صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ -- زکاۃ کے احکام و مسائل
48. باب التَّحْرِيضِ عَلَى قَتْلِ الْخَوَارِجِ:
باب: خوارج کے قتل پر ابھارنے کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 2468
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ الْحَرُورِيَّةَ لَمَّا خَرَجَتْ وَهُوَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالُوا: لَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّهِ، قَالَ عَلِيٌّ : كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا بَاطِلٌ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفَ نَاسًا إِنِّي لَأَعْرِفُ صِفَتَهُمْ فِي هَؤُلَاءِ، يَقُولُونَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يَجُوزُ هَذَا مِنْهُمْ، وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللَّهِ إِلَيْهِ، مِنْهُمْ أَسْوَدُ إِحْدَى يَدَيْهِ طُبْيُ شَاةٍ أَوْ حَلَمَةُ ثَدْيٍ، فَلَمَّا قَتَلَهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: انْظُرُوا فَنَظَرُوا، فَلَمْ يَجِدُوا شَيْئًا، فَقَالَ: ارْجِعُوا فَوَاللَّهِ مَا كَذَبْتُ وَلَا كُذِبْتُ، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ وَجَدُوهُ فِي خَرِبَةٍ، فَأَتَوْا بِهِ حَتَّى وَضَعُوهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: وَأَنَا حَاضِرُ ذَلِكَ مِنْ أَمْرِهِمْ، وَقَوْلِ عَلِيٍّ فِيهِمْ، زَادَ يُونُسُ فِي رِوَايَتِهِ، قَالَ بُكَيْرٌ: وَحَدَّثَنِي رَجُلٌ، عَنْ ابْنِ حُنَيْنٍ، أَنَّهُ قَالَ: رَأَيْتُ ذَلِكَ الْأَسْوَدَ.
ابو طا ہر اور یو نس بن عبد الاعلی دو نوں نے کہا ہمیں عبد اللہ بن وہب نے خبر دی انھوں نے کہا مجھے عمرو بن حارث نے بکیر اشج سے خبردی انھوں نے بسر بن سعید سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلا م حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبید اللہ سے روایت کی کہ جب حروریہ نے خروج کیا اور وہ (عبیدہ اللہ) حضرت علی بن ابی طا لب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا تو انھوں نے کہا حکومت اللہ کے سوا کسی کی نہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ کلمہ حق ہے جس سے با طل مراد لیا گیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لو گوں کی صفات بیان کیں میں ان لو گو ں میں ان صفات کو خوب پہچا نتا ہوں (آپ نے فرمایا): "وہ اپنی زبانوں سے حق بات کہیں گے اور وہ (حق) ان کی اس جگہ۔۔۔آپ نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا۔۔۔سے آگے نہیں بڑھے گا یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے اس کے ہا ں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہیں ان میں ایک سیاہ رنگ کا آدمی ہو گا اس کا ایک ہا تھ بکرکے تھن یا نوک پستان کی طرح ہو گا جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو قتل کیا ڈھونڈو۔ لو گوں نے ڈھونڈا تو انھیں کچھ نہ ملا فرمایا دوبارہ تلاش کرو اللہ کی قسم! میں نے جھوٹ نہیں بو لا اور نہ مجھے جھوٹ بتا یا گیا دو یا تین دفعہ (یہی فقرہ) کہا پھر انھوں نے اسے ایک کھنڈر میں پالیا تو وہ اسے لے آئے یہاں تک کہ اسے آپ کے سامنے رکھ دیا۔ عبید اللہ نے کہا: میں بے ان کے اس معاملے میں اور ان کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بات کے وقت حاضر تھا۔ یو نس نے اپنی روا یت میں اضافہ کیا: بکیر نے کہا مجھے (عبد اللہ) بن حنین (ہاشمی) سے ایک آدمی نے حدیث بیان کی اس نے کہا میں نے بھی اس کا لے کو دیکھا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلا م حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے عبیداللہ سے روایت ہے کہ جب حروریہ نے خروج کیا اور وہ حضرت علی بن ابی طا لب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا تو انھوں نے کہا حاکم صرف اللہ ہے، فیصلہ کا حق اسی کو ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: حق بات غلط مقصد کے لیے کہی گئی ہے (صحیح بات سے باطل کا ارادہ گیا ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لو گوں کی حالت بیان کی تھی، اور میں وہ وصف ان لوگو ں میں پاتا ہوں (وہ اپنی زبان سے حق بات کہیں گے اور اپنے اپنے حلق کی طرف اشارہ کر کے بتایا۔ اور قرآن اس سے نیچے نہیں اترے گا۔ اللہ کی مخلوق میں سے سب سے زیادہ مبغوض اس کے نزدیک یہی لوگ ہیں، ان میں ایک سیاہ رنگ کا آدمی ہوگا اس کا ایک ہا تھ بکری کے تھن یا عورت کے سرِ پستان کی طرح ہے) جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو قتل کیا تو کہا، اسے تلاش کرو، بوگوں نے اسے تلاش کیا۔ لیکن انہیں کچھ نہ ملا، فرمایا دوبارہ تلاش کرو، کیونکہ اللہ کی قسم! میں نے جھوٹ نہیں بولا اور نہ مجھے جھوٹ بتایا گیا ہے، دو یا تین دفعہ کہا۔ پھر وہ ایک کھنڈر میں مل گیا، تو لوگوںنے لا کر ان کے سامنے رکھ دیا۔ عبید اللہ کہتے ہیں میں بھی اس معاملہ کو دیکھ رہا تھا (وہاں موجود تھا) اور ان کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات کو سنا تھا۔ یو نس کی روایت میں ہے۔ بکیر نے کہا مجھے ایک آدمی نے ابن حنین کے واسطے سے بتایا۔ اس نے کہا میں نے اس سیاہ آدمی کو دیکھا تھا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث167  
´خوارج کا بیان۔`
عبیدہ فرماتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کا ذکر کیا، اور ذکر کرتے ہوئے کہا: ان میں ایک آدمی ناقص ہاتھ کا ہے ۱؎، اور اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ تم خوشی سے اترانے لگو گے تو میں تمہیں ضرور بتاتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان سے ان کے قاتلین کے لیے کس ثواب اور انعام و اکرام کا وعدہ فرمایا ہے، میں نے کہا: کیا آپ نے یہ بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ کہا: ہاں، کعبہ کے رب کی قسم! (ضرور سنی ہے)، اسے تین مرتبہ کہا۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 167]
اردو حاشہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج کے بارے میں تفصیل سے بیان فرمایا اور وہ واقعات اسی طرح پیش آئے جس طرح آپ نے بیان فرمائے تھے۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک دلیل ہے۔

