صحيح مسلم
كِتَاب الصِّيَامِ -- روزوں کے احکام و مسائل
40. باب فَضْلِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِهَا وَبَيَانِ مَحِلِّهَا وَأَرْجَى أَوْقَاتِ طَلَبِهَا:
باب: شب قدر کی فضیلت اور اس کو تلاش کرنے کی ترغیب، اور اس کے تعین کا بیان۔
حدیث نمبر: 2774
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ مِنْ رَمَضَانَ، يَلْتَمِسُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ قَبْلَ أَنْ تُبَانَ لَهُ، فَلَمَّا انْقَضَيْنَ أَمَرَ بِالْبِنَاءِ فَقُوِّضَ، ثُمَّ أُبِينَتْ لَهُ أَنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَأَمَرَ بِالْبِنَاءِ فَأُعِيدَ، ثُمَّ خَرَجَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهَا كَانَتْ أُبِينَتْ لِي لَيْلَةُ الْقَدْرِ، وَإِنِّي خَرَجْتُ لِأُخْبِرَكُمْ بِهَا، فَجَاءَ رَجُلَانِ يَحْتَقَّانِ مَعَهُمَا الشَّيْطَانُ فَنُسِّيتُهَا، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، الْتَمِسُوهَا فِي التَّاسِعَةِ وَالسَّابِعَةِ وَالْخَامِسَةِ "، قَالَ: قُلْتُ يَا أَبَا سَعِيدٍ: إِنَّكُمْ أَعْلَمُ بِالْعَدَدِ مِنَّا، قَالَ: أَجَلْ، نَحْنُ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْكُمْ، قَالَ: قُلْتُ: مَا التَّاسِعَةُ وَالسَّابِعَةُ وَالْخَامِسَةُ، قَالَ: إِذَا مَضَتْ وَاحِدَةٌ وَعِشْرُونَ فَالَّتِي تَلِيهَا ثِنْتَيْنِ وَعِشْرِينَ وَهِيَ التَّاسِعَةُ، فَإِذَا مَضَتْ ثَلَاثٌ وَعِشْرُونَ فَالَّتِي تَلِيهَا السَّابِعَةُ، فَإِذَا مَضَى خَمْسٌ وَعِشْرُونَ فَالَّتِي تَلِيهَا الْخَامِسَةُ، وَقَالَ ابْنُ خَلَّادٍ: مَكَانَ يَحْتَقَّانِ يَخْتَصِمَانِ.
محمد بن مثنیٰ اورابو بکر بن خلاد نے کہا: ہمیں عبد الارلیٰ نے حدیث بیا ن کی، انھوں نے کہا: ہمیں سعید نے ابو نضر ہ سے اور انھوں نےحضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضا ن کے درمیا نے عشرے کا اعتکاف کیا اس سے پہلے کہ آپ کے سامنے اس اس کو کھول دیا جا ئے۔آپ لیلۃالقدر کو تلاش کر ہے تھے۔ جب یہ (دس راتیں) ختم ہو گئیں تو آپ نے حکم دیا اور ان خیموں کو اکھا ڑدیا گیا پھر (وہ رات) آپ پر واضح کر دی گئی کہ وہ آخری عشرے میں ہے۔اس پر آپ نے (خیمے لگا نے کا) حکم دیا تو ان کو دوبارہ لگا دیا گیا۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کر لوگوں کے سامنے آئے اور فرمایا: "اے لوگو! مجھ پر لیلۃالقدر واضھ کر دی گئی اور میں تم کو اس کے بارے میں بتا نے کے لیے نکلا تو دو آدمی (ایک دوسرے پر) اپنے حق کا دعویٰ کرتے ہو ئے آئے ان کے ساتھ شیطان تھا۔اس پر وہ مجھے بھلا دی گئی۔تم اسے رمضا ن کے آخری عشرے میں تلا ش کرو۔تم نویں ساتویں اور پانچویں (رات) میں تلاش کرو۔ (ابو نضرہ نے) کہا: میں نے کہا: ابو سعید!ہماری نسبت آپ اس گنتی کو زیادہ جانتے ہیں انھوں نے کہا: ہاں ہم اسے جاننے کے تم تم سے زیادہ حقدار ہیں۔کہا میں نے پوچھا: نویں، ساتویں، اور پانچویں سے کیا مراد ہے؟انھوں نے جواب دیا: جب اکیسویں رات گزرتی ہے تو وہی رات جس کے بعد بائیسویں آتی ہے وہی نویں ہے اور جب تیئسویں رات گزرتی ہے تو وہی جس کے بعد (آخر سے گنتے ہو ئے ساتویں رات آتی ہے) ساتویں ہے اس کے بعد جب پچسویں رات گزرتی ہے تو وہی جس کے بعد پانچویں رات آتی ہے) پانچویں ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں درمیانی عشرہ کا شب قدر کی تلاش میں اعتکاف کیا۔ جبکہ ابھی آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم نہیں دیا گیا تھا جب یہ دن رات ختم ہو گئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے خیموں کو اکھاڑنے کا حکم دیا پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ وہ آخری عشرے میں ہے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ خیمہ لگانے کا حکم دیا پھر لوگوں کے سامنے آئے اور فرمایا: اے لوگو! شب قدر میرے لیے بیان کر دی گئی تھی اور میں تمھیں بتانے کے لیے نکلا تو دو آدمی آئے ان میں سے ہر ایک حق پر ہونے کا دعوی کر رہا تھا ان کے ساتھ شیطان تھا تو میں وہ بھول گیا پس اسے رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔ اسے نویں ساتویں پانچویں میں تلاش کرو۔ ابو نضرہ کہتے ہیں میں نے کہا: اے ابو سعید! ہماری نسبت اس گنتی کو آپصلی اللہ علیہ وسلم لوگ زیادہ جانتے ہیں؟ انھوں نے کہا: ہاں اس کام کے ہم لوگ تمھارے بہ نسبت زیادہ حقدار ہیں ابو نضرہ کہتے ہیں میں نے پوچھا نویں ساتویں اور پانچویں سے کیا مراد ہے؟ انھوں نے جواب دیا جب بیس کے بعد ایک گزر جائے تو اس سے متصل بائیس ہے وہ نویں میں واجب تیئسویں گزر جائے اس کے بعد جو رات آئے گی وہ ساتویں ہے۔ تو جب پچیسیویں رات گزر جائے گی تو اس کے ساتھ والی پانچویں ہے۔ ابن خلاد نے يَحْتَقَّانِ ہر ایک حق پر ہونے کا دعوی کر رہا تھا) کی جگہ يَخْتَصِمَانِ کہا ہے کہ وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1766  
´لیلۃ القدر (شب قدر) کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے شب قدر خواب میں دکھائی گئی لیکن پھر مجھ سے بھلا دی گئی، لہٰذا تم اسے رمضان کے آخری عشرہ (دہے) کی طاق راتوں میں ڈھونڈھو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1766]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
شب قدر سال کی سب سے افضل رات ہے اس کی ایک رات کی عبا دت ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ فضیلت کی حامل ہے (القدر: 97/3)

(2)
شب قدر کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے اعتکاف کرنا سنت ہے البتہ جو شخص اعتکاف نہ کر سکے اسے بھی راتیں عبادت میں گزارنے کی کو شش کرنی چاہیے
(3)
  شب قدر بھلائے جا نے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ با ت یا د نہ رہی کہ اس سال کون سی رات شب قدر ہے ہر سال اسی رات میں ہونا ضروری نہیں۔

(4)
شب قدر آخری عشرے کی طا ق راتو ں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے اس لئے جو شخص دس راتیں عبادت نہ کر سکے اسے یہ پا نچ راتیں ضرور عبادت اور تلاوت و ذکر میں گزارنی چاہیں تاکہ شب قدر کی عظیم نعمت سے محروم نہ رہے
(5)
اگرچہ علمائے کرام نے شب قدر کی بعض علامتیں بیان کی ہیں لیکن ثواب کا دارومدار اس چیز پر نہیں کہ عبادت کرنے والے کو یہ رات معلوم ہوئی یا نہیںں اس لئے اس پریشانی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں فلاں فلاں علامت کا احسا س نہیں ہوا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1766   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2774  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آخری عشرے کی راتوں کا شمار اگر ماہ کے آخری طرف سے کیا جائے اور مہینہ تیس کا ہوتو جو تفسیر ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے وہ درست ہے،
لیکن اگرآغاز،
آخری عشرہ کے آغاز سے کیا جائے تو مراد اکیسویں،
تئیسویں،
پچیسویں ہو گا اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کی رو سے اس سال شب قدر اکیسویں تھی اور آپﷺ نے حکم بھی یہی دیا ہے کہ شب قدر طاق راتوں میں تلاش کرو،
اسی طرح عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کی رو سے یہ رات تئیسویں تھی،
اس لیے ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کا یہ معنی کرنا ہو گا نویں کے بعد والی یعنی اکیسویں،
ساتویں کے بعد والی تھی تئیسویں،
پانچویں کے بعد والی تھی پچیسویں وگرنہ بائیسویں،
چوبیسویں،
اور چھبیسویں تو طاق راتیں نہیں ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2774