صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
48. باب التَّحْرِيضِ عَلَى قَتْلِ الْخَوَارِجِ:
باب: خوارج کے قتل پر ابھارنے کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 2465
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَاللَّفْظُ لَهُمَا، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: ذَكَرَ الْخَوَارِجَ، فَقَالَ: " فِيهِمْ رَجُلٌ مُخْدَجُ الْيَدِ، أَوْ مُودَنُ الْيَدِ أَوْ مَثْدُونُ الْيَدِ، لَوْلَا أَنْ تَبْطَرُوا لَحَدَّثْتُكُمْ بِمَا وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ يَقْتُلُونَهُمْ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، قَالَ: قُلْتُ: " آنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ " قَالَ: " إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ "،
ایو ب نے محمد سے انھوں نے عبیدہ سے اور انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے خوارج کا ذکر کیا اور کہا: ان میں ایک آدمی ناقص چھوٹے یا زیادہ اور ہلتے ہو ئے گو شت کے (جیسے) ہاتھ والا ہو گا اگر تمھا رے اترا نے کا ڈر نہ ہو تا تو جو کچھ اللہ تعا لیٰ نے انھیں قتل کرنے والوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے وعدہ فرمایا ہے وہ میں تمھیں بتا تا۔ (عبیدہ نے) کہا میں نے عرض کی: کیا آپ نے یہ (وعدہ برا راست) محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ انھوں نے کہا: رب کعبہ کی قسم! ہاں رب کعبہ قسم!ہاں رب کعبہ کی قسم!ہاں
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے خوارج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ان میں ایک آدمی ہو گا جس کا ہاتھ ناقص یا چھوٹا سا ملا ہوا ہو گا۔ اگر تم اترانے نہ لگو تو میں تمھیں بتاؤں اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ان کے قتل کرنے والوں سے کیا وعدہ کیا ہے۔ عبیدہ کہتے ہیں میں نے پوچھا: کیا آپ نے براہ راست اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، رب کعبہ کی قسم! ہاں، رب کعبہ کی قسم! ہاں، رب کعبہ کی قسم!
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث167  
´خوارج کا بیان۔`
عبیدہ فرماتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کا ذکر کیا، اور ذکر کرتے ہوئے کہا: ان میں ایک آدمی ناقص ہاتھ کا ہے ۱؎، اور اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ تم خوشی سے اترانے لگو گے تو میں تمہیں ضرور بتاتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان سے ان کے قاتلین کے لیے کس ثواب اور انعام و اکرام کا وعدہ فرمایا ہے، میں نے کہا: کیا آپ نے یہ بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ کہا: ہاں، کعبہ کے رب کی قسم! (ضرور سنی ہے)، اسے تین مرتبہ کہا۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 167]
اردو حاشہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج کے بارے میں تفصیل سے بیان فرمایا اور وہ واقعات اسی طرح پیش آئے جس طرح آپ نے بیان فرمائے تھے۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک دلیل ہے۔

(2)
اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی فضیلت ہے جنہوں نے خوارج سے جنگ کی۔

(3)
تاکید کے طور پر قسم کھانا جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 167   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4768  
´چوروں سے مقابلہ کرنے کا بیان۔`
زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس فوج میں شامل تھے جو علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی، اور جو خوارج کی طرف گئی تھی، علی نے کہا: اے لوگو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: میری امت میں کچھ لوگ ایسے نکلیں گے کہ وہ قرآن پڑھیں گے، تمہارا پڑھنا ان کے پڑھنے کے مقابلے کچھ نہ ہو گا، نہ تمہاری نماز ان کی نماز کے مقابلے کچھ ہو گی، اور نہ ہی تمہارا روزہ ان کے روزے کے مقابلے کچھ ہو گا، وہ قرآن پڑھیں گے، اور سمجھیں گے کہ وہ ان کے لیے (ثواب) ہے حالانکہ وہ ان پر (عذاب) ہو گا، ان کی صلاۃ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گی، وہ اسلام سے نکل جا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4768]
فوائد ومسائل:
1: جو اعمال ایمان واخلاص اور تقوی وسنت کے مطابق نہ ہوں، وہ مقدارمیں خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں، اللہ کے ہاں ان کی کوئی قدر نہیں۔

2: عام سیاسی مخالف اور دینی دشمن مقابلے میں ہوں تو مسلمان کو اپنی نظر دینی دشمن پر رکھنی چاہیے۔

3:حضرت علی رضی اللہ وہ خلیفہ راشدتھےجنہوں نے خارجیوں کا قلع قمع کرنے میں سرتوڑکوشش فرمائی۔

4: امام مالک کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت علی رضی اللہ نے سب کے سامنے ایک حقیقت واضح کرنے کے لئے بار بار قسم کے ساتھ جواب دیا، یہ ضرورت کے مطابق تھا، لیکن اس سے نہ سمجھ لیا جائے کہ کسی عام سی بات کو اس طرح کوئی پوچھے تو جواب دینا ضروری ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4768