(2)
اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی فضیلت ہے جنہوں نے خوارج سے جنگ کی۔

(3)
تاکید کے طور پر قسم کھانا جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 167   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4768  
´چوروں سے مقابلہ کرنے کا بیان۔`
زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس فوج میں شامل تھے جو علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی، اور جو خوارج کی طرف گئی تھی، علی نے کہا: اے لوگو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: میری امت میں کچھ لوگ ایسے نکلیں گے کہ وہ قرآن پڑھیں گے، تمہارا پڑھنا ان کے پڑھنے کے مقابلے کچھ نہ ہو گا، نہ تمہاری نماز ان کی نماز کے مقابلے کچھ ہو گی، اور نہ ہی تمہارا روزہ ان کے روزے کے مقابلے کچھ ہو گا، وہ قرآن پڑھیں گے، اور سمجھیں گے کہ وہ ان کے لیے (ثواب) ہے حالانکہ وہ ان پر (عذاب) ہو گا، ان کی صلاۃ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گی، وہ اسلام سے نکل جا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4768]
فوائد ومسائل:
1: جو اعمال ایمان واخلاص اور تقوی وسنت کے مطابق نہ ہوں، وہ مقدارمیں خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں، اللہ کے ہاں ان کی کوئی قدر نہیں۔

2: عام سیاسی مخالف اور دینی دشمن مقابلے میں ہوں تو مسلمان کو اپنی نظر دینی دشمن پر رکھنی چاہیے۔

3:حضرت علی رضی اللہ وہ خلیفہ راشدتھےجنہوں نے خارجیوں کا قلع قمع کرنے میں سرتوڑکوشش فرمائی۔

4: امام مالک کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت علی رضی اللہ نے سب کے سامنے ایک حقیقت واضح کرنے کے لئے بار بار قسم کے ساتھ جواب دیا، یہ ضرورت کے مطابق تھا، لیکن اس سے نہ سمجھ لیا جائے کہ کسی عام سی بات کو اس طرح کوئی پوچھے تو جواب دینا ضروری ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4768