صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
46. باب إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الإِسْلاَمِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِيَ إِيمَانُهُ:
باب: قوی الایمان لوگوں کو صبر کی تلقین۔
حدیث نمبر: 2436
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّ أُنَاسًا مِنْ الْأنْصَارِ قَالُوا يَوْمَ حُنَيْنٍ حِينَ أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَمْوَالِ هَوَازِنَ مَا أَفَاءَ، فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي رِجَالًا مِنْ قُرَيْشٍ الْمِائَةَ مِنَ الْإِبِلِ، فَقَالُوا: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ يُعْطِي قُرَيْشًا وَيَتْرُكُنَا، وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: فَحُدِّثَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِهِمْ، فَأَرْسَلَ إِلَى الْأَنْصَارِ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا جَاءَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ؟ " فَقَالَ لَهُ فُقَهَاءُ الْأَنْصَارِ: أَمَّا ذَوُو رَأْيِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمْ يَقُولُوا شَيْئًا، وَأَمَّا أُنَاسٌ مِنَّا حَدِيثَةٌ أَسْنَانُهُمْ قَالُوا: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِهِ يُعْطِي قُرَيْشًا، وَيَتْرُكُنَا وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنِّي أُعْطِي رِجَالًا حَدِيثِي عَهْدٍ بِكُفْرٍ أَتَأَلَّفُهُمْ، أَفَلَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالْأَمْوَالِ، وَتَرْجِعُونَ إِلَى رِحَالِكُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ، فَوَاللَّهِ لَمَا تَنْقَلِبُونَ بِهِ خَيْرٌ مِمَّا يَنْقَلِبُونَ بِهِ "، فَقَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ رَضِينَا، قَالَ: " فَإِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ أَثَرَةً شَدِيدَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْا اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَإِنِّي عَلَى الْحَوْضِ "، قَالُوا: سَنَصْبِرُ،
یونس نے ابن شہاب (زہری) سے خبر دی، کہا: مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ حنین کےدن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور فے (قبیلہ) ہوازن کے وہ اموال عطا کیے جو عطا کیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں کو سوسو اونٹ دینے شروع کیے تو انصار میں سے کچھ لوگوں نے کہا: اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے!آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں، حالانکہ ہماری تلواریں (ابھی تک) ان کے خون کے قطرے ٹپکا رہی ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کی باتوں میں سے یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئیں تو آپ نے انصار کو بلوا بھیجا اور انھیں چمڑے کے ایک (بڑے) سائبان (کے سائے) میں جمع کیا، جب وہ سب اکھٹے ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: " یہ کیا بات ہے جو مجھے تم لوگوں کی طرف سے پہنچی ہے؟"انصار کے سمجھدار لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے اہل رائے تو کچھ نہیں کہا، البتہ ہم میں سے ان لوگوں نے، جو نو عمر ہیں، یہ بات کہی ہے کہ اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے، وہ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کررہے ہیں، حالانکہ ہماری تلواریں (ابھی تک) ان کے خون کے قطرے ٹپکا رہی ہیں۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں ان کو دے رہاہوں جو کچھ عرصہ قبل تک کفر پر تھے، ایسے لوگوں کی تالیف قلب کرناچاہتا ہوں، کیا تم اس پر راضی نہیں ہوکہ لوگ مال ودولت لے جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گھروں کی طرف لوٹو؟اللہ کی قسم! جو کچھ تم لے کر واپس جارہے ہو وہ اس سے بہت بہتر ہے جسے وہ لوگ لے کر لوٹ رہے ہیں۔"تو (انصار) کہنے لگے: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم (بالکل) راضی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک تم (اپنی نسبت دوسروں کو) بہت زیادہ ترجیح ملتی دیکھو گے تو تم (اس پر) صبرکرنا یہاں تک کہ تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آملو۔میں حوض پرہوں گا (وہیں ملاقات ہوگی۔) "انصار نے کہا: ہم (ہر صورت میں صبر) صبر کریں گے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حنین کےدن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو ہوازن کے بہت سے اموال بطور فئے عنائت فرمائے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریشی سرداروں کو سوسو اونٹ دینے لگے تو کچھ انصاروں نے کہا: اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف فرمائے! آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں، حالانکہ ہماری تلواریں ان کے خونوں سے ٹپک رہی ہیں۔ یعنی ہماری تلواریں ان کے خونوں سے رنگین ہیں وہ کافر تھے۔ اور ہم مسلمان۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی گفتگو بتائی گئی تو آپ نے انصار کو بلوا بھیجا اور انھیں چمڑے کے خیمے میں جمع کیا، جب وہ سب اکھٹے ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: یہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے تمہارے بارے میں مجھے پہنچی ہے؟ انصار کے سمجھدار لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارے اہل رائے تو کوئی بات نہیں کی، لیکن ہمارے نو عمر جوانوں نے کہا۔ اللہ اپنے رسول کو معاف فرمائے، وہ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کر رہے ہیں، حالانکہ ہماری تلواروں سے ان کے خون ٹپک رہے ہیں۔ (اسلام کی خاطر) ان سے جنگیں کرتے رہے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایسے لوگوں کو جو نئے نئے کفر سے نکلےہیں، ان کی تالیف قلب کے لیے (اسلام پر جمانے کے لیے) دیتا ہوں، کیا تم اس پر راضی اور مطمئن نہیں ہو کہ لوگ مال ودولت لے جائیں اور تم اپنے گھروں کی طرف لے کر گھروں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر لوٹو؟ اللہ کی قسم! جو کچھ تم لے کر لوٹ رہے ہو وہ اس سے بہت بہتر ہے جو وہ لے کر لوٹ رہے ہیں۔ تو (انصار) نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم راضی اور مطمئن ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک تم بہت زیادہ اپنے اوپر ترجیح پاؤ گے (تمہیں نظر انداز کر کے دوسروں کو آگے بڑھایا جائے گا) تو صبرکرنا یہاں تک کہ تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملو۔ بے شک میں حوض پرہوں گا انصار نے کہا: ہم ضرور صبر کریں گے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3901  
´انصار اور قریش کے فضائل کا بیان`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ۱؎ اور فرمایا: کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں سوائے ہمارے بھانجے کے، تو آپ نے فرمایا: قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتا ہے، پھر آپ نے فرمایا: قریش اپنی جاہلیت اور (کفر کی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں، (اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3901]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ غزوہ حنین کے بعد کا واقعہ ہے،
جس کے اندر آپﷺ نے قریش کے نئے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے بطورتالیف قلب عطا فرمایا تو بعض نوجوان انصاری حضرات کی طرف سے کچھ ناپسندیدہ رنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا،
اسی پر آپﷺ نے انصار کو جمع کر کے یہ اردشاد فرمایا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3901   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2436  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
سُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ:
عربی محاورہ ہے جس میں مبالغہ مطلوب ہوتا ہے۔
لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ہماری تلواریں ان کے خونوں سے ٹپک رہی ہیں مگر مقصود ہوتا ہے ان کے خون ہماری تلواروں سے رواں دواں ہیں ہماری تلواریں ان کے خونوں سے رنگین ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2436