صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
15. باب وُصُولِ ثَوَابِ الصَّدَقَةِ عَنِ الْمَيِّتِ إِلَيْهِ:
باب: میت کے ایصال ثواب کا بیان۔
حدیث نمبر: 2327
وحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ . ح وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إسحاق ، كُلُّهُمْ، عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَفِي حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ وَلَمْ تُوصِ، كَمَا قَالَ ابْنُ بِشْرٍ وَلَمْ يَقُلْ ذَلِكَ الْبَاقُونَ.
یحییٰ بن سعید، ابو اسامہ علی بن مسہر اور شعیب بن اسحاق سب نے ہشام سے باقی ماندہ اسی سند کے ساتھ (اسی کی طرح) روایت بیان کی۔ ابو اسامہ کی حدیث میں ولم توص (اس نے وصیت نہیں کی) کے الفاظ ہیں، جس طرح ابن بشر نے کہا ہے۔ (جبکہ) باقی راویوں نے یہ الفاظ بیان نہیں کئے۔
امام صاحب نے اپنے مختلف اساتذہ سے ہشام ہی کی سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کی ہے ابو سلمہ کی روایت میں، ابن بشر کی روایت کی طرح وَلَم تُوصِ (اس کے وصیت نہیں کی) کے الفاظ ہیں لیکن باقیوں کی روایت میں یہ لفظ نہیں ہے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2327  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اصول اور ضابطہ یہ ہے کہ انسان اپنی ہی محنت اور کوشش کا مالک ہے دوسرے کی محنت اور کوشش کا جس میں اس کا کسی قسم کا دخل نہیں ہے یعنی وہ اس کا باعث یا سبب نہیں۔
اس کی تحریک اور عمل میں اس کا حصہ نہیں ہے وہ اس کا مالک بھی نہیں ہے لیکن جن کے عمل و کردار میں اس کا کسی قسم کا دخل ہے اور اس کا تھوڑا بہت اس سے تعلق ہے وہ اس کا اگرچہ مالک نہیں ہے مالک کرنے والا ہی ہے لیکن اپنے دخل اور تعلق کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کو بھی اس سے ثواب ملے گا۔
مالک اپنی چیز اگر خود کسی کو دے دے اور اللہ چاہے تو اس اہداء اور عطا کو قبول کرے کیونکہ اجر دینے والا تو وہی ہے اور اگر نہ چاہے تو قبول نہ کرے عبادات مالیہ میں بالاتفاق اہل سنت کے نزدیک دوسرے کا قرض ادا کیا جا سکتا ہے اور اس کی طرف سے صدقہ و خیرات بھی کیا جا سکتا ہے لیکن عبادات بدنیہ میں ہر جگہ نیابت جائز نہیں ہے مثلاً کوئی کسی کی طرف سے اس کی زندگی میں نماز نہیں پڑھ سکتا تلاوت نہیں کر سکتا صحت و سلامتی سے متصف ہے تو اس کی طرف سے حج نہیں کر سکتا اور روزہ نہیں رکھ سکتا لیکن مرنے کے بعد ان میں سے بعض کاموں کی اجازت ہے۔
اس کی طرف سے حج کیا جا سکتا ہے اس کے فوت شدہ روزے رکھے جا سکتے ہیں کیونکہ ان کے بارے میں نصوص موجود ہیں کہ صحابہ و تابعین کا عمل بھی اس کی تائید کرتا ہے لیکن جس عبادت کے بارے میں کوئی نص موجود نہیں ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین و تابعین کا مجموعی عمل اس کا مؤید نہیں ہے اس کے بارے میں اپنی طرف سے قیاس ورائے سے کام لے کر فیصلہ کرنا درست نہیں ہے جس طرح کسی کی طرف سے قرآن مجید پڑھنا،
نماز پڑھنا اور نفلی روزے رکھنا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2327