صحيح البخاري
كِتَاب الْعِيدَيْنِ -- کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
1. بَابٌ في الْعِيدَيْنِ وَالتَّجَمُّلِ فِيهِ:
باب: دونوں عیدوں اور ان میں زیب و زینت کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 948
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ: أَخَذَ عُمَرُ جُبَّةً مِنْ إِسْتَبْرَقٍ تُبَاعُ فِي السُّوقِ فَأَخَذَهَا، فَأَتَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ابْتَعْ هَذِهِ تَجَمَّلْ بِهَا لِلْعِيدِ وَالْوُفُودِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا هَذِهِ لِبَاسُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فَلَبِثَ عُمَرُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَلْبَثَ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجُبَّةِ دِيبَاجٍ، فَأَقْبَلَ بِهَا عُمَرُ، فَأَتَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ قُلْتَ إِنَّمَا هَذِهِ لِبَاسُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ وَأَرْسَلْتَ إِلَيَّ بِهَذِهِ الْجُبَّةِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَبِيعُهَا أَوْ تُصِيبُ بِهَا حَاجَتَكَ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ ایک موٹے ریشمی کپڑے کا چغہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جو بازار میں بک رہا تھا کہنے لگے: یا رسول اللہ! آپ اسے خرید لیجئے اور عید اور وفود کی پذیرائی کے لیے اسے پہن کر زینت فرمایا کیجئے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو وہ پہنے گا جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں۔ اس کے بعد جب تک اللہ نے چاہا عمر رہی پھر ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کے پاس ایک ریشمی چغہ تحفہ میں بھیجا۔ عمر رضی اللہ عنہ اسے لیے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! آپ نے تو یہ فرمایا کہ اس کو وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں پھر آپ نے یہ میرے پاس کیوں بھیجا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے تیرے پہننے کو نہیں بھیجا بلکہ اس لیے کہ تم اسے بیچ کر اس کی قیمت اپنے کام میں لاؤ۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 412  
´مردوں کے لئے ریشم کا لباس پہننا جائز نہیں ہے`
«. . . 252- وبه: أن عمر بن الخطاب رأى حلة سيراء تباع عند باب المسجد، فقال: يا رسول الله، لو اشتريت هذه فلبستها يوم الجمعة وللوفد إذا قدموا عليك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما يلبس هذه من لا خلاق له فى الآخرة، ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم منها حلل، فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة، فقال عمر: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، كسوتنيها وقد قلت فى حلة عطارد ما قلت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لم أكسكها لتلبسها، فكساها عمر بن الخطاب أخا له مشركا بمكة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی کپڑا بکتے ہوئے دیکھا تو کہا: یا رسول اللہ! اگر آپ اسے خرید لیں تو جمعہ کے دن اور جب آپ کے پاس کوئی وفد آئے تو پہن لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو وہی شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ریشم کے کپڑے (مال غنیمت میں) لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک کپڑا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے یہ کپڑا دیا ہے حالانکہ آپ نے عطارد کے کپڑے کے بارے میں جو ارشاد فرمایا تھا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمھیں یہ کپڑا پہننے کے لئے نہیں دیا۔ پھر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مکہ میں اپنے مشرک بھائی کو یہ کپڑا پہننے کے لئے دے دیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 412]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 886، 2612، ومسلم 6/2068، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ جمعہ، عیدین اور خاص موقعوں پر بہترین نیا یا پاک و صاف لباس پہننا مسنون ہے۔
