صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
48. باب التَّحْرِيضِ عَلَى قَتْلِ الْخَوَارِجِ:
باب: خوارج کے قتل پر ابھارنے کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 2467
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ الْجُهَنِيُّ ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، الَّذِينَ سَارُوا إِلَى الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَيْسَ قِرَاءَتُكُمْ إِلَى قِرَاءَتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صَلَاتُكُمْ إِلَى صَلَاتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ بِشَيْءٍ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لَوْ يَعْلَمُ الْجَيْشُ الَّذِينَ يُصِيبُونَهُمْ، مَا قُضِيَ لَهُمْ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَاتَّكَلُوا عَنِ الْعَمَلِ، وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلًا لَهُ عَضُدٌ، وَلَيْسَ لَهُ ذِرَاعٌ عَلَى رَأْسِ عَضُدِهِ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ، فَتَذْهَبُونَ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَأَهْلِ الشَّامِ، وَتَتْرُكُونَ هَؤُلَاءِ يَخْلُفُونَكُمْ فِي ذَرَارِيِّكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَكُونُوا هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ، فَإِنَّهُمْ قَدْ سَفَكُوا الدَّمَ الْحَرَامَ وَأَغَارُوا فِي سَرْحِ النَّاسِ، فَسِيرُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ "، قَالَ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ: فَنَزَّلَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ مَنْزِلًا، حَتَّى قَالَ: مَرَرْنَا عَلَى قَنْطَرَةٍ فَلَمَّا الْتَقَيْنَا، وَعَلَى الْخَوَارِجِ يَوْمَئِذٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ الرَّاسِبِيُّ، فَقَالَ لَهُمْ: أَلْقُوا الرِّمَاحَ وَسُلُّوا سُيُوفَكُمْ مِنْ جُفُونِهَا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يُنَاشِدُوكُمْ كَمَا نَاشَدُوكُمْ يَوْمَ حَرُورَاءَ، فَرَجَعُوا فَوَحَّشُوا بِرِمَاحِهِمْ وَسَلُّوا السُّيُوفَ وَشَجَرَهُمُ النَّاسُ بِرِمَاحِهِمْ، قَالَ: وَقُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَمَا أُصِيبَ مِنَ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ إِلَّا رَجُلَانِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: الْتَمِسُوا فِيهِمُ الْمُخْدَجَ، فَالْتَمَسُوهُ فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَقَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِنَفْسِهِ حَتَّى أَتَى نَاسًا، قَدْ قُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، قَالَ: أَخِّرُوهُمْ فَوَجَدُوهُ مِمَّا يَلِي الْأَرْضَ فَكَبَّرَ، ثُمَّ قَالَ: صَدَقَ اللَّهُ وَبَلَّغَ رَسُولُهُ، قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ عَبِيدَةُ السَّلْمَانِيُّ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَلِلَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَسَمِعْتَ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِي وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ حَتَّى اسْتَحْلَفَهُ ثَلَاثًا وَهُوَ يَحْلِفُ لَهُ.
