صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
46. باب إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الإِسْلاَمِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِيَ إِيمَانُهُ:
باب: قوی الایمان لوگوں کو صبر کی تلقین۔
حدیث نمبر: 2448
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسْمًا، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّهَا لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَارَرْتُهُ، فَغَضِبَ مِنْ ذَلِكَ غَضَبًا شَدِيدًا وَاحْمَرَّ وَجْهُهُ، حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَذْكُرْهُ لَهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: " قَدْ أَوُذِيَ مُوسَى بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ ".
اعمش نے (ابو وائل) شقیق سے اور ا نھوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ (مال) تقسیم کیا توع ایک آدمی نے کہا: اس تقسیم میں اللہ کی رضا کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔کہا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور چپکے چپکے سے آپ کو بتادیا، اس سے آپ انتہائی غصے میں آگئے، آپ کاچہرہ سرخ ہوگیا حتیٰ کہ میں نے خواہش کی، کاش!یہ بات میں آپ کو نہ بتاتا، کہا: پھر آپ نے فرمایا: "موسیٰ علیہ السلام کو اس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی تو انھوں نے صبر کیا۔"
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےایک دفعہ مال تقسیم کیا تو ایک آدمی نے کہا یہ ایسی تقسیم ہے جس میں اللہ کو راضی کرنے کا ارادہ نہیں کیا گیا۔ تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا، اور چپکے سے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا، لہٰذا آپصلی اللہ علیہ وسلم انتہائی غصہ میں آ گئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سرخ ہو گیا حتی کہ میں نے خواہش کی کاش میں آپ کو یہ بات نہ بتاتا پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام کو اس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی اور انھوں نے صبر کیا۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2448  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

یہ اعتراض کرنے والا معتب بن قشیر نامی منافق تھا۔
اور اگلے باب میں اعتراض کرنے والا خارجیوں کا لیڈر اور سرغنہ اوران کا پیش رو حرقوص بن زہیر السعدی ہے یہ دونوں فرد الگ الگ ہیں۔

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے آپﷺ مال غنیمت کی تقسیم اللہ تعالیٰ کی منشا اور مرضی کے مطابق فرماتے تھے۔
اس لیے آپﷺ نے فرمایا:
اگر اللہ اور اس کا رسول ہی عادلانہ تقیسم نہیں کریں گے تو پھر دنیا میں منصفانہ تقسیم کون کر سکتا ہے۔

آپﷺ بشری تقاضا کے تحت ایک انتہائی نامعقول بات سن کر متاثر ہو گئے اور آپﷺ پر شدید غضب طاری ہو گیا۔
لیکن آپﷺ نے پیغمبرانہ تحمل وبرداشت سے کام لیا اور بتایا پیغمبروں کو اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ باتوں سے واسطہ پڑتا ہے۔
لیکن وہ صبر وتحمل کا دامن نہیں چھوڑتے۔
لیکن چونکہ وہ نام نہاد مسلمان تھا۔
اس لیے آپﷺ نے اسے اس گستاخی اور بے ادبی پر سزا نہیں دی۔

کسی کو کوئی بات اس مقصد کے تحت بتانا کہ وہ اپنی عزت کا دفاع کر سکے یا بد فہمی اورغلط فہمی دور کر سکے۔
یہ غیبت اور چغلی نہیں ہے۔
ہاں بگاڑ اور فساد کے لیے لگائی بجھائی کرنا جائز نہیں ہے۔

بعض انسان رسول کے فیصلہ اورحکم کی حکمت اور مصلحت کو نہیں سمجھ سکتا۔
تو ایسے انسان کو رسول کے حکم پر مطمئن ہونا چاہیے۔
اس کے بارے میں کسی بدگمانی یا بدظنی کا شکار ہو کر اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2448