صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
28. باب الْحَثِّ فِي الإِنْفَاقِ وَكَرَاهَةِ الإِحْصَاءِ:
باب: خرچ کرنے کی فضیلیت اور گن گن کر رکھنے کی کراہت۔
حدیث نمبر: 2378
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، أَنَّ عَبَّادَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّهَا جَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَيْسَ لِي شَيْءٌ، إِلَّا مَا أَدْخَلَ عَلَيَّ الزُّبَيْرُ، فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ أَنْ أَرْضَخَ مِمَّا يُدْخِلُ عَلَيَّ؟، فَقَالَ: " ارْضَخِي مَا اسْتَطَعْتِ، وَلَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ ".
عباد بن عبد اللہ بن زبیر نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا ضر ہو ئیں اور عرض کی، اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جو کچھ زبیر مجھے دے اس کے سوا میرے پا س کوئی چیز نہیں ہو تی تو کیا مجھ پر کوئی گنا ہ تو نہیں کہ جو وہ مجھے دے اس میں سے تھوڑا سا صدقہ کر دوں؟آپ نے فرمایا: اپنی طا قت کے مطا بق تھوڑا بھی خرچ کرو اور برتن میں سنبھا ل کر نہ رکھو ورنہ اللہ تعا لیٰ بھی تم سے سنبھا ل کر رکھے گا۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس اس مال کے سوا جو مجھے زبیر دیتا ہے کوئی چیز نہیں ہے تو کیا جو وہ مجھے لا کر دیتے ہیں اگر میں اس میں سے تھوڑا سا خرچ کر دوں تو مجھے گناہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تھوڑا بہت جو کچھ تمھارے بس میں ہو خرچ کرو۔ اور جوڑ، جوڑ کر نہ رکھو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم سے جوڑ جوڑ کر رکھے گا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1960  
´سخاوت کی فضیلت کا بیان۔`
اسماء بنت ابوبکر رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے گھر میں صرف زبیر کی کمائی ہے، کیا میں اس میں سے صدقہ و خیرات کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، صدقہ کرو اور گرہ مت لگاؤ ورنہ تمہارے اوپر گرہ لگا دی جائے گی ۱؎۔ «لا توكي فيوكى عليك» کا مطلب یہ ہے کہ شمار کر کے صدقہ نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی شمار کرے گا اور برکت ختم کر دے گا ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1960]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بخل نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ برکت ختم کردے گا۔

2؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ مال کے ختم ہوجانے کے ڈر سے صدقہ خیرات نہ کرنا منع ہے،
کیوں کہ صدقہ وخیرات نہ کرنا ایک اہم سبب ہے جس سے برکت کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے،
اس لیے کہ رب العالمین خرچ کرنے اور صدقہ دینے پر بے شمار ثواب اور برکت سے نوازتاہے،
مگر شوہر کی کمائی میں سے صدقہ اس کی اجازت ہی سے کی جاسکتی ہے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی صراحت آئی ہے۔

3؎:
یعنی ابن ابی ملیکہ اور اسماء بنت ابی بکر کے درمیان عباد بن عبداللہ بن زبیر کا اضافہ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1960   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1699  
´حرص اور بخل کی برائی کا بیان۔`
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس سوائے اس کے کچھ نہیں جو زبیر میرے لیے گھر میں لا دیں، کیا میں اس میں سے دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو اور اسے بند کر کے نہ رکھو کہ تمہارا رزق بھی بند کر کے رکھ دیا جائے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1699]
1699. اردو حاشیہ: یعنی گھر میں سے عام معمولات کے مطابق جیس کے خواتین گھر کی امین ہوتی اور اس کا انتظام چلاتی ہیں۔جو تھوڑا بہت میسر ہو صدقہ کردیا کرو۔۔۔اس کی بہت برکات ہیں۔جبکہ بخیلی ایک نحوست ہے۔ باندھ باندھ کر مت رکھو کا مطلب یہی ہے کہ بخل سے کام مت لو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1699   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2378  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
اِنْضَحِي:
عطا کر،
دے دے۔
(2)
اِنفَحِي:
عطا کر،
دے دے،
کیونکہ نَضَحَ اور نَفَحَ دونوں کا معنی عطا کرنا ہے اور نَضَحَ کا معنی انڈیلنا بھی ہوتا ہے تو اس صورت میں معنی ہو گا کشادہ دستی سے لٹا دے۔
رَضَخَ کا معنی ہوتا ہے تھوڑا یا کم دینا کچھ نہ کچھ دینا۔
(3)
لاَ تُحْصِي:
شمار نہ کر گن گن کر نہ رکھ۔
مقصد یہ ہے جمع کر کے اور ذخیرہ بنا کر نہ رکھ،
ضرورت کی جگہ پر خرچ کر دے۔
(4)
لَا تُوْعِي:
وعاء (برتن)
میں ڈال کر نہ رکھ،
یعنی جوڑ جوڑ کر اور بند کر کے نہ رکھ۔
(5)
فَيُوْعي اللهُ عَلَيْكَ:
اللہ تمہارے ساتھ یہی معاملہ کرے گا۔
یعنی اپنی رحمت و برکت کے دروازے تم پر بند کر دے گا۔
فوائد ومسائل:
ان احادیث کا پیغام یہ ہے کہ انسان کے حق میں بہتر یہی ہے کہ جو مال دولت وہ کمائے یا کسی ذریعہ سے اسے حاصل ہو۔
اسے اپنی ضروریات کے لیے کشادہ دستی سے خرچ کرے اور اس فکر میں نہ پڑے کہ میرے پاس کتنا ہے اور اس میں سے فی سبیل اللہ کتنا خرچ کروں اگر انسان حساب کر کے خرچ کرے گا۔
تو اللہ تعالیٰ بھی حساب کر کے دے گا۔
اگر انسان بے حساب دے گا تو اللہ بھی اپنی رحمت کے دروازے بے حساب کھول دے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2378