عُمَرُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ فَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ وَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا صَلَّيْتُ الْعَصْرَ حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ أَنْ تَغِيبَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَأَنَا وَاللَّهِ مَا صَلَّيْتُهَا بَعْدُ، قَالَ: فَنَزَلَ إِلَى بُطْحَانَ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى الْعَصْرَ بَعْدَ مَا غَابَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ بَعْدَهَا".
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا کہ ہم سے وکیع نے علی بن مبارک سے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے، ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ عمر رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے دن کفار کو برا بھلا کہتے ہوئے آئے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ! سورج ڈوبنے ہی کو ہے اور میں نے تو اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخدا میں نے بھی ابھی تک نہیں پڑھی انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ بطحان کی طرف گئے (جو مدینہ میں ایک میدان تھا) اور وضو کر کے آپ نے وہاں سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی، پھر اس کے بعد نماز مغرب پڑھی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 945  
945. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ غزوہ خندق کے دن حضرت عمر ؓ تشریف لائے اور کفار قریش کو برا بھلا کہتے ہوئے کہنے لگے: اللہ کے رسول! میں نماز عصر نہیں پڑھ سکا تاآنکہ سورج غروب کے قریب ہو گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں بھی ابھی تک نماز عصر نہیں پڑھ سکا ہوں۔ اس کے بعد آپ وادی بطحان میں اترے، وضو کیا اور سورج غروب ہونے کے بعد نماز عصر ادا کی اور اس کے بعد نماز مغرب پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:945]
حدیث حاشیہ:
باب کا ترجمہ اس حدیث سے نکلا کہ آنحضرت ﷺ کو لڑائی میں مصروف رہنے سے بالکل نماز کی فرصت نہ ملی تھی تو آپ نے نماز میں دیر کی۔
قسطلانی ؒ نے کہا ممکن ہے کہ اس وقت تک خوف کی نماز کا حکم نہیں اترا ہوگا۔
یا نماز کا آپ کو خیال نہ رہا ہو گا یا خیال ہو گا مگر طہارت کرنے کا موقع نہ ملا ہو گا۔
وقيل:
أخرها عمداً؛ لأنه كانت قبل نزول صلاة الخوف، ذهب إليه الجمهور، كما قال ابن رشد، وبه جزم ابن القيم في الهدي، والحافظ في الفتح، والقرطبي في شرح مسلم، وعياض في الشفاء، والزيلعي في نصب الراية، وابن القصار. وهذا هو الراجح عندنا. (مرعاة المفاتیح، ج: 2، ص318)
یعنی کہا گیا (شدت جنگ کی وجہ سے)
آپ ﷺ نے عمدا نماز عصر کو مؤخر فرمایا، اس لیے کہ اس وقت تک صلوۃ خوف کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔
بقول ابن رشد جمہور کا یہی قول ہے اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس خیال پر جزم کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اور قرطبی نے شرح مسلم میں اور قاضی عیاض نے شفاءمیں اور زیلعی نے نصب الرایہ میں اور ابن قصار نے اسی خیال کو ترجیح دی ہے اور حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مؤلف مرعاۃ المفاتیح فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک بھی اسی خیال کو ترجیح حاصل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 945   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:945  
945. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ غزوہ خندق کے دن حضرت عمر ؓ تشریف لائے اور کفار قریش کو برا بھلا کہتے ہوئے کہنے لگے: اللہ کے رسول! میں نماز عصر نہیں پڑھ سکا تاآنکہ سورج غروب کے قریب ہو گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں بھی ابھی تک نماز عصر نہیں پڑھ سکا ہوں۔ اس کے بعد آپ وادی بطحان میں اترے، وضو کیا اور سورج غروب ہونے کے بعد نماز عصر ادا کی اور اس کے بعد نماز مغرب پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:945]
حدیث حاشیہ:
(1)
غزوۂ خندق کے موقع پر نماز عصر مؤخر کر دینے کی کئی ایک وجوہات ممکن ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ سہو و نسیان کی بنا پر ایسا ہوا کہ نماز پڑھنے کا خیال نہ آیا۔
٭ درج ذیل وجوہات کی بنا پر دانستہ ایسا کیا-
٭ جنگی مصروفیات کی وجہ سے نماز پڑھنے کا موقع نہ مل سکا۔
٭ حالات کی سنگینی کی وجہ سے وضو کا وقت میسر نہ آ سکا۔
٭ نماز خوف کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔
امام بخاری ؒ کے نزدیک نماز خوف کے احکام نازل ہو چکے تھے لیکن جنگی مصروفیات کی وجہ سے نماز باجماعت یا الگ الگ پڑھنے کا موقع نہ مل سکا اور نہ اشارے ہی سے پڑھنے کی قدرت تھی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے نماز عصر کو مؤخر کر دیا۔
(2)
اس سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ جنگی مصروفیات کی وجہ سے اگر نماز باجماعت پڑھنے کی قدرت نہ ہو تو الگ الگ ہر شخص اشارے سے پڑھ لے۔
اگر اشارے سے نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو نماز کو مؤخر کر دیا جائے اور حالات کے سازگار ہونے کا انتظار کیا جائے۔
ایسے حالات میں تسبیح، تحلیل اور تکبیر وغیرہ نماز ادا کرنے کے قائم مقام نہیں ہو گی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 945