صحيح البخاري
كِتَاب الْعِيدَيْنِ -- کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
5. بَابُ الأَكْلِ يَوْمَ النَّحْرِ:
باب: بقرہ عید کے دن کھانا۔
حدیث نمبر: 955
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: خَطَبَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَضْحَى بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَقَالَ:" مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَنَسَكَ نُسُكَنَا فَقَدْ أَصَابَ النُّسُكَ، وَمَنْ نَسَكَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّهُ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَا نُسُكَ لَهُ، فَقَالَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ خَالُ الْبَرَاءِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنِّي نَسَكْتُ شَاتِي قَبْلَ الصَّلَاةِ وَعَرَفْتُ أَنَّ الْيَوْمَ يَوْمُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَأَحْبَبْتُ أَنْ تَكُونَ شَاتِي أَوَّلَ مَا يُذْبَحُ فِي بَيْتِي فَذَبَحْتُ شَاتِي وَتَغَدَّيْتُ قَبْلَ أَنْ آتِيَ الصَّلَاةَ، قَالَ: شَاتُكَ شَاةُ لَحْمٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنَّ عِنْدَنَا عَنَاقًا لَنَا جَذَعَةً هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شَاتَيْنِ أَفَتَجْزِي عَنِّي، قَالَ: نَعَمْ، وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے شعبی نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کی نماز کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص نے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی اس کی قربانی صحیح ہوئی لیکن جو شخص نماز سے پہلے قربانی کرے وہ نماز سے پہلے ہی گوشت کھاتا ہے مگر وہ قربانی نہیں۔ براء کے ماموں ابو بردہ بن نیار یہ سن کر بولے کہ یا رسول اللہ! میں نے اپنی بکری کی قربانی نماز سے پہلے کر دی میں نے سوچا کہ یہ کھانے پینے کا دن ہے میری بکری اگر گھر کا پہلا ذبیحہ بنے تو بہت اچھا ہو۔ اس خیال سے میں نے بکری ذبح کر دی اور نماز سے پہلے ہی اس کا گوشت بھی کھا لیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی۔ ابوبردہ بن نیار نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے اور وہ مجھے گوشت کی دو بکریوں سے بھی عزیز ہے، کیا اس سے میری قربانی ہو جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں لیکن تمہارے بعد کسی کی قربانی اس عمر کے بچے سے کافی نہ ہو گی۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 342  
´نماز عید سے پہلے قربانی جائز نہیں ہے`
«. . . 501- وبه: عن بشير بن يسار عن أبى بردة بن نيار أنه ذبح أضحيته قبل أن يذبح رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الأضحى، فزعم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمره أن يعود بضحية أخرى، فقال أبو بردة: لا أجد إلا جذعا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن لم تجد إلا جذعا فاذبحه. . . .»
. . . سیدنا ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عید الاضحی کے دن اپنی قربانی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی (یعنی نماز عید) سے پہلے ذبح کر دیا تو کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ دوبارہ قربانی کرو۔ ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس صرف ایک جذع (بکری کا ایک سالہ بچہ) ہے تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارے پاس جذع کے سوا کچھ بھی نہیں ہے تو اسے ہی ذبح کر دو۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 342]

تخریج:
[وأخرجه الدارمي 1969، من حديث مالك به وله شواهد عند البخاري 955، ومسلم 1961، وغيرهما]

تفقه:
➊ نماز عید سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔
➋ بکری کے اس بچے کو جذعہ کہتے ہیں جو آٹھ یا نو ماہ کا ہوگیا ہو۔ دیکھئے: [القاموس الوحيد ص243]، نہ ملنے کی صورت میں بھیڑ کے جذعے کی قربانی جائز ہے۔
➌ عبادات اور اُمورِ تقرب الی اللہ کی قبولیت میں شرعی حدود کی موافقت ضروری ہے۔
➍ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قربانی کے دن کے علاوہ دو دن قربانی ہوتی ہے۔ [الموطأ 2 / 487 ح1071، وسنده صحيح،]
➎ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: قربانی سنت ہے، واجب نہیں اور میں پسند نہیں کرتا کہ کوئی آدمی مال ودولت ہونے کے باوجود اسے ترک کرے۔ [الموطأ 2 / 487 بعد ح1073]
