صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
8. باب تَغْلِيظِ عُقُوبَةِ مَنْ لاَ يُؤَدِّي الزَّكَاةَ:
باب: زکوٰۃ نہ دینے والوں کی سخت سزا دیئے جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2302
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلَّامٍ الْجُمَحِيُّ ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي أُحُدًا ذَهَبًا تَأْتِي عَلَيَّ ثَالِثَةٌ، وَعِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلَّا دِينَارٌ أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ عَلَيَّ "،
ربیع بن مسلم نے محمد بن زیادسے اور انھوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے لئے یہ بات خوشی کاباعث نہیں کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسرا دن مجھ پر اس طرح آئے کہ میرے پاس اس میں سے کوئی دینار بچا ہوا موجود ہوسوائے اس دینار کے جس کو میں اپنا قرض چکانے کے لئے رکھ لوں۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہ بات پسند نہیں ہے (میرے لیے خوشی کا باعث نہیں) کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسرا دن مجھ پر اس طرح آئے کہ میرے پاس اس میں سے دینار بچا ہوا موجود ہو سوائے اس دینار کے جس کو میں اپنا قرض چکانے کے لیے تیار رکھوں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4132  
´مالداروں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسرا دن آئے تو میرے پاس اس میں سے کچھ باقی رہے، سوائے اس کے جو میں قرض ادا کرنے کے لیے رکھ چھوڑوں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4132]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس حدیث میں نبی ﷺ کی سخاوت کا بیان اور امت کے لیے ترغیب ہے۔

(2)
احد ایک بڑا پہاڑ ہےاتنا سونا دو تین دن میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا اس کے باوجود نبی ﷺ کی خواہش یہی تھی کہ اگر اتنا مال بھی ہو تو وہ بھی دو تین دن میں تقسیم نہیں کيا جاسکتا، اس کے باوجود نبیﷺ کی خواہش یہی تھی کہ اگر اتنا مال بھی ہوتو وہ بھی دو تین دن میں مکمل طور پر تقسیم کردیاجائے۔

(3)
قرض کی ادائیگی قرض خواہ کا حق ہےاس کی ادائیگی سخاوت سے اہم ہے۔

(4)
قرض لینا دینا جائز ہے لیکن قرض لیتے وقت یہ نیت ہونی چاہیےکہ جلد از جلد ادا کردیا جائے گا۔

(5)
سنبھال رکھنے کی ضرورت تب پیش آسکتی ہے جب ادائیگی کا مقرر وقت آنے میں کچھ وقفہ باقی ہو تاکہ جب قرض خواہ مطالبہ کرے تو ادئیگی کا اہتمام کرتے ہوئے ادائیگی میں تاخیر نہ ہوجائے۔

(6)
اگر قرض خواہ قریب موجود ہوتو مقررہ وقت سے پہلے خود جاکر ادائیگی کردینا افضل ہے لیکن اگر اس سے رابطہ مشکل ہوتو رقم سنبھال مناسب ہے۔
تاکہ ادائیگی جلد از جلد کی جاسکے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4132