صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ -- روزوں کے احکام و مسائل
11. باب النَّهْيِ عَنِ الْوِصَالِ فِي الصَّوْمِ:
باب: صوم و صال کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 2571
حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ التَّيْمِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَاصَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَوَّلِ شَهْرِ رَمَضَانَ، فَوَاصَلَ نَاسٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَبَلَغَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: " لَوْ مُدَّ لَنَا الشَّهْرُ، لَوَاصَلْنَا وِصَالا يَدَعُ الْمُتَعَمِّقُونَ تَعَمُّقَهُمْ، إِنَّكُمْ لَسْتُمْ مِثْلِي، أَوَ قَالَ: إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ، إِنِّي أَظَلُّ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي ".
۔ عاصم بن نضر تیمی، خالد، ابن حارث، حمید، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینہ کے آخر میں وصال کے روزے رکھے تو مسلمانوں میں سےکچھ لوگوں نے وصال کے روزے رکھنے شروع کردیئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ہمارے لئے یہ مہینہ لمبا ہوجائے تو میں اس قدر وصال کے روزے رکھتا کہ ضد کرنے والے اپنی ضدچھوڑ دیتے کیونکہ تم میری طرح نہیں ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں تو اس حالت میں رات گزارتا ہوں۔کہ میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتاہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان کے شروع میں وصال کیا تو کچھ مسلمانوں نے بھی وصال کرنا شروع کر دیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم تک بھی اطلاع پہنچ گئی۔ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر ہمارا ماہ طویل کر دیا جاتا تو ہم اس اندازسے وصال کرتے کہ انتہا پسند اپنی انتہا پسندی سے رک جائے، تم میرے جیسے نہیں ہو، یا فرمایا: میں تمھارے مثل نہیں ہوں کیونکہ میں دن اس حال میں گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 778  
´افطار کیے بغیر مسلسل روزہ رکھنے کی کراہت کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صوم وصال ۱؎ مت رکھو، لوگوں نے عرض کیا: آپ تو رکھتے ہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 778]
اردو حاشہ:
1؎:
صوم وصال یہ ہے کہ آدمی قصداً دو یا دو سے زیادہ دن تک افطار نہ کرے،
مسلسل روزے رکھے نہ رات میں کچھ کھائے پیئے اور نہ سحری ہی کے وقت،
صوم وصال نبی اکرم ﷺ کے لیے جائز تھا لیکن امت کے لیے جائز نہیں۔

2؎:
میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے اسے جمہور نے مجازاً قوت پر محمول کیا ہے کہ کھانے پینے سے جو قوت حاصل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ وہ قوت مجھے یوں ہی بغیر کھائے پیے دے دیتا ہے،
اور بعض نے اسے حقیقت پر محمول کرتے ہوے کھانے پینے سے جنت کا کھانا پینا مراد لیا ہے،
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے معارف کی ایسی غذا کھلاتا ہے جس سے آپ کے دل پر لذت سرگوشی ومناجات کا فیضان ہوتا ہے،
اللہ کے قرب سے آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے اور اللہ کی محبت کی نعمت سے آپ کو سرشاری نصیب ہوتی ہے اور اس کی جناب کی طرف شوق میں افزونی ہوتی ہے،
یہ ہے وہ غذا جو آپ کو اللہ کی جانب سے عطا ہوتی ہے،
یہ روحانی غذا ایسی ہے جو آپ کو دنیوی غذا سے کئی کئی دنوں تک کے لیے بے نیاز کر دیتی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 778   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2571  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
التَعَمِّقُ:
عمق و گہرائی میں اترنا،
معاملہ میں مبالغہ،
شدت اور انتہا پسندی اختیار کرنا۔
حد سے تجاوز کرنا۔
اول شهر رمضان راوی کا وہم ہے کیونکہ یہ بعد والے الفاظ سے مناسبت اور مطابقت نہیں رکھتا،
اور مذکورہ بالا روایت کے بھی مخالف ہے۔
اس لیے یہاں بھی في آخر شهر رمضان ہونا چاہیے،
جیسا کہ بعض نسخوں میں ہے۔
(2)
أَظَلُّ:
میں دن گزارتا ہوں۔
ابيت:
میں رات گزارتا ہوں۔
(3)
تمادلنا:
مدلنا:
لمبا ہو جاتا دن بڑھ جاتے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2571