➏ نیز دیکھئے [حديث: الموطأ 105، 106، مسلم: 1972، 1838]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 501   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1508  
´نماز عید کے بعد قربانی کرنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا، آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا: جب تک نماز عید ادا نہ کر لے کوئی ہرگز قربانی نہ کرے۔‏‏‏‏ براء کہتے ہیں: میرے ماموں کھڑے ہوئے ۱؎، اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے جس میں (زیادہ ہونے کی وجہ سے) گوشت قابل نفرت ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اپنی قربانی جلد کر دی تاکہ اپنے بال بچوں اور گھر والوں یا پڑوسیوں کو کھلا سکوں؟ آپ نے فرمایا: پھر دوسری قربانی کرو، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس دودھ پیتی پٹھیا ہے اور گوشت والی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1508]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ان کا نام ابوبردہ بن نیار تھا۔

2؎:
یعنی یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے کیوں کہ تمہارے لیے اس وقت مجبوری ہے ورنہ قربانی میں مسنہ (دانتایعنی دودانت والا) ہی جائز ہے،
بکری کا جذعہ وہ ہے جو سال پورا کرکے دوسرے سال میں قدم رکھ چکا ہواس کی بھی قربانی صرف ابوبردہ کے لیے جائز کی گئی تھی،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت صلاۃ عید کے بعد ہے،
اگر کسی نے صلاۃ عید کی ادائیگی سے پہلے ہی جانور ذبح کردیا تو اس کی قربانی نہیں ہوئی،
اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے۔

3؎:
بھیڑ کے جذعہ (چھ ماہ) کی قربانی عام مسلمانوں کے لیے دانتا میسر نہ ہونے کی صورت میں جائز ہے،
جب کہ بکری کے جذعہ (ایک سالہ) کی قربانی صرف ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے لیے جائز کی گئی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1508   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2801  
´کس عمر کے جانور کی قربانی جائز ہے؟`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے ابوبردہ نامی ایک ماموں نے نماز سے پہلے قربانی کر لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس بکریوں میں سے ایک پلی ہوئی جذعہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی کو ذبح کر ڈالو، لیکن تمہارے سوا اور کسی کے لیے ایسا کرنا درست نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2801]
فوائد ومسائل:
مذکورہ بالا احادیث 2798 اور 2799 کو اسی پر محمول کرنا راحج ہے۔
کہ بھیڑ کا ایک سالہ جانور جو دو دانتا نہ ہو جائزہے۔
مگر بکری کی قسم سے جائز نہیں۔
جیسا کہ تفصیل میں گزر چکا ہے۔
دیکھئے (فوائد ومسائل حدیث 2797)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2801   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 955  
955. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے عید الاضحیٰ کے دن نماز کے بعد ہمارے سامنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو شخص ہمارے جیسی نماز پڑھے اور ہمارے جیسی قربانی کرے تو اس کا فریضہ پورا ہو گیا اور جس نے نماز سے قبل قربانی کی تو وہ نماز سے پہلے ہونے کی بنا پر قربانی نہیں ہے۔ اس پر حضرت براء ؓ کے ماموں ابوبردہ بن نیار ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی بکری نماز سے پہلے ہی ذبح کر دی ہے کیونکہ میرے علم میں تھا کہ آج کھانے پینے کا دن ہے، اس لیے میری خواہش تھی کہ سب سے پہلے میرے ہی گھر میں بکری ذبح کی جائے، اس بنا پر میں نے اپنی بکری ذبح کر دی اور نماز کے لیے آنے سے قبل کچھ ناشتہ بھی کر لیا، آپ نے فرمایا: تمہاری بکری تو صرف گوشت کی بکری ٹھہری (قربانی نہیں ہے)۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس بھیڑ کا ایک سالہ بچہ ہے جو مجھے دو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:955]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ قربانی میں مسنہ بکری ضروری ہے جو دوسرے سال میں ہو اور دانت نکال چکی ہو۔
بغیر دانت نکالے بکری قربانی کے لائق نہیں ہوتی۔
علامہ شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
قوله المسنة قال العلماءالمسنة ھی الثنیة من کل شيئ من الإبل والبقر والغنم فما فوقھا الخ۔