➋ مردوں کے لئے ریشمی لباس پہننا حرام ہے۔
➌ اگر خیر کی امید ہو تو کفار و مشرکین کو تحائف دینا جائز ہے۔
➍ مسجد کے قریب اور دروازے سے باہر خرید و فروخت جائز ہے۔
➎ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا جب وہ امیر المؤمنین تھے، آپ کے کرتے پر دونوں کندھوں کے درمیان میں ایک دوسرے کے اوپر تین پیوند لگے ہوئے تھے۔ [الموطا 918/1 ح1771، وسنده صحيح]
➏ اس پر اجماع ہے کہ عورتوں کے لئے ریشمی لباس (اور سونا پہننا) حلال ہے۔ [التمهيد 241/14،]
➐ کفار ومشرکین پر شریعتِ اسلامیہ کے عمومی احکامات نافذ نہیں اِلا یہ کہ کسی خاص حکم کی کوئی تخصیص ثابت ہو۔
➑ بعض روایات وآثار سے ثابت ہے کہ اگر مردانہ لباس میں بعض جگہ تھوڑا سا ریشم استعمال کر لیا جائے تو جائز ہے اور اسی طرح سونے کا دانت لگانا بھی جائز ہے۔
➒ اگر کوئی شخص بیمار ہو اور اس کے لئے ریشمی لباس مفید ہو تو استثنائی حکم کی وجہ سے اس کے لئے ریشمی لباس پہننا جائز ہے۔
➓ حافظ ابن عبدالبر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ غیرمسلموں کو (جو اسلام کے دشمن ہیں) فرض زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے اور باقی صدقات مثلاً صدقۂ فطر، کفارہ قسم اور کفارۂ ظہار بھی اسی حکم میں ہیں جبکہ نفلی صدقات دینا جائز ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 14/263]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 252   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1076  
´جمعہ کے لباس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا بکتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش! آپ اس کو خرید لیں اور جمعہ کے دن اور جس دن آپ کے پاس باہر کے وفود آئیں، اسے پہنا کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے تو صرف وہی پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی قسم کے کچھ جوڑے آئے تو آپ نے ان میں سے ایک جوڑا عمر رضی اللہ عنہ کو دیا تو عمر نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے یہ کپڑا مجھے پہننے کو دیا ہے؟ حالانکہ عطارد کے جوڑے کے سلسلہ میں آپ ایسا ایسا کہہ چکے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں یہ جوڑا اس لیے نہیں دیا ہے کہ اسے تم پہنو، چنانچہ عمر نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو جو مکہ میں رہتا تھا پہننے کے لیے دے دیا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1076]
1076۔ اردو حاشیہ:
➊ جمعہ، عید اور خاص مواقع پر عمدہ لباس کا اہتمام مسنون و مستحب ہے۔
➋ ریشمی لباس مردوں کے لئے حرام مگر عورتوں کے لئے مباح ہے جیسے کہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔
➌ کافر رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک اسلامی اخلاق و آداب کا حصہ ہے نیز ان کوتحفہ یا ہدیہ دینا بھی جائز ہے۔ جبکہ دینی قلبی محبت اللہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان ہی کا حق ہے۔
➍ ریشم فی نفسہ جائز اور حلال ہے یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے لئے اس کا استعمال بھی درست ہے۔ مردوں کے لئے حرمت کی دلیل مذکورہ حدیث ہے جو صحیحین یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی وارد ہے۔ دیکھیے: [صحيح بخاري۔ حديث: 886، وصحيح مسلم، حديث: 2068]
یہ حدیث قرآن مقدس کی اس آیت کی مخصص ہے۔ جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: «قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِه» [الأعراف: 32]
اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)! کہہ دیجیے جو زینت اور کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں اللہ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہیں وہ کس نے حرام کی ہیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ صحیح حدیث سے عموم قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہے۔ «والله أعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1076   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3591  
´ریشمی کپڑے پہننے کی حرمت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ریشم کا ایک سرخ جوڑا دیکھا تو کہا: اللہ کے رسول! اگر آپ اس جوڑے کو وفود سے ملنے کے لیے اور جمعہ کے دن پہننے کے لیے خرید لیتے تو اچھا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3591]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (حله)
ایک طرح کے دو کپڑوں کو کہتے ہیں ایک جسم کے اوپر کے حصے پر پہننے یا اوڑھنے کے لیے دوسرا جسم کے زیریں حصے پر پہننے کے لیے جیسے تہ بند وغیرہ اس لئے اس کا ترجمہ جوڑا کیا گیا ہے۔

(2)
جمعہ اور عید وغیرہ کے موقع پر عمدہ لباس پہننا مستحب ہے اس لئے حضرت عمر ؓ نے مشورہ دیا۔

(3)
مہمانوں کے استقبال کے موقع پر عمدہ لباس پہننا مستحسن ہے۔

(4)
صحابہ کرام ؓ نبی ﷺسے بہت محبت رکھتے تھے اس لئے آپﷺ کے لئے عمدہ چیزیں پسند کرتے تھے۔

(5)
کوئی شخص خلوص اور محبت سے مشورہ دے اور وہ مشورہ درست نہ ہو تو سختی سے رد کرنے کے بجائے اس کی غلطی وضح کر دی جائے تاکہ اسے رنج نہ ہو اور آئندہ اس غلطی سے بچ سکے۔

(6)
آخرت میں حصہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لبال کافر پہنتے ہیں جنہیں آخرت میں کوئی بھلائی نصیب نہیں ہوگی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3591   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 948  
948. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضرت عمر ؓ نے ایک ریشمی جبہ لیا جو بازار میں فروخت ہو رہا تھا، پھر اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اسے خرید لیں تاکہ عید کے دن اور وفود کی آمد کے وقت زیب تن فر کر خود کو آراستہ کیا کریں۔ آپ نے فرمایا: یہ تو ان لوگوں کا لباس ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ حضرت عمر ؓ، جس قدر اللہ کو منظور تھا، ٹھہرے رہے، پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کے پاس ایک ریشمی جبہ بھیجا۔ حضرت عمر ؓ اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے تو فرمایا تھا: یہ ان لوگوں کا لباس ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اس کے باوجود آپ نے یہ جبہ میرے ہاں بھیج دیا؟ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا: اسے فروخت کر کے اپنی کوئی ضرورت پوری کر لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:948]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ہے کہ آنحضور ﷺ سے حضرت عمر ؓ نے کہا کہ یہ جبہ آپ عید کے دن پہنا کیجئے اسی طرح وفود آتے رہتے ہیں ان سے ملاقات کے لیے بھی آپ اس کا استعمال کیجئے۔
لیکن وہ جبہ ریشمی تھا اس لیے آنحضرت ﷺ نے اس سے انکار فرمایا کہ ریشم مردوں کے لیے حرام ہے۔
اس سے معلوم ہو تا ہے کہ عید کے دن جائز لباسوں کے ساتھ آرائش کرنی چاہیے اس سلسلے میں دوسری احادیث بھی آئی ہیں۔
مولانا وحید الزماں اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ سبحان اللہ! اسلام کی بھی کیا عمدہ تعلیم ہے کہ مردوں کو جھوٹا موٹا سوتی اونی کپڑا کافی ہے ریشمی اور باریک کپڑے یہ عورتوں کو سزاوار ہیں۔
اسلام نے مسلمانوں کو مضبوط محنتی جفا کش سپاہی بننے کی تعلیم دی نہ عورتوں کی طرح بناؤ سنگھار اور نازک بدن بننے کی۔
اسلام نے عیش وعشرت کا ناجائز اسباب مثلا نشہ شراب خوری وغیرہ بالکل بند کر دیا لیکن مسلمان اپنے پیغمبر کی تعلیم چھوڑ کر نشہ اور رنڈی بازی میں مشغول ہوئے اور عورتوں کی طرح چکن اور ململ اور گوٹا کناری کے کپڑے پہننے لگے۔
ہاتھوں میں کڑے اور پاؤں میں مہندی، آخر اللہ تعالیٰ نے ان سے حکومت چھین لی اور دوسری مردانہ قوم کو عطاءفرمائی ایسے زنانے مسلمانوں کو ڈوب مرنا چاہیے بے غیرت بے حیا کم بخت (وحیدی)