سلمہ بن کہیل نے کہا: مجھے زید بن وہب جہنی ؒ نے حدیث سنا ئی کہ وہ اس لشکر میں شامل تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا (اور) خوارج کی طرف روانہ ہوا تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: لو گو!میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہو ئے سنا: "میری امت سے کچھ لو گ نکلیں گے وہ (اس طرح) قرآن پڑھیں گے کہ تمھا ری قراءت ان کی قراءت کے مقابلے میں کچھ نہ ہو گی اور نہ تمھا ری نمازوں کی ان کی نمازوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہو گی اور نہ ہی تمھا رے روزوں کی ان کے روزوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہو گی۔وہ قرآن پڑھیں گے اور خیال کریں گے وہ ان کے حق میں ہے حا لا نکہ وہ ان کے خلا ف ہو گا ان کی نماز ان کی ہنسلیوں سے آگے نہیں بڑھے گی وہ اس طرح تیزرفتا ری کے ساتھ اسلام سے نکل جا ئیں گے جس طرح تیر بہت تیزی سے شکا ر کے اندر سے نکل جا تا ہے۔: "اگر وہ لشکر جو ان کو جا لے گا جا ن لے کہ ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ان کے بارے میں کیا فیصلہ ہوا ہے تو وہ عمل سے (بے نیاز ہو کر صرف اسی عمل پر) بھروسا کر لیں۔اس (گروہ) کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی ہو گا جس کا عضد (بازو، کندھے سے لے کر کہنی تک کا حصہ) ہو گا کلا ئی نہیں ہو گی اس کے بازو کے سر ے پر پستان کی نو ک کی طرح (کا نشان) ہو گا جس پر سفید بال ہوں گے تو لو گ معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کی طرف جا رہے ہو اور ان (لوگوں) کو چھوڑرہے ہو جو تمھا رے بعد تمھا رے بچوں اور اموال پر آپڑیں گے اللہ کی قسم!مجھے امید ہے کہ وہی قوم ہے کیونکہ انھوں نے (مسلمانوں کا) حرمت والا خون بہا یا ہے اور لوگوں کے مویشیوں پر غارت گر ی کی ہے اللہ کا نا م لے کر (ان کی طرف) چلو۔ سلمہ بن کہیل نے کہا: مجھے زید بن وہب نے (ایک ایک) منزل میں اتارا (ہر منزل کے بارے میں تفصیل سے) بتا یا حتیٰ کے بتا یا: ہم ایک پل پر سے گزرے پھر جب ہمارا آمنا سامنا ہوا تو اس روز خوارج کا سپہ سالار عبد اللہ بن وہب راسی تھا اس نے ان سے کہا: اپنے نیزے پھنیک دو اور اپنی تلواریں نیا موں سے نکا ل لو کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ وہ تمھا رے سامنے (صلح کے لیے اللہ کا نا م) پکا ریں گے جس طرح انھوں نے خروراء کے دن تمھا رے سامنے پکا را تھا تو انھوں نے لوٹ کر اپنے نیزے دو ر پھینک دیے اور تلواریں سونت لیں تو لو گ انھی نیزوں کے ساتھ ان پر پل پڑے اور وہ ایک دوسرے پر قتل ہو ئے (ایک کے بعد دوسرا آتا اور قتل ہو کر پہلو ں پر گرتا) اور اس روز (علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینے والے) لو گوں میں سے دو کے سوا کوئی اور قتل نہ ہوا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا ان میں ادھورے ہاتھ والے کو تلا ش کرو لو گوں نے بہت ڈھونڈا لیکن اس کو نہ پا سکے اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ خود اٹھے اور ان لو گوں کے پاس آئے جو قتل ہو کر ایک دوسرے پر گرے ہو ئے تھے آپ نے فرمایا: ان کو ہٹاؤ تو انھوں نے اسے (لا شوں کے نیچے) زمین سے لگا ہوا پا یا۔آپ نے اللہ اکبر کہا پھر کہا: اللہ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسی طرح ہم تک) پہنچا دیا۔ (زید بن وہب نے) کہا عبیدہ سلمانی کھڑے ہو کر آپ کے سامنے حاضر ہو ئے اور کہا اے امیر المومنین! اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لا ئق نہیں!آپ نے واقعی یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟ تو انھوں نے کہا: ہاں اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لا ئق نہیں!حتیٰ کہ اس نے آپ سے تین دفعہ قسم لی اور آپ اس کے سامنے حلف اٹھاتے رہے۔
