صحيح البخاري
كِتَاب الْعِيدَيْنِ -- کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
17. بَابُ اسْتِقْبَالِ الإِمَامِ النَّاسَ فِي خُطْبَةِ الْعِيدِ:
باب: امام عید کے خطبے میں لوگوں کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو۔
قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُقَابِلَ النَّاسِ.
‏‏‏‏ ابوسعید فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے۔
حدیث نمبر: 976
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ:" خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أَضْحًى إِلَى الْبَقِيعِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، وَقَالَ: إِنَّ أَوَّلَ نُسُكِنَا فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نَبْدَأَ بِالصَّلَاةِ، ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ وَافَقَ سُنَّتَنَا، وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلَ ذَلِكَ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْءٌ عَجَّلَهُ لِأَهْلِهِ لَيْسَ مِنَ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي ذَبَحْتُ وَعِنْدِي جَذَعَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُسِنَّةٍ، قَالَ: اذْبَحْهَا وَلَا تَفِي عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن طلحہ نے بیان کیا، ان سے زبید نے، ان سے شعبی نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی کے دن بقیع کی طرف تشریف لے گئے اور دو رکعت عید کی نماز پڑھائی۔ پھر ہماری طرف چہرہ مبارک کر کے فرمایا کہ سب سے مقدم عبادت ہمارے اس دن کی یہ ہے کہ پہلے ہم نماز پڑھیں پھر (نماز اور خطبے سے) لوٹ کر قربانی کریں۔ اس لیے جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کر دیا تو وہ ایسی چیز ہے جسے اس نے اپنے گھر والوں کے کھلانے کے لیے جلدی سے مہیا کر دیا ہے اور اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس پر ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے تو پہلے ہی ذبح کر دیا۔ لیکن میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے اور وہ دوندی بکری سے زیادہ بہتر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خیر تم اسی کو ذبح کر لو لیکن تمہارے بعد کسی کی طرف سے ایسی پٹھیا جائز نہ ہو گی۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1508  
´نماز عید کے بعد قربانی کرنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا، آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا: جب تک نماز عید ادا نہ کر لے کوئی ہرگز قربانی نہ کرے۔‏‏‏‏ براء کہتے ہیں: میرے ماموں کھڑے ہوئے ۱؎، اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے جس میں (زیادہ ہونے کی وجہ سے) گوشت قابل نفرت ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اپنی قربانی جلد کر دی تاکہ اپنے بال بچوں اور گھر والوں یا پڑوسیوں کو کھلا سکوں؟ آپ نے فرمایا: پھر دوسری قربانی کرو، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس دودھ پیتی پٹھیا ہے اور گوشت والی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1508]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ان کا نام ابوبردہ بن نیار تھا۔

2؎:
یعنی یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے کیوں کہ تمہارے لیے اس وقت مجبوری ہے ورنہ قربانی میں مسنہ (دانتایعنی دودانت والا) ہی جائز ہے،
بکری کا جذعہ وہ ہے جو سال پورا کرکے دوسرے سال میں قدم رکھ چکا ہواس کی بھی قربانی صرف ابوبردہ کے لیے جائز کی گئی تھی،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت صلاۃ عید کے بعد ہے،
اگر کسی نے صلاۃ عید کی ادائیگی سے پہلے ہی جانور ذبح کردیا تو اس کی قربانی نہیں ہوئی،
اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے۔

3؎:
بھیڑ کے جذعہ (چھ ماہ) کی قربانی عام مسلمانوں کے لیے دانتا میسر نہ ہونے کی صورت میں جائز ہے،
جب کہ بکری کے جذعہ (ایک سالہ) کی قربانی صرف ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے لیے جائز کی گئی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1508   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2801  
´کس عمر کے جانور کی قربانی جائز ہے؟`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے ابوبردہ نامی ایک ماموں نے نماز سے پہلے قربانی کر لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس بکریوں میں سے ایک پلی ہوئی جذعہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی کو ذبح کر ڈالو، لیکن تمہارے سوا اور کسی کے لیے ایسا کرنا درست نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2801]
فوائد ومسائل:
مذکورہ بالا احادیث 2798 اور 2799 کو اسی پر محمول کرنا راحج ہے۔
کہ بھیڑ کا ایک سالہ جانور جو دو دانتا نہ ہو جائزہے۔
مگر بکری کی قسم سے جائز نہیں۔
جیسا کہ تفصیل میں گزر چکا ہے۔
دیکھئے (فوائد ومسائل حدیث 2797)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2801   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 976  
976. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ عیدالاضحیٰ کے دن نکلے اور دو رکعت نماز عید ادا کی، پھر ہماری طرف منہ کر کے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ہماری اس دن سب سے پہلی عبادت یہ ہونی چاہئے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر واپس ہوں اور قربانی کریں۔ جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کام کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر دی تو وہ گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کیا ہے، قربانی نہیں ہے۔اس دوران میں ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! میں نے تو (نماز سے پہلے قربانی) ذبح کر دی ہے اور اب میرے پاس ایک سالہ بھیڑ کا بچہ ہے جو دو دانتے سے کہیں بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: تم اسی کو ذبح کر دو لیکن تمہارے بعد کسی اور کے لیے کافی نہیں ہو گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:976]
حدیث حاشیہ:
سوال کرنے والے ابو بردہ بن نیار انصاری ؓ تھے۔
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 976   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:976  
976. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ عیدالاضحیٰ کے دن نکلے اور دو رکعت نماز عید ادا کی، پھر ہماری طرف منہ کر کے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ہماری اس دن سب سے پہلی عبادت یہ ہونی چاہئے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر واپس ہوں اور قربانی کریں۔ جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کام کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کر دی تو وہ گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کیا ہے، قربانی نہیں ہے۔اس دوران میں ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! میں نے تو (نماز سے پہلے قربانی) ذبح کر دی ہے اور اب میرے پاس ایک سالہ بھیڑ کا بچہ ہے جو دو دانتے سے کہیں بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: تم اسی کو ذبح کر دو لیکن تمہارے بعد کسی اور کے لیے کافی نہیں ہو گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:976]
حدیث حاشیہ:
(1)
پھر ہماری طرف منہ کر کے کھڑے ہوئے ان الفاظ سے امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان ثابت ہوتا ہے۔
(2)
ایک روایت میں ہے کہ نماز کے بعد لوگ صفوں میں بیٹھے رہتے اور رسول اللہ ﷺ ان کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوتے اور خطبہ دیتے۔
(صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 956)
ابن حبان کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جہاں نماز پڑھتے وہیں لوگوں کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاتے۔
(فتح الباري: 579/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 976