مولانا کا اشارہ ان مغل شہزادوں کی طرف ہے جو عیش وآرام میں پڑ کر زوال کاسبب بنے، آج کل مسلمانوں کے کالج زدہ نوجوانوں کا کیا حال ہے جو زنانہ بننے میں شاید مغل شہزادوں سے بھی آگے بڑھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جن کا حال یہ ہے نہ پڑھتے تو کھاتے سو طرح کما کروہ کھوئے گئے الٹے تعلیم پا کر
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 948   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:948  
948. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضرت عمر ؓ نے ایک ریشمی جبہ لیا جو بازار میں فروخت ہو رہا تھا، پھر اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اسے خرید لیں تاکہ عید کے دن اور وفود کی آمد کے وقت زیب تن فر کر خود کو آراستہ کیا کریں۔ آپ نے فرمایا: یہ تو ان لوگوں کا لباس ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ حضرت عمر ؓ، جس قدر اللہ کو منظور تھا، ٹھہرے رہے، پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کے پاس ایک ریشمی جبہ بھیجا۔ حضرت عمر ؓ اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے تو فرمایا تھا: یہ ان لوگوں کا لباس ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اس کے باوجود آپ نے یہ جبہ میرے ہاں بھیج دیا؟ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا: اسے فروخت کر کے اپنی کوئی ضرورت پوری کر لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:948]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کی عنوان سے مطابقت واضح ہے کہ حضرت عمر ٍ نے ایک ریشمی جبہ لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تاکہ آپ عید کے دن زیب تن فرما کر خود کو آراستہ کریں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ عیدین کے موقع پر اچھا لباس پہننا رائج تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ کی اس خواہش پر کوئی انکار نہیں فرمایا۔
چونکہ وہ ریشم کا تھا، اس لیے آپ اسے لینے پر آمادہ نہ ہوئے بلکہ فرمایا کہ ایسا لباس وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
دوسری احادیث سے عیدین کے موقع پر بہترین لباس پہننے کے متعلق رہنمائی ملتی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدین اور جمعہ کے دین سرخ دھاری دار جوڑا زیب تن فرماتے تھے۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 280/3)
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی عیدین کے موقع پر بہترین لباس استعمال کرتے تھے جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ عیدین کے دن بہترین لباس پہنا کرتے تھے۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 281/3) (2)
امام بخاری ؒ نے کتاب الجمعة میں اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا تھا:
(باب يلبس أحسن ما يجد)
جمعہ کے لیے حسب توفیق بہترین لباس پہننا لیکن کتاب العیدین میں اس حدیث پر جو عنوان قائم کیا ہے اس سے اشارہ ملتا ہے کہ جمعہ کے دن نئے کپڑے ہونا ضروری نہیں بلکہ صاف ستھرے ہونے چاہئیں لیکن اگر عیدین کے موقع پر نیا لباس بنا لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
واضح رہے کہ کتاب الجمعة میں اس حدیث کے الفاظ تھے کہ اسے آپ جمعہ کے لیے زیب تن کیا کریں جبکہ اس روایت میں عیدین کے موقع پر پہننے کا ذکر ہے، وجہ یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ سے عیدین اور جمعہ سے متعلق دونوں الفاظ مروی ہیں، البتہ حضرت سالم نے عید کے الفاظ جبکہ حضرت نافع نے جمعہ کے الفاظ نقل کیے ہیں۔
(فتح الباری: 567/2)
علامہ کرمانی ؒ نے اس طرح تطبیق دی ہے کہ قصہ تو ایک ہی ہے، چونکہ جمعہ بھی اہل اسلام کے لیے عید کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے ان الفاظ میں کوئی تعارض نہیں۔
(عمدة القاري: 152/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 948