زید بن وہب جہنی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: کہ وہ اس لشکر میں شامل تھے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا (اور)خوارج کی طرف روانہ ہوا تھا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: لو گو!میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فر تے ہو ئے سنا:"میری امت سے کچھ لو گ نکلیں گے وہ (اس طرح) قرآن پڑھیں گے کہ تمھا ری قراءت ان کی قراءت کے مقابلے میں کچھ نہ ہو گی اور نہ تمھاری نمازوں کی ان کی نمازوں کے مقابلے میں کو ئی حیثیت ہو گی اور نہ ہی تمھا رے روزوں کی ان کے روزوں کے مقابلے میں کو ئی حیثیت ہو گی۔وہ قرآن پڑھیں گے اور خیال کریں گے وہ ان کے حق میں ہے حا لا نکہ وہ ان کے خلا ف ہو گا ان کی نماز ان کی ہنسلیوں سے آگے نہیں بڑھے گی وہ اس طرح تیزرفتا ری کے ساتھ اسلام سے نکل جائیں گے جس طرح تیر بہت تیزی سے شکا ر کے اندر سے نکل جا تا ہے۔:"اگر وہ لشکر جو ان کو جا لے گا جا ن لے کہ ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ان کے بارے میں کیا فیصلہ ہوا ہے تو وہ عمل سے (بے نیاز ہو کر صرف اسی عمل پر) بھروسا کر لیں۔اس (گروہ)کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی ہو گا جس کا عضد(بازو،کندھے سے لے کر کہنی تک کا حصہ) ہو گا کلا ئی نہیں ہو گی اس کے بازو کے سر ے پر پستان کی نو ک کی طرح (کا نشان) ہو گا جس پر سفید بال ہوں گے تو لو گ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اہل شام کی طرف جا رہے ہو اور ان(لوگوں) کو چھوڑرہے ہو جو تمھا رے بعد تمھا رے بچوں اور اموال پر آپڑیں گے اللہ کی قسم!مجھے امید ہے کہ وہی قوم ہے کیونکہ انھوں نے (مسلمانوں کا) حرمت والا خون بہا یا ہے اور لوگوں کے مویشیوں پر غارت گر ی کی ہے اللہ کا نا م لے کر (ان کی طرف) چلو۔سلمہ بن کہیل نے کہا: مجھے زید بن وہب نے (ایک ایک) منزل میں اتارا (ہر منزل کے بارے میں تفصیل سے) بتا یا حتیٰ کے بتا یا:ہم ایک پل پر سے گزرے پھر جب ہمارا آمنا سامنا ہوا تو اس روز خوارج کا سپہ سالار عبد اللہ بن وہب راسی تھا اس نے ان سے کہا: اپنے نیزے پھنیک دو اور اپنی تلواریں نیا موں سے نکا ل لو کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ وہ تمھا رے سامنے (صلح کے لیے اللہ کا نا م) پکا ریں گے جس طرح انھوں نے خروراء کے دن تمھا رے سامنے پکا را تھا تو انھوں نے لوٹ کر اپنے نیزے دو ر پھینک دیے اور تلواریں سونت لیں تو لو گ انھی نیزوں کے ساتھ ان پر پل پڑے اور وہ ایک دوسرے پر قتل ہو ئے (ایک کے بعد دوسرا آتا اور قتل ہو کر پہلو ں پر گرتا) اور اس روز (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساتھ دینے والے) لو گوں میں سے دو کے سوا کو ئی اور قتل نہ ہوا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ان میں ادھورے ہاتھ والے کو تلا ش کرو لو گوں نے بہت ڈھونڈا لیکن اس کو نہ پا سکے اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود اٹھے اور ان لو گوں کے پاس آئے جو قتل ہو کر ایک دوسرے پر گرے ہو ئے تھے آپ نے فر یا:ان کو ہٹاؤ تو انھوں نے اسے (لا شوں کے نیچے) زمین سے لگا ہوا پا یا۔آپ نے اللہ اکبر کہا پھر کہا: اللہ نے سچ فر یا اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسی طرح ہم تک) پہنچا دیا۔(زید بن وہب نے) کہا عبیدہ سلمانی کھڑے ہو کر آپ کے سامنے حاضر ہو ئے اور کہا اے امیر المومنین! اس اللہ کی قسم جس کے سوا کو ئی عبادت کے لا ئق نہیں!آپ نے واقعی یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟ تو انھوں نے کہا: ہاں اس اللہ کی قسم جس کے سوا کو ئی عبادت کے لا ئق نہیں!حتیٰ کہ اس نے آپ سے تین دفعہ قسم لی اور آپ اس کے سامنے حلف اٹھاتے رہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث167  
