صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
46. باب إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الإِسْلاَمِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِيَ إِيمَانُهُ:
باب: قوی الایمان لوگوں کو صبر کی تلقین۔
حدیث نمبر: 2441
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَرْعَرَةَ ، يزيد أحدهما على الآخر الحرف بعد الحرف، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ، أَقْبَلَتْ هَوَازِنُ وَغَطَفَانُ وَغَيْرُهُمْ بِذَرَارِيِّهِمْ وَنَعَمِهِمْ، وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ عَشَرَةُ آلَافٍ وَمَعَهُ الطُّلَقَاءُ، فَأَدْبَرُوا عَنْهُ حَتَّى بَقِيَ وَحْدَهُ، قَالَ: فَنَادَى يَوْمَئِذٍ نِدَاءَيْنِ لَمْ يَخْلِطْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، قَالَ: فَالْتَفَتَ عَنْ يَمِينِهِ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، فَقَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ، قَالَ: ثُمَّ الْتَفَتَ عَنْ يَسَارِهِ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ، قَالَ: وَهُوَ عَلَى بَغْلَةٍ بَيْضَاءَ فَنَزَلَ، فَقَالَ: أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ وَأَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَائِمَ كَثِيرَةً، فَقَسَمَ فِي الْمُهَاجِرِينَ وَالطُّلَقَاءِ، وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: إِذَا كَانَتِ الشِّدَّةُ فَنَحْنُ نُدْعَى وَتُعْطَى الْغَنَائِمُ غَيْرَنَا، فَبَلَغَهُ ذَلِكَ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ؟ فَسَكَتُوا، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا، وَتَذْهَبُونَ بِمُحَمَّدٍ تَحُوزُونَهُ إِلَى بُيُوتِكُمْ، قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ رَضِينَا، قَالَ: فَقَالَ: لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا، وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ شِعْبًا، لَأَخَذْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ "، قَالَ هِشَامٌ: فَقُلْتُ يَا أَبَا حَمْزَةَ أَنْتَ شَاهِدٌ ذَاكَ؟، قَالَ: وَأَيْنَ أَغِيبُ عَنْهُ،
ہشام بن زید بن انس نےحضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: جب حنین کی جنگ ہوئی تو حوازن اور غطفان اور دوسرے لوگ اپنے بیوی بچوں اور مویشیوں کو لے کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس روز دس ہزار (اپنے ساتھی) تھے اور وہ لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جنھیں (فتح مکہ کے موقع پر غلام بنانے کی بجائے) آزاد کیاگیا تھا۔یہ آپ کو چھوڑ کر پیچھے بھاگ گئے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے، کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن (مہاجرین کے بعد انصار کو) دودفعہ پکارا، ان دونوں کو آپس میں زرہ برابر گڈ مڈ نہ کیا، آپ دائیں طرف متوجہ ہوئے اور آواز دی: "اے جماعت انصار!"انھوں نے کہا: لبیک، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوجائیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بائیں طرف متوجہ ہوئےاور فرمایا: "اے جماعت انصار!"انھوں نے کہا: لبیک، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوجائیے، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔آپ (اس وقت) سفید خچر پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اترے اور فرمایا: "میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔"چنانچہ مشرک شکست کھا گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت کے بہت سے اموال حاصل کیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں (فتح مکہ سے زرا قبل) ہجرت کرنے والوں اور (فتح مکہ کے موقع پر) آزاد رکھے جانے والوں میں تقسیم کردیا اور انصارکو کچھ نہ دیا، اس پر انصار نے کہا: جب سختی اورشدت کا موقع ہوتوہمیں بلایا جاتا ہے۔اور غنیمتیں دوسروں کو دی جاتی ہیں!یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی، اس پر آپ نے انھیں سائبان میں جمع کیا اور فرمایا: "اے انصار کی جماعت! وہ کیا بات ہے جو مجھے تمھارے بارے میں پہنچی ہے؟"وہ خاموش رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے انصار کی جماعت!کیا تم اس بات پر راضی نہ ہوگے کہ لوگ دنیا لے کر جائیں اور تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جمعیت میں شامل کرکے اپنے ساتھ گھروں کو لے جاؤ۔"وہ کہہ اٹھے: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم (اس پر) راضی ہیں۔کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں، تو میں انصار کی وادی کو اختیار کروں گا۔" ہشام نے کہا میں نے پوچھا: ابوحمزہ رضی اللہ عنہ! (حضرت انس رضی اللہ عنہ کی کنیت) آپ اس کے (عینی) شاہد تھے؟انھوں نے کہا: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کہاں غائب ہوسکتاتھا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب حنین کا وقت آیا۔ ہوازن اور غطفان اور دوسرے لوگ اپنے بیوی بچوں اور مویشیوں کو لے کر آگے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس روز دس ہزار اور فتح مکہ کے وقت آزاد کردہ لوگ تھے، وہ پشت دکھا گئے۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن دودفعہ الگ الگ آواز دی درمیان میں کچھ نہیں کہا، آپ نے دائیں طرف متوجہ ہوکرآواز دی، اے ےنصاریو! اے جماعت انصار! انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ہیں، خوش ہوجائیے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم بائیں طرف التفات فرمایا اور کہا: انصار کے گروہ! انہوں نے کہا: لبیک، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو جائیے، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفید خچر پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتر کر کہا: میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ مشرک شکست کھا گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غنیمت کا بہت مال ملا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسے مہاجروں اور فتح مکہ موقع پر مسلمان ہونے والوں میں تفسیم کر دیا۔ انصار کو کچھ نہ دیا، اس پر انصار نے کہا: جب سختی اورشدت کا موقع ہوتا ہے تو ہمیں بلایا جاتا ہے۔ اور غنیمتیں دوسروں کو دی جاتی ہیں! یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک خیمہ میں جمع کیا، اور فرمایا: اے انصار کی جماعت! وہ کیا بات ہے جو مجھے تمھارے بارے میں پہنچی ہے؟ وہ خاموش رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انصار کی جماعت! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ لوگ دنیا لے کر جائیں (دنیا کا مال و دولت لے لیں) اور تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنے گھروں کو لے جاؤ۔ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم راضی ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی گھاٹی کو اختیار کروں گا۔" ہشام کہتے ہیں، میں نے پوچھا: اے ابوحمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! (حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ہے) ا س وقت آپ موجود تھے؟ انھوں نے کہا: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاں غائب ہو سکتا تھا۔ طلقاء سے مراد وہ لوگ ہیں۔جو فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے آپ نے ان پر احسان فرمایا ان کو قتل نہ کیا اور قیدی بھی نہ بنایا بلکہ آزاد کر دیا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3901  
´انصار اور قریش کے فضائل کا بیان`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ۱؎ اور فرمایا: کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں سوائے ہمارے بھانجے کے، تو آپ نے فرمایا: قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتا ہے، پھر آپ نے فرمایا: قریش اپنی جاہلیت اور (کفر کی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں، (اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3901]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ غزوہ حنین کے بعد کا واقعہ ہے،
جس کے اندر آپﷺ نے قریش کے نئے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے بطورتالیف قلب عطا فرمایا تو بعض نوجوان انصاری حضرات کی طرف سے کچھ ناپسندیدہ رنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا،
اسی پر آپﷺ نے انصار کو جمع کر کے یہ اردشاد فرمایا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3901