مسجد میں ہے کہ الثنیة جمعه ثنایا وھي أسنان مقدم الفم ثنتان من فوق وثنتان من أسفل۔
یعنی ثنیہ سامنے کے اوپر نیچے کے دانت کو کہتے ہیں۔
اس لحاظ سے حدیث کے یہ معنی ہوئے کہ دانت والے جانوروں کی قربانی کرو اس سے لازم یہی نتیجہ نکلا کہ کھیرے کی قربانی نہ کرو اس لیے ایک روایت میں ہے:
ینفی من الضحایا التي لم تسن۔
قربانی کے جانوروں میں سے وہ جانور نکال ڈالا جائے گا جس کے دانت نہ اگے ہوں گے۔
اگر مجبوری کی حالت میں مسنہ نہ ملے مشکل ودشوار ہو تو جذعۃ من الضان بھی کر سکتے ہیں جیسا کہ اسی حدیث کے آخر میں آپ ﷺ نے فرمایا:
إلاأن یعسر علیکم فتذبحوا جذعة من الضأن۔
لغات الحدیث میں لکھا ہے پانچویں برس میں جو اونٹ لگا ہواور دوسرے برس میں جو گائے بکری لگی ہو اور چوتھے برس میں جو گھوڑا لگا ہو۔
بعضوں نے کہا جو گائے تیسرے برس میں لگی ہو اور جو بھیڑ ایک برس کی ہو گئی جیسا کہ حدیث میں ہے۔
ضحینا من رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بالجذع من الضأن والثني من المعز۔
ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک برس کی بھیڑ اور دو برس کی (جو تیسرے میں لگی ہو)
بکری قربانی کی۔
اور تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ بکری ثنی وہ ہے جو دو سال گزار چکی ہو اور جذعہ اسے کہتے ہیں جو سال بھر کا ہو گیا ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 955   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:955  
955. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے عید الاضحیٰ کے دن نماز کے بعد ہمارے سامنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو شخص ہمارے جیسی نماز پڑھے اور ہمارے جیسی قربانی کرے تو اس کا فریضہ پورا ہو گیا اور جس نے نماز سے قبل قربانی کی تو وہ نماز سے پہلے ہونے کی بنا پر قربانی نہیں ہے۔ اس پر حضرت براء ؓ کے ماموں ابوبردہ بن نیار ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی بکری نماز سے پہلے ہی ذبح کر دی ہے کیونکہ میرے علم میں تھا کہ آج کھانے پینے کا دن ہے، اس لیے میری خواہش تھی کہ سب سے پہلے میرے ہی گھر میں بکری ذبح کی جائے، اس بنا پر میں نے اپنی بکری ذبح کر دی اور نماز کے لیے آنے سے قبل کچھ ناشتہ بھی کر لیا، آپ نے فرمایا: تمہاری بکری تو صرف گوشت کی بکری ٹھہری (قربانی نہیں ہے)۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس بھیڑ کا ایک سالہ بچہ ہے جو مجھے دو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:955]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے پہلی حدیث میں قبل از وقت ذبح کی گئی قربانی کو کھانے کا ذکر نہیں تھا جبکہ اس روایت میں اس سے ناشتہ کرنے کی صراحت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے صرف قربانی کے متعلق فرمایا کہ یہ غیر معتبر ہے، کیونکہ یہ قبل از وقت کی گئی ہے لیکن اسے تناول کرنے پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا۔
اسی خاموشی سے امام بخاری ؒ نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ عید الاضحیٰ کے دن کھانے پینے کے متعلق کوئی پابندی نہیں ہے، اگرچہ حضرت ابو بردہ بن نیار ؓ سے یہ عمل محض عدم علم کی بنا پر ہوا لیکن آپ نے اسے برقرار رکھا، البتہ قابل اصلاح عمل کی اصلاح فرما دی کہ قربانی دوبارہ کی جائے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین کسی کے پاکیزہ جذبات کا نام نہیں بلکہ اس کے لیے منزل من اللہ ہونا ضروری ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ عنوان کا ثبوت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صرف قربانی دوبارہ ذبح کرنے کا حکم دیا جو اس بات کے جائز ہونے کا ثبوت ہے کہ ذبح شدہ جانور کو پکا کر کھایا جا سکتا ہے۔
لوگ عید سے پہلے کھانا جائز نہیں سمجھتے تھے، آپ نے نماز سے پہلے کھانے پر سکوت فرما کر گویا اس کے جواز کو برقرار رکھا۔
علامہ عینی ؒ نے امام بخاری ؒ کے استدلال کی بایں الفاظ وضاحت کی ہے کہ حضرت ابو بردہ بن نیار نے رسول اللہ ﷺ کے حضور عرض کیا کہ عید کا دن کھانے پینے کا دن ہے، نیز انہوں نے کہا کہ میں نے قبل از نماز ناشتہ بھی کر لیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس عمل پر اسے کوئی ملامت نہیں فرمائی۔
اس سے پتہ چلا کہ نماز سے پہلے کھانا یا ناشتہ کرنا قابل ملامت نہیں ہے۔
(عمدة القاري: 188/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 955