´خوارج کا بیان۔`
عبیدہ فرماتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کا ذکر کیا، اور ذکر کرتے ہوئے کہا: ان میں ایک آدمی ناقص ہاتھ کا ہے ۱؎، اور اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ تم خوشی سے اترانے لگو گے تو میں تمہیں ضرور بتاتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان سے ان کے قاتلین کے لیے کس ثواب اور انعام و اکرام کا وعدہ فرمایا ہے، میں نے کہا: کیا آپ نے یہ بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ کہا: ہاں، کعبہ کے رب کی قسم! (ضرور سنی ہے)، اسے تین مرتبہ کہا۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 167]
اردو حاشہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج کے بارے میں تفصیل سے بیان فرمایا اور وہ واقعات اسی طرح پیش آئے جس طرح آپ نے بیان فرمائے تھے۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک دلیل ہے۔

(2)
اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی فضیلت ہے جنہوں نے خوارج سے جنگ کی۔

(3)
تاکید کے طور پر قسم کھانا جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 167   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4768  
´چوروں سے مقابلہ کرنے کا بیان۔`
زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس فوج میں شامل تھے جو علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی، اور جو خوارج کی طرف گئی تھی، علی نے کہا: اے لوگو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: میری امت میں کچھ لوگ ایسے نکلیں گے کہ وہ قرآن پڑھیں گے، تمہارا پڑھنا ان کے پڑھنے کے مقابلے کچھ نہ ہو گا، نہ تمہاری نماز ان کی نماز کے مقابلے کچھ ہو گی، اور نہ ہی تمہارا روزہ ان کے روزے کے مقابلے کچھ ہو گا، وہ قرآن پڑھیں گے، اور سمجھیں گے کہ وہ ان کے لیے (ثواب) ہے حالانکہ وہ ان پر (عذاب) ہو گا، ان کی صلاۃ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گی، وہ اسلام سے نکل جا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4768]
فوائد ومسائل:
1: جو اعمال ایمان واخلاص اور تقوی وسنت کے مطابق نہ ہوں، وہ مقدارمیں خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں، اللہ کے ہاں ان کی کوئی قدر نہیں۔

2: عام سیاسی مخالف اور دینی دشمن مقابلے میں ہوں تو مسلمان کو اپنی نظر دینی دشمن پر رکھنی چاہیے۔

3:حضرت علی رضی اللہ وہ خلیفہ راشدتھےجنہوں نے خارجیوں کا قلع قمع کرنے میں سرتوڑکوشش فرمائی۔

4: امام مالک کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت علی رضی اللہ نے سب کے سامنے ایک حقیقت واضح کرنے کے لئے بار بار قسم کے ساتھ جواب دیا، یہ ضرورت کے مطابق تھا، لیکن اس سے نہ سمجھ لیا جائے کہ کسی عام سی بات کو اس طرح کوئی پوچھے تو جواب دینا ضروری ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4768   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2467  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
السرح:
السارح،
السارحة،
چرنے والے مویشی،
(2)
نزلني نزلا:
یعنی نزلني منزلا منزلا،
ایک ایک پڑاؤ کا تذکرہ کیا۔
(3)
قنطرة:
پل جس کا نام دبزجان تھا،
جہاں حضرت علی نے خطاب فرمایا۔
(4)
جفون:
جفن کی جمع ہے میان۔
(5)
وحوا برماحهم،
اپنے نیزے دور پھینک دیے تاکہ تلواریں حائل کریں۔
(6)
شجرهم الناس:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی ان پر پل پڑے،
اور خوارج ڈھیر ہو کر ایک دوسرے پر گرنے لگے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2467